Saturday, 29 August 2015

مسلمانوں کا حالات پر قابو اور قریش کا آخری حملہ


ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب رسول اللہﷺ گھاٹی میں تشریف لاچکے تو اُبی بن خلف یہ کہتا ہوا آیا کہ محمد کہاں ہے ؟ یاتو میں رہوں گا یا وہ رہے گا۔ صحابہ نے کہا : یارسول اللہ !ہم میں سے کوئی اس پر حملہ کرے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اسے آنے دو۔ جب قریب آیا تو رسول اللہﷺ نے حارث بن صمہ سے ایک چھوٹا سا نیزہ لیا۔ اور لینے کے بعد جھٹکا دیا تو اس طرح لوگ ادھر ادھر اڑ گئے جیسے اُونٹ اپنے بدن کو جھٹکا دیتا ہے تو مکھیاں اُڑ جاتی ہیں۔ اس کے بعد آپﷺ اس کے مد مقابل پہنچے۔ اس کی خود اور زِرہ کے درمیان حلق کے پاس تھوڑی سی جگہ کھُلی دکھائی پڑی۔ آپﷺ نے اسی پر ٹکا کر ایسا نیزہ مارا کہ وہ گھوڑے سے کئی بار لڑھک لڑھک گیا۔ جب قریش کے پاس گیا - درآں حالیکہ گردن میں کوئی بڑی خراش نہ تھی۔ البتہ خون بند تھا اور بہتا نہ تھا - توکہنے لگا : مجھے واللہ! محمد نے قتل کردیا۔لوگوں نے کہا : اللہ کی قسم ! تمہارا دل چلا گیا ہے۔ ورنہ تمہیں واللہ کوئی خاص چوٹ نہیں ہے۔ اس نے کہا : وہ مکے میں مجھ سے کہہ چکا تھا کہ میں تمہیں قتل کروں گا۔(اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ ہے کہ جب مکے میں ابی بن خلف کی ملاقات رسول اللہﷺ سے ہوتی تو وہ آپ سے کہتا : اے محمد! میرے پاس عود نامی ایک گھوڑا ہے۔ میں اسے روزانہ تین صاع (ساڑھے سات کلو) دانہ کھلاتا ہوں۔ اسی پر بیٹھ کر تمہیں قتل کروں گا۔ جواب میں رسول اللہﷺ فرماتے تھے : بلکہ ان شاء اللہ میں تمہیں قتل کروں گا)۔اس لیے اللہ کی قسم! اگر وہ مجھ پرتھوک دیتا تو بھی میری جان چلی جاتی۔ بالآخر اللہ کا یہ دشمن مکہ واپس ہوتے ہوئے مقام سرف پہنچ کر مر گیا۔( ابن ہشام ۲/۸۴۔ زاد المعاد ۲/۹۷) ابو الاسود نے حضرت عروہ سے روایت کی ہے کہ یہ بیل کی طرح آواز نکالتا تھا اور کہتا تھا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو تکلیف مجھے ہے اگر وہ ذی المجاز کے سارے باشندوں کوہوتی تو وہ سب کے سب مرجاتے۔( مستدرک حاکم ۲/۳۲۷)
پہاڑ کی طرف نبیﷺ کی واپسی کے دوران ایک چٹان پڑگئی۔ آپﷺ نے اس پر چڑھنے کی کوشش کی مگر چڑھ نہ سکے۔ کیونکہ ایک تو آپ کا بدن بھاری ہوچکا تھا۔ دوسرے آپﷺ نے دوہری زِرہ پہن رکھی تھی۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت چوٹیں بھی آئی تھیں۔ لہٰذا حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ نیچے بیٹھ گئے۔ اورآپﷺ کو سوار کرکے کھڑے ہوگئے۔ اس طرح آپ چٹان پر پہنچ گئے۔ ''(ابن ہشام ۲/۸۶، ترمذی حدیث نمبر ۱۶۹۲ )
جب رسول اللہﷺ گھاٹی کے اندر اپنی قیادت گاہ میں پہنچ گئے تو مشرکین نے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی آخری کوشش کی۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اس اثناء میں کہ رسول اللہﷺ گھاٹی کے اندر تشریف فرماتھے۔ ابو سفیان اور خالد بن ولید کی قیادت میں مشرکین کاایک دستہ چڑھ آیا، رسول اللہﷺ نے دُعا فرمائی کہ اے اللہ ! یہ ہم سے اوپر نہ جانے پائیں۔ پھر حضرت عمرؓ بن خطاب اور مہاجرین کی ایک جماعت نے لڑکر انہیں پہاڑ سے نیچے اتار دیا۔( ابن ہشام ۲/۸۶)
یہ آخری حملہ تھا جو مشرکین نے نبیﷺ کے خلاف کیا تھا ، چونکہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انجام کا صحیح علم نہ تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ﷺ کی شہادت کا تقریباً یقین تھا، اس لیے انہوں نے اپنے کیمپ کی طرف پلٹ کر مکہ واپسی کی تیاری شروع کردی۔ کچھ مشرکین مرد اور عورتیں مسلمان شہداء کے مثلہ میں مشغول ہوگئے۔ یعنی شہیدوں کی شرمگاہیں اور کان ، ناک وغیرہ کاٹ لیے۔ پیٹ چیر دیے۔(ابن ہشام ۲/۹۰)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔