نوشتہ صلح ابھی لکھا ہی جارہاتھا کہ سہیل کے بیٹے ابو جندل اپنی بیڑیاں گھسیٹتے آپہنچے۔ وہ زیریں مکہ سے نکل کر آئے تھے۔ انہوں نے یہاں پہنچ کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے درمیان ڈال دیا۔ سہیل نے کہا : یہ پہلا شخص ہے جس کے متعلق میں آپ سے معاملہ کرتا ہوں کہ آپ اسے واپس کردیں۔
نبیﷺ نے فرمایا : ابھی تو ہم نے نوشتہ مکمل نہیں کیا ہے۔
اس نے کہا : تب میں آپ سے کسی بات پر صلح کا کوئی معاملہ ہی نہ کروں گا۔
نبیﷺ نے فرمایا: اچھا تو تم اس کو میری خاطر چھوڑدو۔ اس نے کہا : میں آپ کی خاطر بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ نے فرمایا : نہیں نہیں اتنا تو کرہی دو۔ اس نے کہا نہیں میں نہیں کرسکتا۔ پھر سہیل نے ابو جند ل کے چہرے پر چانٹا رسید کیا۔ اور مشرکین کی طرف واپس کرنے کے لیے ان کے کرتے کاگلا پکڑ کر گھسیٹا۔
ابو جندل زور زور سے چیخ کر کہنے لگے : مسلمانو! کیا میں مشرکین کی طرف واپس کیا جاؤں گا کہ وہ مجھے میرے دین کے متعلق فتنے میں ڈالیں ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ابو جندل ! صبر کرو۔ اور اسے باعث ِ ثواب سمجھو۔ اللہ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ جو دوسرے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لیے کشادگی اور پناہ کی جگہ بنائے گا۔ ہم نے قریش سے صلح کر لی ہے۔ اور ہم نے ان کو اور انہوں نے ہم کواس پر اللہ کا عہد دے رکھا ہے۔ اس لیے ہم بد عہدی نہیں کرسکتے۔
اس کے بعد حضرت عمرؓ اچھل کر ابو جندل کے پاس پہنچے۔ وہ ان کے پہلو میں چلتے جارہے تھے اور کہتے جارہے تھے: ابو جندل ! صبر کرو۔ یہ لوگ مشرک ہیں۔ ان کا خون تو بس کتے کا خون ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی تلوار کا دستہ بھی ان کے قریب کرتے جارہے تھے۔
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ مجھے امید تھی کہ وہ تلوار لے کر اپنے باپ (سہیل ) کو اڑادیں گے ، لیکن انہوں نے اپنے باپ کے بارے میں بخل سے کام لیا۔ اور معاہدۂ صلح نافذ ہو گیا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔