غزوۂ غابہ یا غزوہ ٔ ذی قرد :
یہ غزوہ درحقیقت بنو فزارہ کی ایک ٹکڑی کے خلاف جس نے رسول اللہﷺ کے مویشیوں پر ڈاکہ ڈالاتھا ، تعاقب سے عبارت ہے۔
حدیبیہ کے بعد اور خیبر سے پہلے یہ پہلا اور واحد غزوہ ہے جو رسول اللہﷺ کوپیش آیا۔ امام بخاری نے اس کا باب منعقد کرتے ہوئے بتایا کہ یہ خیبر سے صرف تین روز پہلے پیش آیا تھا۔ اور یہی بات ا س غزوے کے خصوصی کار پرداز حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے بھی مروی ہے۔ ان کی روایت صحیح مسلم میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جمہور اہل مغازی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حدیبیہ سے پہلے کا ہے لیکن جو بات صحیح میں بیان کی گئی ہے اہلِ مغازی کے بیان کے مقابل میں وہی زیادہ صحیح ہے۔ دیکھئے: صحیح بخاری باب غزوۃ ذات قرد ۲/۶۰۳ صحیح مسلم باب غزوۃ ذی قرد وغیرہا ۲/۱۱۳،۱۱۴، ۱۱۵فتح الباری ۷/ ۴۶۰،۴۶۱،۴۶۲، زاد المعاد ۲/۱۲۰۔ حدیبیہ سے اس غزوے کے موخرہونے پر حضرت ابو سعید خدریؓ کی ایک اور حدیث بھی دلالت کرتی ہے۔ دیکھئے: مسلم : کتاب الحج باب الترغیب فی سکنی المدینۃ والصبر علی لاوائہا حدیث نمبر ۴۷۵ (۱۳۷۴) ۲/۱۰۰۱۔
اس غزوہ کے ہیرو حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے جوروایات مروی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے اپنی سواری کے اونٹ اپنے غلام رباح کے ہمراہ چرنے کے لیے بھیجے تھے۔ اور میں بھی ابو طلحہ کے گھوڑے سمیت ان کے ساتھ تھا کہ اچانک صبح دم عبد الرحمن فزاری نے اونٹوں پر چھاپہ مارا۔ اور ان سب کو ہانک لے گیا اور چرواہے کو قتل کردیا۔ میں نے کہا کہ رباح ! یہ گھوڑا لو۔ اسے ابوطلحہ تک پہنچادو۔ اور رسول اللہﷺ کو خبر کردو۔ اور خود میں نے ایک ٹیلے پر کھڑے ہوکر مدینہ کی طرف رُخ کیا۔ اور تین بار پکار لگائی : یا صَبَاحاہ !ہائے صبح کا حملہ۔ پھر حملہ آوروں کے پیچھے چل نکلا۔ ان پر تیر برساتا جاتا تھا اور یہ رجزپڑھتا جاتا تھا۔
[خذھا ] أنا ابن الأکوع والیـوم یـوم الـرضـع
''( لو )میں اکوع کا بیٹا ہوں۔ اور آج کا دن دودھ پینے والے کا دن ہے (یعنی آج پتہ لگ جائے گا کہ کس نے اپنی ماں کا دودھ پیا ہے )''
سلمہ بن اکوعؓ کہتے ہیں کہ واللہ میں انھیں مسلسل تیروں سے چھلنی کرتا رہا۔ جب کوئی سوار میری طرف پلٹ کر آتا تو میں کسی درخت کی اوٹ میں بیٹھ جاتا۔ پھراسے تیر مار کر زخمی کردیتا۔ یہاں تک کہ جب یہ لوگ پہاڑ کے تنگ راستے میں داخل ہوئے تو میں پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اور پتھروں سے ان کی خبر لینے لگا۔ اس طرح میں نے مسلسل ان کا پیچھا کیے رکھا ، یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کے جتنے بھی اونٹ تھے میں نے ان سب کو اپنے پیچھے کرلیا۔ اور ان لوگوں نے میرے لیے ان اونٹوں کو آزاد چھوڑدیا۔
لیکن میں نے پھر بھی ان کا پیچھا جاری رکھا۔ اور ان پر تیر برساتارہا یہاں تک کہ بوجھ کم کرنے کے لیے انہوں نے تیس سے زیادہ چادریں اور تیس سے زیادہ نیزے پھینک دیئے۔ وہ لوگ جو کچھ بھی پھینکتے تھے میں اس پر (بطور نشان ) تھوڑے سے پتھر ڈال دیتا تھا تاکہ رسول اللہﷺ اور ان کے رفقاء پہچان لیں (کہ یہ دشمن سے چھینا ہوا مال ہے۔ ) اس کے بعد وہ لوگ ایک گھاٹی کے تنگ موڑ پر بیٹھ کر دوپہر کا کھانا کھانے لگے۔ میں بھی ایک چوٹی پر جابیٹھا۔ یہ دیکھ کر ان کے چار آدمی پہاڑ پر چڑھ کر میری طرف آئے (جب اتنے قریب آگئے کہ بات سن سکیں تو ) میں نے کہا: تم لوگ مجھے پہچانتے ہو؟ میں سلمہ بن اکوعؓ ہوں ، تم میں سے جس کسی کو دوڑاؤں گا بے دھڑک پالوں گا اور جوکوئی مجھے دوڑائے گا ہرگزنہ پاسکے گا۔ میری یہ بات سن کر چاروں واپس چلے گئے۔ اور میں اپنی جگہ جمارہا۔ یہاں تک کہ میں نے رسول اللہﷺ کے سواروں کو دیکھا کہ درختوں کے درمیان سے چلے آرہے ہیں۔ سب سے آگے اخرم تھے۔ ان کے پیچھے ابو قتادہ ، اور ان کے پیچھے مقداد بن اسود۔ (محاذ پر پہنچ کر ) عبدالرحمن اور حضرت اخرم میں ٹکر ہوئی۔ حضرت اخرم نے عبدالرحمن کے گھوڑے کو زخمی کردیا لیکن عبد الرحمن نے نیزہ مار کر حضرت اخرم کو قتل کردیا۔ اور ان کے گھوڑے پر جاپلٹا مگر اتنے میں حضرت قتادہؓ ، عبدالرحمن کے سر پر جاپہنچے اور اسے نیزہ مار کرزخمی کردیا۔ بقیہ حملہ آور پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ اور ہم نے انھیں کھدیڑنا شروع کیا۔ میں اپنے پاؤں پر اچھلتا ہوا دوڑ رہا تھا۔ سورج ڈوبنے سے کچھ پہلے ان لوگوں نے اپنا رخ ایک گھاٹی کی طرف موڑا جس میں ذی قرد نام کا ایک چشمہ تھا۔ یہ لوگ پیاسے تھے اور وہاں پانی پینا چاہتے تھے لیکن میں نے انھیں چشمے سے پرے ہی رکھا اور وہ ایک قطرہ بھی نہ چکھ سکے۔ رسول اللہﷺ اور شہسوار صحابہ دن ڈوبنے کے بعد میرے پاس پہنچے۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! یہ سب پیاسے تھے۔ اگرآپ مجھے سو آدمی دے دیں تو میں ان کے جانور بھی چھین لوں۔ اور ان کی گردنیں پکڑ کر حاضر خدمت بھی کردوں۔ آپ نے فرمایا : اکوع کے بیٹے! تم قابوپاگئے ہو تو اب ذرا نرمی برتو۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اس وقت بنو غطفان میں ان کی مہمان نوازی کی جارہی ہے۔
(اس غزوے پر ) رسول اللہﷺ نے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: آج ہمارے سب سے بہتر شہسوار ابو قتادہ اور سب سے بہتر پیادہ سلمہ ہیں۔ اور آپ نے مجھے دو حصے دیے۔ ایک پیادہ کا حصہ اور ایک شہسوار کا حصہ۔ اور مدینہ واپس ہوتے ہوئے مجھے (یہ شرف بخشا کہ ) اپنی عضباء نامی اونٹنی پر اپنے پیچھے سوار فرمالیا۔
ا س غزوے کے دوران رسول اللہﷺ نے مدینہ کاانتظام حضرت ابن اُمِ مکتوم کو سونپا تھا۔ اور اس غزوے کا پرچم حضرت مقداد بن عمروؓ کو عطافرمایا تھا۔( سابقہ مآخذ)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔