رسول اللہﷺ مدینہ واپس تشریف لاکر مطمئن ہوچکے تو ایک مسلمان جسے مکہ میں اذیتیں دی جارہی تھیں چھوٹ کر بھاگ آیا۔ ان کا نام ابو بصیر تھا۔ وہ قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتے تھے۔ اور قریش کے حلیف تھے۔ قریش نے ان کی واپسی کے لیے دوآدمی بھیجے اور یہ کہلوایا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان جو عہد وپیمان ہے اس کی تعمیل کیجیے۔ نبیﷺ نے ابو بصیر کو ان دونوں کے حوالے کردیا۔ یہ دونوں انہیں ہمراہ لے کر روانہ ہوئے۔ اور ذُو الحلیفہ پہنچ کر اترے ، اور کھجور کھانے لگے۔ ابو بصیر نے ایک شخص سے کہا : اے فلاں ! اللہ کی قسم! میں دیکھتا ہوں کہ تمہاری یہ تلوار بڑی عمدہ ہے۔ اس شخص نے اسے نیام سے نکال کر کہا : ہاں ہاں ! واللہ یہ بہت عمدہ ہے۔ میں نے اس کا بارہا تجربہ کیا ہے۔ ابو بصیر نے کہا: ذرا مجھے دکھلاؤ ، میں بھی دیکھوں۔ اس شخص نے ابو بصیر کو تلوار دے دی۔ اور ابوبصیر نے تلوار لیتے ہی اسے مار کر ڈھیر کردیا۔
دوسر اشخص بھاگ کر مدینہ آیا اور دوڑتا ہو ا مسجد نبوی میں گھس گیا۔ رسول اللہﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا : اس نے خطرہ دیکھا ہے۔ وہ شخص نبیﷺ کے پاس پہنچ کر بولا : میرا ساتھی اللہ کی قسم قتل کردیا گیا۔ اور میں بھی قتل ہی کیا جانے والا ہوں۔ اتنے میں ابو بصیر آگئے۔ اور بولے : یا رسول اللہ! اللہ نے آپ کا عہد پورا کردیا۔ آپ نے مجھے ان کی طرف پلٹا دیا۔ پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دے دی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اس کی ماں کی بربادی ہو۔ اسے کوئی ساتھی مل جائے تو یہ تو جنگ کی آگ بھڑ کا دے گا۔ یہ بات سن کر ابو بصیر سمجھ گئے کہ اب انہیں پھر کافروں کے حوالے کیا جائے گا۔ اس لیے وہ مدینہ سے نکل کر ساحل سمندر پر آگئے۔ ادھر ابو جندل بن سہیل بھی چھوٹ بھاگے اور ابو بصیر سے آملے۔ اب قریش کا جو آدمی بھی اسلام لاکر بھاگتا وہ ابو بصیر سے آملتا۔ یہاں تک کہ ا ن کی ایک جماعت اکٹھی ہوگئی۔ اس کے بعد ان لوگوں کو ملک شام آنے جانے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتاتو وہ اس سے ضرور چھیڑ چھاڑ کرتے اور قافلے والوں کو مار کر ان کا مال لوٹ لیتے۔ قریش نے تنگ آکر نبیﷺ کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دیتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ آپ انہیں اپنے پاس بلالیں۔ اور اب جو بھی آپ کے پاس جائے گا مامون رہے گا۔
اس کے بعد نبیﷺ نے انھیں بلوالیا اور وہ مدینہ آگئے۔ (سابقہ مآخذ)
کبار قریش کا قبولِ اسلام
اس معاہدہ ٔ صلح کے بعد ۷ھ کے اوائل میں حضرت عَمرو بن عاص ،خالد بن ولید اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم مسلمان ہوگئے۔ جب یہ لوگ خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا : مکہ نے اپنے جگر گوشو ں کو ہمارے حوالے کردیا ہے۔2
اس بارے میں سخت اختلاف ہے کہ ہے کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کس سنہ میں اسلام لائے۔ اسماء الرجال کی عام کتابوںمیں اسے ۸ ھ کا واقعہ بتایا گیا ہے ، لیکن نجاشی کے پاس حضرت عمرو بن عاصؓ کے اسلام لانے کا واقعہ معروف ہے جو ۷ ھ کا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ حضرت خالد اور عثمان بن طلحہ اس وقت مسلمان ہوئے تھے جب عمرو بن عاص حبشہ سے واپس آئے تھے کیونکہ انہوں نے حبشہ سے واپس آکر مدینہ کا قصد کیا توراستے میں ان دونوں سے ملاقات ہوئی۔ اور تینوں حضرات نے ایک ساتھ خدمت نبوی میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سبھی حضرات ۷ ھ کے اوائل میں مسلمان ہوئے۔ واللہ اعلم
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔