مکہ میں حضوراکرم ﷺ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازپڑھتے تھے اور کعبہ بھی آپﷺ کے سامنے ہوتاتھا جیسا کہ امام احمد نے ابن عباسؓ سے نقل کیا ہے ، جب ہجرت کے بعد مدینہ چلے آئے تو دونوں (بیت اﷲ اور بیت المقدس) کی طرف منہ کرنا ناممکن تھا تو آپﷺ ۱۶ یا ۱۷ ماہ بیت اﷲ کی طرف پشت کرکے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے
(ابن کثیر)
مکہ میں آنحضرتﷺ کو دو ضرورتیں ایک ساتھ پیش تھیں ، ملت ابراہیمی کی تاسیس و تجدید کے لحاظ سے کعبہ کی طرف رخ کرنے کی ضرورت تھی ؛لیکن مشکل یہ تھی کہ قبلہ کی جو اصلی غرض ہے یعنی امتیاز اور اختصاص وہ نہیں حاصل ہوتی تھی؛ کیونکہ مشرکین اور کفار بھی کعبہ ہی کو اپنا قبلہ سمجھتے تھے، اس بناء پر آنحضرت ﷺ مقام ابراہیم کے سامنے نماز ادا کرتے تھے جس کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا، اس طرح دونوں قبلے سامنے آجاتے تھے ، مدینہ میں دو گروہ آباد تھے، مشرکین جن کا قبلہ کعبہ تھا اور اہل کتاب جو بیت المقدس کی جانب نماز ادا کرتے تھے ، شرک کے مقابلہ میں یہودیت اور نصرانیت دونوں کو ترجیح تھی اس لئے آنحضرتﷺ نے تقریباً ۱۶ مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کی۔ مزید مکہ میں اسلام لانے والی اکثر و بیشتر چونکہ مشرکین مکہ میں سے تھے۔ اس لیےفی الحقیقت ان کا اس بات میں بڑا کڑا امتحان تھا کہ وہ اسلام لانے کے بعد کس قدر اتشال امر الہی اور اتباع سنت رسول کا فراخدلانہ مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اپنا آبای قبلہ بیت اللہ چھوڑ کر بیت المقدس کو اپنا قبلہ بناتے ہیں یا پھر اسی آبای قبلہ پر اڑے رہتے ہیں؟ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۴۳ میں اللہ نے اسی آزمائش کی طرف اشارہ فرمایا
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
ترجمہ: اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں، کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے، اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی، مگر جن کو خدا نے ہدایت بخشی (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے۔ خدا تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحبِ رحمت ہے۔
ہجرت کے بعد جب آپ مدینہ پہینچے تو صورت حال اب بلکل ہی بدل چکی تھی۔ مسلمانوں کی ایک آزاد چھوٹی سی اسلامی ریاست معرض وجود میں آچکی تھی، اب بیت المقدس کو قبلہ بناے رکھنا گویا یہود کی قیادت و سیادت قبول کر لینے کے مترادف تھا۔ اسکے علاوہ حضورﷺ نے یہ محسوس فرمایا کہ یہودی کسی قیمت پر بھی اسلام قبو ل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ مسلمان قبلہ کے معاملہ میں ہماری موافقت کرتے ہیں اور دین میں مخالفت جو عجیب قسم کا تضاد ہے، یہود کی یہ باتیں سن کر حضورﷺ کا دل چاہتا تھا کہ کعبہ ہی ہمار قبلہ ہو جائے۔ اسی لیے بار بار بارگاہ الہی میں التجا کرتے تھے کہ تمام امم سابقہ کے قبلہ:خانہ کعبہ: ہی کو امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ کے لیے مستقل قبلہ قرار دے دیا جائے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کے ساتھ حضرت بشر بن برا ؓ بن معرور کے پاس دعوت میں تشریف لے گئے تھے، ظہر کا وقت آیا تو محلہ بنو سلمہ کی مسجد میں نماز پڑھانے کھڑے ہوئے ، ایک روایت کے مطابق دو رکعتیں پڑھا چکے تھے اور دوسری روایت کے مطابق دوسری رکعت کے رکوع میں تھے کہ تحویل قبلہ کا حکم سورۂ بقرہ کی آیت ۱۴۴ کے ذریعہ نازل ہوا
" ہم آپ کے چہرہ کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو ، آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیرا کریں اور آپ جہاں کہیں بھی ہوں اس طرف پھیرا کریں۔
(سورہ بقرہ : ۱۴۴)
اور حضورﷺ نماز کے دوران ہی فی الفور کعبہ کی طرف رُخ کرلئے ، جماعت میں موجود صحابہ کرام نے بھی اپنا رُخ کعبہ کی طرف کر لیا ، اُس دن سے اس مسجد کا نام " مسجد قبلتین،، پڑ گیا، قبلہ کی تبدیلی کی تاریخ اور مہینہ کے بارے میں اختلاف ہے ، ابن جوزی نے " الو فا" میں منگل ۱۵ شعبان ۲ ہجری لکھی ہے، لیکن مورخین اور محدثین کا زیادہ رحجان ماہ رجب کی طرف ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔