اس واقعے کا ماحصل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کا دستور تھا کہ سفر میں جاتے ہوئے ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے۔ جس کا قرعہ نکل آتا اسے ہمراہ لے جاتے۔ اس غزوہ میں قرعہ حضرت عائشہ ؓکے نام نکلا ، اور آپﷺ انہیں ساتھ لے گئے۔ غزوے سے واپسی میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا گیا۔ حضرت عائشہ ؓ اپنی حاجت کے لیے گئیں۔ اور اپنی بہن کا ہار جسے عاریتاً لے گئی تھیں کھو بیٹھیں۔ احساس ہوتے ہی فورا ً اس جگہ واپس گئیں جہاں ہار غائب ہو ا تھا۔ اسی دوران وہ لوگ آئے جو آپ کا ہَودَج اونٹ پر لادا کرتے تھے۔ انہوں نے سمجھا آپ ہودج کے اندر تشریف فرما ہیں۔ اس لیے اسے اونٹ پر لاددیا ، اور ہودج کے ہلکے پن پر نہ چونکے۔ کیونکہ حضرت عائشہ ؓ ابھی نو عمر تھیں۔ بد ن موٹا اور بوجھل نہ تھا نیز چو نکہ کئی آدمیوں نے مل کر ہودج اٹھایا تھا اس لیے بھی ہلکے پن پر تعجب نہ ہوا۔ اگر صرف ایک یا دو آدمی اٹھا تے تو انہیں ضرور محسوس ہوجاتا۔
بہرحال حضرت عائشہ ؓہار ڈھونڈ ھ کر قیام گا ہ پہنچیں تو پورا لشکر جاچکا تھا۔ اور میدان بالکل خالی پڑا تھا۔ نہ کوئی پکارنے والا تھا نہ جواب دینے والا۔ وہ اس خیال سے وہیں بیٹھ گئیں کہ لوگ انہیں نہ پائیں گے تو پلٹ کر وہیں تلاش کرنے آئیں گے ، لیکن اللہ اپنے امر پر غالب ہے۔ وہ بالائے عرش سے جو تدبیر چاہتا ہے کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گئیں۔
ایک صحابی حضرت صفوان ؓ بن معطل سلمی گر ے پڑے کی خبر گیری کے لئے قافلہ کے پیچھے چلا کرتے تھے، تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے گزرے ، صبح کے دھندلکے میں انھوں نے دیکھا کہ کوئی پڑا سو رہا ہے ، قریب آئے تو پہچان لیا کہ حضرت عائشہؓ ہیں کیونکہ انھوں نے پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے بھی انھیں دیکھا تھا، حیران رہ گئے اور بلند آوازسے ، "اِ نَّا للّٰہ و اِنَّا ا ِلیہ راجِعون" کہا ان کی آواز سن کر حضرت عائشہ ؓ کی آنکھ کھل گئی، انھوں نے فوراً چہرہ چادر سے ڈھانپ لیا ، حضرت صفوان ؓ نے اپنا اونٹ ان کے پاس لا کر بٹھا دیا اور خود ایک طرف ہو گئے، حضرت عائشہ ؓ اسی طرح چادر میں لپٹی ہوئی سوار ہو گئیں ، اب حضرت صفوان ؓ نے اونٹ کی لگام تھام کر تیزی کے ساتھ اسے دوڑایا اور دوپہر تک اپنی منزل پر لشکر سے جا ملے ۔
انہیں اس کیفیت کے ساتھ آتا دیکھ کر مختلف لوگوں نے اپنے اپنے انداز پر تبصرہ کیا۔ اور اللہ کے دشمن خبیث عبد اللہ بن اُبی کو بھڑاس نکالنے کا ایک اور موقع مل گیا۔ چنانچہ اس کے پہلو میں نفاق اور حسد کی جو چنگاری سلگ رہی تھی اس نے اس کے کرب پنہاں کو عیاں اور نمایاں کیا۔ یعنی بدکاری کی تہمت تراش کر واقعات کے تانے بانے بننا ، تہمت کے خاکے میں رنگ بھرنا ، اور اسے پھیلانا بڑھانا اور اُدھیڑ نا اور بُننا شروع کیا۔ اس کے ساتھی بھی اسی بات کو بنیاد بناکر اس کا تقرب حاصل کرنے لگے۔ اور جب مدینہ آئے تو ان تہمت تراشوں نے خوب جم کر پروپیگنڈہ کیا۔
ادھر رسول اللہﷺ خاموش تھے۔ کچھ بول نہیں رہے تھے لیکن جب لمبے عرصے تک وحی نہ آئی تو آپ نے حضرت عائشہؓ سے علیحدگی کے متعلق اپنے خاص صحابہ سے مشورہ کیا۔ حضرت علیؓ نے صراحت کیے بغیر اشاروں اشاروں میں مشورہ دیا کہ آپ ان سے علیحدگی اختیار کرکے کسی اور سے شادی کرلیں ، لیکن حضرت اسامہ وغیرہ نے مشورہ دیا کہ آپ انہیں اپنی زوجیت میں برقرار رکھیں اور دشمنوں کی بات پر کان نہ دھریں۔
ادھر حضرت عائشہ ؓ کا حال یہ تھا کہ وہ غزوے سے واپس آتے ہی بیمار پڑگئیں۔ اور ایک مہینے تک مسلسل بیمار رہیں۔ انہیں اس تہمت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ البتہ انہیں یہ بات کھٹکتی رہتی تھی کہ بیماری کی حالت میں رسول اللہﷺ کی طرف سے جو لطف وعنایت ہوا کرتی تھی اب وہ نظر نہیں آرہی تھی۔ بیماری ختم ہوئی تو وہ ایک را ت اُم مسطح کے ہمراہ قضائے حاجت کے لیے میدان میں گئیں۔ اتفاق سے ام مسطح اپنی چادر میں پھنس کر پھسل گئیں اور اس پر انہوں نے اپنے بیٹے کو بددعا دی۔ حضرت عائشہؓ نے اس حرکت پر انہیں ٹوکا تو انہوں نے حضرت عائشہؓ کو یہ بتلانے کے لیے کہ میرا بیٹا بھی پروپیگنڈے کے جرم میں شریک ہے۔ تہمت کا واقعہ کہہ سنا یا۔ حضر ت عائشہؓ نے واپس آکر اس خبر کا ٹھیک ٹھیک پتہ لگانے کی غرض سے رسول اللہﷺ سے والدین کے پاس جانے کی اجازت چاہی پھر اجازت پاکر والدین کے پاس تشریف لے گئیں اور صورتِ حال کا یقینی طور پر علم ہوگیا تو بے اختیار رونے لگیں۔ اور پھر دو رات اور ایک دن روتے روتے گزر گیا۔ اس دوران نہ نیند کا سرمہ لگایا نہ آنسو کی جھڑی رکی۔ وہ محسوس کرتی تھیں کہ روتے روتے کلیجہ شق ہوجائے گا۔ اسی حالت میں رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ کلمہ ٔ شہادت پر مشتمل خطبہ پڑھا۔ اور امّا بعد کہہ کر فرمایا: اے عائشہ ! مجھے تمہارے متعلق ایسی اور ایسی بات کا پتہ لگا ہے۔ اگر تم اس سے بَری ہوتو اللہ تعالیٰ عنقریب تمہاری براء ت ظاہر فرمادے گا۔ اور اگر خدانخواستہ تم سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے تو تم اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگو اور توبہ کرو ، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرکے اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔
اس وقت حضرت عائشہ ؓکے آنسو ایک دم تھم گئے۔ اور اب انہیں آنسو کا ایک قطرہ بھی محسوس نہ ہورہا تھا۔ انہوں نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ آپ کو جواب دیں ، لیکن ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جواب دیں۔ اس کے بعد حضرت عائشہؓ نے خود ہی کہا : واللہ ! میں جانتی ہوں کہ یہ بات سنتے سنتے آپ لوگوں کے دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی ہے۔ اور آپ لوگوں نے اسے بالکل سچ سمجھ لیا ہے اس لیے اب اگر میں یہ کہوں کہ میں بری ہوں - اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں - تو آپ لوگ میری بات سچ نہ سمجھیں گے۔ اور اگر میں کسی بات کا اعتراف کرلوں - حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں - تو آپ لوگ صحیح مان لیں گے۔ ایسی صورت میں واللہ میرے لیے اور آپ لوگوں کے لیے وہی مثل ہے جسے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد نے کہا تھا کہ :
فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّـهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ﴿١٨﴾ (۱۲: ۱۸)
''صبر ہی بہتر ہے۔ اور تم لوگ جو کچھ کہتے ہواس پر اللہ کی مدد مطلوب ہے۔''
اس کے بعد حضرت عائشہؓ دوسری جانب پلٹ کر لیٹ گئیں۔ اور اسی وقت رسول اللہﷺ پر وحی کا نزول شروع ہوگیا۔ پھر جب آپﷺ سے نزول ِ وحی کی شدت وکیفیت ختم ہوئی تو آپ مسکرا رہے تھے۔ اور آپ نے پہلی بات جوفرمائی وہ یہ تھی کہ اے عائشہؓ! اللہ نے تمہیں بری کردیا۔ اس پر (خوشی سے ) ان کی ماں بولیں: (عائشہ !) حضور کی جانب اٹھو (شکریہ ادا کرو)۔ انہوں نے اپنے دامن کی براء ت اور رسول اللہﷺ کی محبت پر اعتماد ووثوق کے سبب قدرے ناز کے انداز میں کہا : واللہ! میں تو ان کی طرف نہ اٹھوں گی۔ اور صرف اللہ کی حمد کروں گی۔
(١) مدارج النبوۃ ، اردو ترجمہ، جلد ٢۔ ص ٢٨١
(٢) خصائص کبری، اردوترجمہ ،جلد ١ ۔ ص ٤٥٢)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔