فضلاء ِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے جو بدر میں شرکت سے رہ گئی تھی ، بڑھ کر نبیﷺ کو مشورہ دیا کہ میدان میں تشریف لے چلیں اور انہوں نے اپنی اس رائے پر سخت اصرار کیا ، حتیٰ کہ بعض صحابہؓ نے کہا : ''اے اللہ کے رسول! ہم تو اس دن کی تمنا کیا کرتے تھے اور اللہ سے اس کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ اب اللہ نے یہ موقع فراہم کردیا ہے اور میدان میں نکلنے کا وقت آگیا ہے توپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے مد ِ مقابل ہی تشریف لے چلیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم ڈر گئے ہیں۔
ان گرم جوش حضرات میں خود رسول اللہﷺ کے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب سر فہرست تھے جو معرکہ ٔ بدر میں اپنی تلوار کا جوہر دکھلا چکے تھے۔ انہوں نے نبیﷺ سے عرض کی کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی میں کوئی غذانہ چکھوں گا یہاں تک کہ مدینہ سے باہر اپنی تلوار کے ذریعے ان سے دودو ہاتھ کر لوں۔( سیرۃ حلبیہ ۲/۱۴)
رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کے اصرار کے سامنے اپنی رائے ترک کردی اور آخری فیصلہ یہی ہوا کہ مدینے سے باہر نکل کر کھلے میدان میں معرکہ آرائی کی جائے۔ اس کے بعد نبیﷺ نے جمعہ کی نماز پڑھائی تو وعظ ونصیحت کی ، جد وجہد کی ترغیب دی اور حکم دیا کہ دشمن سے مقابلے کے لیے تیار ہو جائیں۔
اس کے بعد جب آپﷺ نے عصر کی نماز پڑھی تو اس وقت تک لوگ جمع ہوچکے تھے۔ عَوَالی کے باشندے بھی آچکے تھے۔ نماز کے بعد آپﷺ اندر تشریف لے گئے۔ ساتھ میں ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ انہوں نے آپﷺ کے سر پر عَمامَہ باندھا اور لباس پہنایا۔ آپﷺ نے نیچے اوپر دو زِرہیں پہنیں ، تلوار حمائل کی اور ہتھیار سے آراستہ ہوکر لوگوں کے سامنے تشریف لائے۔
لوگ آپﷺ کی آمد کے منتظرتو تھے ہی لیکن اس دوران حضرت سعد بن معاذ اور اُسَیْد بن حُضیر رضی اللہ عنہما نے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگوں نے رسول اللہﷺ کو میدان میں نکلنے پر زبردستی آمادہ کیا ہے، لہٰذا معاملہ آپﷺ ہی کے حوالے کر دیجیے۔ یہ سن کر سب لوگوں نے ندامت محسوس کی اور جب آپﷺ باہر تشریف لائے تو آپﷺ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! ہمیں آپ کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ آپﷺ کو جو پسند ہو وہی کیجیے۔ اگر آپﷺ کو یہ پسند ہے کہ مدینے میں رہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیجیے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' کوئی نبی جب اپنا ہتھیار پہن لے تو مناسب نہیں کہ اسے اتار ے تا آنکہ اللہ اس کے درمیان اور اس کے دشمن کے درمیا ن فیصلہ فرمادے ۔''(مسند احمد ، نسائی ،حاکم۔ ابن اسحاق اور بخاری نے الاعتصام ، باب نمبر ۲۸ کے ترجمۃ الباب میں ذکر کیا ہے)
اس کے بعد نبیﷺ نے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا :
مہاجرین کا دستہ : اس کا پرچم حضرت مُصْعب بن عُمیر عبدریؓ کو عطاکیا۔
قبیلۂ اوس(انصار ) کا دستہ : اس کا علم حضرت اُسید بن حضیرؓ کو عطافرمایا۔
قبیلہ خزرج (انصار )کا دستہ : اس کا عَلَم حباب بن منذرؓ کو عطا فرمایا۔
پورا لشکر ایک ہزار مردانِ جنگی پر مشتمل تھا جن میں ایک سو زِرہ پوش اور پچاس شہسوار تھے۔ یہ بات ابن قیم نے زاد المعاد ۲/۹۲ میں بیان کی ہے۔ حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ یہ فاش غلطی ہے۔ موسیٰ بن عقبہ نے جزم کے ساتھ کہا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ ِ اُحد میں سرے سے کوئی گھوڑا تھا ہی نہیں۔ واقدی کا بیان ہے کہ صرف دوگھوڑے تھے ، ایک رسول اللہﷺ کے پاس۔ اور ایک ابو بُردہؓ کے پاس۔ (فتح الباری ۷/۳۵۰)
حضرت ابن ام مکتومؓ کو اس کام پر مقرر فرمایا کہ وہ مدینے کے اندر رہ جانے والے لوگوں کو نماز پڑھائیں گے۔ اس کے بعد کوچ کا اعلان فرمایا اور لشکر نے شمال کا رُخ کیا۔ حضرت سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما زرہ پہنے نبیﷺ کے آگے چل رہے تھے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔