رسول اللہﷺ نے یہ خواب بھی دیکھا کہ آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد حرام میں داخل ہوئے، آپﷺ نے خانہ کعبہ کی کنجی لی اور صحابہ سمیت بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کیا،پھر کچھ لوگوں نے سر کے بال منڈائے اور کچھ نے کٹوانے پر اکتفاکی۔ آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ا س خواب کی اطلاع دی تو انھیں بڑی مسرت ہوئی۔ اورانہوں نے یہ سمجھا کہ اس سال مکہ میں داخلہ نصیب ہوگا۔ آپﷺ نے صحابہ کرام کو یہ بھی بتلایا کہ آپﷺ عمرہ ادا فرمائیں گے۔ لہٰذا صحابہ کرام بھی سفر کے لیے تیار ہوگئے۔
آپﷺ نے مدینہ اور گردوپیش کی آبادیوں میں اعلان فرمادیا کہ لو گ آپ کے ہمراہ روانہ ہوں ، لیکن بیشتر اعراب نے تاخیر کی۔ ادھر آپﷺ نے اپنے کپڑے دھوئے۔ مدینہ پر ابن اُم ِ مکتوم یا نمیلہ لیثی کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ اور اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار ہوکر یکم ذی قعد ہ ۶ ھ روز دوشنبہ کو روانہ ہوگئے۔ آپ کے ہمراہ اُم المومنین حضرت ام سلمہ ؓ بھی تھیں۔ چودہ سو (اور کہا جاتا ہے کہ پندرہ سو ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمرکاب تھے۔ آپﷺ نے مسافرانہ ہتھیار یعنی میان کے اندر بند تلواروں کے سوااور کسی قسم کا ہتھیار نہیں لیاتھا۔
آپ• کا رُخ مکہ کی جانب تھا۔ ذو الحلیفہ پہنچ کر آپ نے ہدی کو قلادے پہنائے۔( ہدی ، وہ جانورجسے حج وعمرہ کرنے والے مکہ یامنیٰ میں ذبح کرتے ہیں۔ دور جاہلیت میں عرب کا دستور تھا کہ ہَدْی کا جانور اگر بھیڑ بکری ہے تو علامت کے طور پر گلے میں قلادہ ڈال دیا جاتا تھا اور اگر اونٹ ہے توکوہان چیر کر خون پوت دیا جاتا تھا۔ ایسے جانور سے کوئی شخص تعرض نہ کرتا تھا۔ شریعت نے اس دستور کو برقرار رکھا۔)۔ کوہان چیر کر نشان بنایا۔ اور عمرہ کا احرام باندھا تاکہ لوگوں کو اطمینان رہے کہ آپ جنگ نہیں کریں گے۔ آگے آگے قبیلہ خزاعہ کا ایک جاسوس بھیج دیا تاکہ وہ قریش کے عزائم کی خبر لائے۔ عسفان کے قریب پہنچے تو اس جاسوس نے آکر اطلاع دی کہ میں کعب بن لوی کو اس حالت میں چھوڑ کر آرہا ہوں کہ انھوں نے آپ سے مقابلہ کرنے کے لیے احابیش (حلیف قبائل ) کو جمع کررکھا ہے(یہ حبشی لوگ نہیں ہیں جیسا کہ بظاہر لفظ سے محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ بنوکنانہ اور دوسرے عرب قبائل کی چند شاخیں ہیں۔ یہ حبشی -ح کو پیش ، ب ساکن ش کو زیر -پہاڑ کی طرف منسوب ہیں۔ جو وادی نعمان اراک سے نیچے واقع ہے۔ یہاں سے مکہ کا فاصلہ چھ میل ہے۔ اس پہاڑ کے دامن میں بنوحارث بن عبد مناۃ بن کنانہ ، بنومصطلق بن حیا بن سعد بن عمر اور بنو الہون بن خزیمہ نے اکٹھے ہوکر قریش سے عہد کیا تھا، اور سب نے مل کر اللہ کی قسم کھائی تھی کہ جب تک رات تاریک اور دن روشن ہے ، اور حبشی پہاڑاپنی جگہ برقرار ہے ہم سب دوسروں کے خلاف ایک ہاتھ ہوں گے۔ ( معجم البلدان ۲/۲۱۴، المنمق ۵ ۷ ۲ ))۔ اور بھی جمعیتیں فراہم کی ہیں۔ اور وہ آپ سے لڑنے اورآپ کو بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔
اس اطلاع کے بعد نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا اور فرمایا : کیا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ لوگ جو قریش کی اعانت پر کمر بستہ ہیں ہم ان کے اہل وعیال پر ٹوٹ پڑیں اور قبضہ کرلیں ؟ اس کے بعد اگر وہ خاموش بیٹھتے ہیں تو اس حالت میں خاموش بیٹھتے ہیں کہ جنگ کی مار اور غم والم سے دوچار ہوچکے ہیں اور بھاگتے ہیں تو وہ بھی اس حالت میں کہ اللہ ایک گردن کا ٹ چکا ہوگا۔ یا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ہم خانہ کعبہ کا رُخ کریں۔ اور جو راہ میں حائل ہواس سے لڑائی کریں ؟ اس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ مگر ہم عمرہ اداکرنے آئے ہیں۔ کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں۔ البتہ جو ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگا اس سے لڑائی کریں گے نبیﷺ نے فرمایا : اچھا تب چلو۔ چنانچہ لوگوں نے سفر جاری رکھا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔