اعراب کی شوکت توڑدینے اور بدوؤں کے شر سے مطمئن ہوجانے کے بعد مسلمانوں نے اپنے بڑے دشمن (قریش ) سے جنگ کی تیاری شروع کردی۔ کیونکہ سال تیزی سے ختم ہورہا تھا۔ اور احد کے موقع پر طے کیا ہوا وقت قریب آتا جارہا تھا۔ اور محمدﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فرض تھا کہ میدان کار زار میں ابو سفیان اور اس کی قوم سے دودوہاتھ کرنے کے لیے نکلیں اور جنگ کی چکی اس حکمت کے ساتھ چلائیں کہ جو فریق زیادہ ہدایت یافتہ اور پائیدار بقاء کا مستحق ہو حالات کا رُخ پوری طرح اس کے حق میں ہوجائے۔
چنانچہ شعبان ۴ ھ جنوری ۶۲۶ ء میں رسول اللہﷺ نے مدینے کا انتظام حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کو سونپ کرا س طے شدہ جنگ کے لیے بدر کا رُخ فرمایا۔ آپﷺ کے ہمراہ ڈیڑھ ہزار کی جمعیت اور دس گھوڑے تھے۔ آپﷺ نے فوج کا عَلَم حضرت علیؓ کو دیا اور بدر پہنچ کر مشرکین کے انتظار میں خیمہ زن ہوگئے۔
دوسری طرف ابو سفیان بھی پچاس سوار سمیت دوہزارمشرکین کی جمعیت لے کر روانہ ہوا۔ اور مکے سے ایک مرحلہ دور وادی مَرا لظَّہران پہنچ کر مجنہ نام کے مشہور چشمے پر خیمہ زن ہوا۔ لیکن وہ مکہ ہی سے بوجھل اور بددل تھا۔ باربار مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی جنگ کاا نجام سوچتا تھا۔ اور رعب وہیبت سے لرز اٹھتا تھا۔ مَر الظَّہران پہنچ کر اس کی ہمت جواب دے گئی۔ اور وہ واپسی کے بہانے سوچنے لگا۔ بالآخر اپنے ساتھیوں سے کہا : قریش کے لوگو! جنگ اس وقت موزوں ہوتی ہے جب شادابی او ر ہریالی ہوکہ جانور بھی چر سکیں اور تم بھی دودھ پی سکو۔ اس وقت خشک سالی ہے لہٰذا میں واپس جارہا ہوں۔ تم بھی واپس چلے چلو۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے ہی لشکر کے اعصاب پر خوف وہیبت سوار تھی کیونکہ ابو سفیان کے اس مشورہ پر کسی قسم کی مخالفت کے بغیر سب نے واپسی کی راہ لی اور کسی نے بھی سفر جاری رکھنے اور مسلمانوں سے جنگ لڑنے کی رائے نہ دی۔
ادھر مسلمانوں نے بدر میں آٹھ روز تک ٹھہر کر دشمن کا انتظار کیا۔ اور اس دوران اپنا سامانِ تجارت بیچ کر ایک درہم کے دودرہم بناتے رہے۔ اس کے بعد اس شان سے مدینہ واپس آئے کہ جنگ میں اقدام کی باگ ان کے ہاتھ آچکی تھی۔ دلوں پر ان کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ اور ماحول پر ان کی گرفت مضبوط ہوچکی تھی۔ یہ غزوۂ بدر موعد ، بدر ثانیہ ، بدر آخرہ اور بدر صغریٰ کے ناموں سے معروف ہے۔( ابن ہشام ۲/۲۰۹، ۲۱۰ ، زادا لمعاد۲/۱۱۲)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔