Saturday 29 August 2015

جنگ کا پہلا ایندھن


ادھر قریشی عورتیں بھی جنگ میں اپنا حصہ ادا کر نے اٹھیں۔ ان کی قیادت ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ کر رہی تھی۔ ان عورتوں نے صفوں میں گھوم گھوم کر اور دف پیٹ پیٹ کر لوگوں کو جوش دلایا۔ لڑائی کے لیے بھڑ کایا ، جانبازوں کو غیرت دلائی ، اور نیزہ بازی وشمشیر زنی ، مار دھاڑ اور تیرا فگنی کے لیے جذبات کو بر انگیختہ کیا۔ کبھی وہ علمبرداروں کو مخاطب کر کے یوں کہتیں :
ویہا بنی عبد الدار ویہا حماۃ الأدبار ضرباً بکل بتار
دیکھو ! عبد الدار ! دیکھو! پشت کے پاسدار خوب کرو شمشیر کا وار
اور کبھی اپنی قوم کو لڑائی کا جوش دلاتے ہوئے یوں کہتیں :
إن تقبلوا نعانق ونفرش النمارق أو تدبروا نفارق فراق غیر وامق
''اگر پیش قدمی کرو گے تو ہم گلے لگائیں گی۔ اور قالینیں بچھائیں گی۔ اور اگر پیچھے ہٹو گے تو روٹھ جائیں گی اور الگ ہوجائیں گی۔ ''

اس کے بعددونوں فریق بالکل آمنے سامنے اور قریب آگئے۔ اور لڑائی کا مرحلہ شروع ہوگیا۔ جنگ کا پہلا ایندھن مشرکین کا علمبردارطلحہ بن ابی طلحہ عبدری بنا۔ یہ شخص قریش کا نہایت بہادر شہسوار تھا۔ اسے مسلمان کبش الکتیبہ (لشکر کا مینڈھا ) کہتے تھے۔ یہ اونٹ پر سوار ہوکر نکلا اور مُبارزت کی دعوت دی ، اس کی حدسے بڑی ہوئی شجاعت کے سبب عام صحابہ مقابلے سے کترا گئے۔ لیکن حضرت زبیر آگے بڑھے اور ایک لمحہ کی مہلت دیئے بغیر شیر کی طرح جست لگا کر اونٹ پر جاچڑھے۔ پھر اسے اپنی گرفت میں لے کر زمین پر کود گئے اور تلوار سے ذبح کردیا۔
نبیﷺ نے یہ ولولہ انگیز منظر دیکھا تو فرطِ مسرت سے نعر ۂ تکبیر بلند کیا۔ مسلمانوں نے بھی نعرۂ تکبیر لگایا، پھر آپﷺ نے حضرت زبیرؓ کی تعریف کی

اس کے بعد ہر طرف جنگ کے شُعلے بھڑ ک اُٹھے۔ اور پورے میدان میں پُر زور مار دھاڑ شروع ہوگئی۔ مشرکین کا پرچم معرکے کا مرکزِ ثقل تھا۔ بنو عبد الدار نے اپنے کمانڈر طلحہ بن ابی طلحہ کے قتل کے بعد یکے بعد دیگرے پرچم سنبھالا۔ لیکن سب کے سب مارے گئے۔ سب سے پہلے طلحہ کے بھائی عثمان بن ابی طلحہ نے پرچم اٹھایا اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا :
إن علی أہل اللواء حقًا
أن تخضب الصعدۃ أو تندقا
''پرچم والوں کا فرض ہے کہ نیزہ (خون سے ) رنگین ہوجائے یا ٹوٹ جائے۔''
اس شخص پر حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ نے حملہ کیا اور اس کے کندھے پر ایسی تلوار ماری کہ وہ ہاتھ سمیت کندھے کو کاٹتی اور جسم کو چیرتی ہوئی ناف تک جاپہنچی، یہاں تک کہ پھیپھڑا دکھا ئی دینے لگا۔
اس کے بعد ابو سعد بن ابی طلحہ نے جھنڈا اٹھایا۔ اس پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے تیر چلایا۔ اور وہ ٹھیک اس کے گلے میں لگا ، جس سے اس کی زبا ن باہر نکل آئی اور وہ اسی وقت مر گیا - لیکن بعض سیرت نگاروں کا کہنا ہے کہ ابوسعد نے باہر نکل کر دعو ت ِ مُبارَزَت دی۔ اور حضرت علیؓ نے آگے بڑھ کر مقابلہ کیا، دونوں نے ایک دوسرے پر تلوار کا ایک وار کیا، لیکن حضرت علیؓ نے ابو سعد کو مارلیا۔
اس کے بعد مسافع بن طلحہ بن ابی طلحہ نے جھنڈا اٹھا لیا، لیکن اسے عاصم بن ثابت بن ابی افلحؓ نے تیر مارکر قتل کردیا۔ اس کے بعد اس کے بھائی کلاب بن طلحہ بن ابی طلحہ نے جھنڈا اٹھایا۔ مگر اس پر حضرت زُبیر بن عوامؓ ٹوٹ پڑے، اور لڑبھڑ کر اس کاکام تمام کردیا۔ پھر ان دونوں کے بھائی جلاس بن طلحہ بن ابی طلحہ نے جھنڈا اٹھایا۔ مگر اسے طلحہ بن عبید اللہؓ نے نیزہ مار کر ختم کردیا۔ اور کہا جاتا ہے کہ عاصم بن ثابت بن ابی افلحؓ نے تیر مار کر ختم کیا۔
یہ ایک ہی گھر کے چھ افراد تھے۔ یعنی سب کے سب ابوطلحہ عبد اللہ بن عثمان بن عبد الدار کے بیٹے یا پوتے تھے۔ جو مشرکین کے جھنڈے کی حفاظت کرتے ہوئے مارے گئے۔ اس کے بعد قبیلہ بنی عبد الدار کے ایک اور شخص اَرْطَاۃ بن شُرَحْبِیل نے پر چم سنبھا لا۔ لیکن اسے حضرت علی بن ابی طالبؓ نے ، اور کہا جاتا ہے کہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ نے قتل کر دیا۔ اس کے بعد شُرَیح بن قارظ نے جھنڈا اٹھا یا۔ مگر اسے قزمان نے قتل کردیا - قزمان منافق تھا۔ اور اسلام کے بجائے قبائلی حمیت کے جوش میں مسلمانوں کے ہمراہ لڑنے آیاتھا - شریح کے بعد ابو زید بن عمرو بن عبد مناف عبدری نے جھنڈا سنبھالا۔ مگر اسے بھی قزمان نے ٹھکانے لگا دیا۔ پھر شُرَحْبیل بن ہاشم عبدری کے ایک لڑکے نے جھنڈا اٹھایا۔ مگر وہ بھی قزمان کے ہاتھوں مارا گیا۔
یہ بنو عبد الدار کے دس افراد ہوئے جنہوں نے مشرکین کا جھنڈااٹھایا اور سب کے سب مارے گئے۔ اس کے بعد اس قبیلے کا کوئی آدمی باقی نہ بچا جو جھنڈا اٹھاتا۔ لیکن اس موقعے پر ان کے ایک حبشی غلام نے - جس کا نام صواب تھا - لپک کر جھنڈا اٹھا لیا۔ اور ایسی بہادری اور پامردی سے لڑاکہ اپنے سے پہلے جھنڈا اٹھانے والے اپنے آقاؤں سے بھی بازی لے گیا۔ اس غلام (صواب) کے قتل کے بعد جھنڈا زمین پر گر گیا۔ اور اِسے کوئی اٹھانے والا باقی نہ بچا، اس لیے وہ گراہی رہا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔