Saturday, 29 August 2015

غزوہ حمراء الاسد


شنبہ ۷/شوال ۳ ھ کو سرِ شام رسول اللہﷺ مدینہ پہنچے۔ مسلمانوں نے معرکۂ اُحد سے واپس آکر (۸ /شوال ۳ ھ شنبہ ویک شنبہ کی درمیانی ) رات ہنگامی حالت میں گزاری۔ جنگ نے انہیں چوُر چوُر کر رکھا تھا۔ اس کے باوجود وہ رات بھر مدینے کے راستوں اور گزرگاہوں پر پہرہ دیتے رہے۔ اور اپنے سپہ سالارِ اعظم رسول اللہﷺ کی خصوصی حفاظت پر تعینات رہے کیونکہ انہیں ہر طرف سے خدشات لاحق تھے۔
ادھر رسول اللہﷺ نے پوری رات جنگ سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرتے ہوئے گزاری۔ آپﷺ کو اندیشہ تھا کہ اگر مشرکین نے سوچا کہ میدانِ جنگ میں اپنا پلہ بھاری رہتے ہوئے بھی ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو انہیں یقینا ندامت ہوگی۔ اور وہ راستے سے پلٹ کر مدینے پر دوبارہ حملہ کریں گے۔ اس لیے آپ نے فیصلہ کیا کہ بہر حال مکی لشکر کا تعاقب کیا جانا چاہیے۔
چنانچہ اہل ِ سیر کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے معرکہ احد کے دوسرے دن، یعنی یک شنبہ ۸ /شوال ۳ھ کو علی الصباح اعلان فرمایا کہ دشمن کے مقابلے کے لیے چلنا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان فرمایا کہ ہمارے ساتھ صرف وہی آدمی چل سکتا ہے جو معرکۂ احد میں موجود تھا۔ تاہم عبداللہ بن اُبی نے اجازت چاہی کہ آپ کا ہمرکاب ہو۔ مگر آپ نے اجازت نہ دی۔ ادھر جتنے مسلمان تھے اگرچہ زخموں سے چور ، غم سے نڈھال ، اور اندیشہ وخوف سے دوچار تھے ، لیکن سب نے بلا تردد سرِ اطاعت خم کردیا۔
حضرت جابر بن عبد اللہؓ نے بھی اجازت چاہی جو جنگ اُحد میں شریک نہ تھے۔ حاضر خدمت ہوکر عرض پرداز ہوئے۔ یارسول اللہﷺ میں چاہتاہوں کہ آپ جس کسی جنگ میں تشریف لے جائیں میں بھی حاضر خدمت رہوں۔اور چونکہ (اس جنگ میں ) میرے والد نے مجھے اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر روک دیا تھا، لہٰذا آپ مجھے اجازت دے دیں کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں اس پر آپ نے انہیں اجازت دے دی۔
پروگرام کے مطابق رسول اللہﷺ مسلمانوں کو ہمراہ لے کر روانہ ہوئے۔ اور مدینے سے آٹھ میل دورحمراء الاسد پہنچ کر خیمہ زن ہوئے۔
اثناء قیام میں معبد بن ابی معبد خزاعی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوا - اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے شرک ہی پر قائم تھا لیکن رسول اللہﷺ کا خیر خواہ تھا - کیونکہ خزاعہ اور بنو ہاشم کے درمیان حلف (یعنی دوستی وتعاون کا عہد ) تھا۔ بہر کیف اس نے کہا: اے محمد ! آپ کو اور آپ کے رفقاء کو جو زک پہنچی ہے وہ واللہ ہم پر سخت گراں گزری ہے۔ ہماری آرزو تھی کہ اللہ آپ کو بعافیت رکھتا - اس اظہارِ ہمدردی پر رسول اللہﷺ نے اس سے فرمایا کہ ابو سفیان کے پاس جائے اور اس کی حوصلہ شکنی کرے۔
ادھر رسول اللہﷺ نے جو اندیشہ محسوس کیا تھا کہ مشرکین مدینے کی طرف پلٹنے کی بات سوچیں گے وہ بالکل برحق تھا۔ چنانچہ مشرکین نے مدینے سے ۳۶ میل دور مقام رَوحاء پر پہنچ کر جب پڑاؤ ڈالا تو آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کی۔ کہنے لگے: تم لوگوں نے کچھ نہیں کیا۔ ان کی شوکت وقوت توڑ کر انہیں یوں ہی چھوڑ دیا ، حالانکہ ابھی ان کے اتنے سر باقی ہیں کہ وہ تمہارے لیے پھر درد ِسر بن سکتے ہیں۔ لہٰذا واپس چلو اور انہیں جڑ سے صاف کردو۔
لیکن ایسا محسوس ہو تا ہے کہ یہ سطحی رائے تھی جو ان لوگوں کی طرف سے پیش کی گئی تھی جنہیں فریقین کی قوت اور ان کے حوصلوں کا صحیح اندازہ نہ تھا۔ اسی لیے ایک ذمہ دار افسر صفوان بن امیہ نے اس رائے کی مخالفت کی۔ اور کہا: لوگو! ایسا نہ کرو۔ مجھے خطرہ ہے کہ جو (مسلمان غزوۂ احدمیں ) نہیں آئے تھے۔ وہ بھی اب تمہارے خلاف جمع ہوجائیں گے۔ لہٰذا اس حالت میں واپس چلے چلو کہ فتح تمہاری ہے۔ ورنہ مجھے خطرہ ہے کہ مدینے پر پھر چڑھائی کرو گے تو گردش میں پڑجاؤ گے، لیکن بھاری اکثریت نے یہ رائے قبول نہ کی اور فیصلہ کیا کہ مدینے واپس چلیں گے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔