Sunday, 30 August 2015

٦ ھجری کے سرایہ


یہ سریہ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کی قیادت میں شعبان ۶ ھ میں بھیجا گیا۔رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے سامنے بٹھا کر خود اپنے دستِ مبارک سے پگڑی باندھی۔ اورلڑائی میں سب سے اچھی صورت اختیار کرنے کی وصیت فرمائی۔ اور فرمایا کہ اگر وہ لوگ تمہاری اطاعت کرلیں تو تم ان کے بادشاہ کی لڑکی سے شادی کرلینا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے وہاں پہنچ کر تین روز پیہم اسلام کی دعوت دی۔ بالآخر قو م نے اسلام قبول کرلیا۔ پھر حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے تماضر بنت اصبغ سے شادی کی۔ یہی حضرت عبد الرحمن کے صاحبزادے ابو سلمہ کی ماں ہیں۔اس خاتون کے والد اپنی قوم کے سردار اور بادشاہ تھے۔
7۔ سر یہ دیار بنی سعد۔ علاقہ فدک :
یہ سریہ شعبان ۶ ھ میں حضرت علیؓ کی سرکردگی میں روانہ کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ رسول اللہﷺ کو معلوم ہوا کہ بنو سعد کی ایک جمعیت یہود کو کمک پہنچا نا چاہتی ہے، لہٰذا آپﷺ نے حضرت علیؓ کو دوسو آدمی دے کر روانہ فرمایا۔ یہ لوگ رات میں سفر کرتے اور دن میں چھپے رہتے تھے ، آخر ایک جاسوس گرفت میں آیا اور اس نے اقرار کیا کہ ان لوگوں نے خیبر کی کھجور کے عوض امداد فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے جاسوس نے یہ بھی بتلایا کہ بنو سعد نے کس جگہ جتھ بندی کی ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے ان پر شبخون مار کر پانچ سو اونٹ اور دوہزار بکریوں پر قبضہ کرلیا۔ البتہ بنو سعد اپنی عورتوں بچوں سمیت بھاگ نکلے ان کا سردار وبر بن علیم تھا۔
8۔ سریہ وادی القری:
یہ سریہ حضر ت ابو بکر صدیقؓ یا حضرت زید بن حارثہؓ کے زیر قیادت رمضان ۶ ھ میں روانہ کیا گیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ بنو فزارہ کی ایک شاخ نے دھوکے سے رسول اللہﷺ کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ لہٰذا آپﷺ نے ابو بکر صدیقؓ کو روانہ فرمایا۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ کا بیان ہے کہ اس سریہ میں مَیں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ جب ہم صبح کی نماز پڑھ چکے تو آپ کے حکم سے ہم لوگوں نے چھاپہ مارا۔ اور چشمے پر دھاوا بول دیا۔ ابو بکر صدیقؓ نے کچھ لوگوں کو قتل کیا۔ میں نے ایک گروہ کو دیکھا جس میں عورتیں اور بچے بھی تھے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ لوگ مجھ سے پہلے پہاڑ پر نہ پہنچ جائیں۔ اس لیے میں نے ان کو جالیا اور ان کے اور پہاڑ کے درمیان ایک تیر چلایا۔ تیر دیکھ کر یہ لوگ ٹھہر گئے۔ ان میں ام قرفہ نامی ایک عورت تھی جس کے اوپر ایک پرانی پوستین تھی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی جو عرب کی خوبصورت ترین عورتوں میں سے تھی۔ میں ان سب کو ہانکتا ہوا ابو بکر صدیقؓ کے پاس لے آیا۔ انہوں نے وہ لڑکی مجھے عطاکی ، لیکن میں نے اس کا کپڑا نہ کھولا۔ بعد میں رسول اللہﷺ نے یہ لڑکی حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے مانگ لی اور اس کے عوض متعدد مسلمان قیدیوں کو رہا کرا لیا۔( صحیح مسلم ۲/۸۹)
ام قرفہ ایک شیطان عورت تھی۔نبیﷺ کے قتل کی تدبیریں کیا کرتی تھی۔ اور ا س مقصد کے لیے اس نے اپنے خاندان کے تیس سوار بھی تیار کیے تھے ، لہٰذا اسے ٹھیک بدلہ مل گیا اور اس کے تیسوں سوار مارے گئے۔
9۔ سر یہ عرنییّن :
یہ سریہ شوال ۶ ھ میں حضرت کرز بن جابر فہریؓ (یہ وہی حضرت کرز بن جابر فہری ہیں جنہوں نے غزوہ بدر سے پہلے غزوہ سفوان میں مدینہ کے چوپایوں پر چھاپہ مارا تھا۔ بعد میں انہوں نے اسلام قبول کیا اور فتح مکہ کے موقع پر خلعت شہادت سے سرفراز ہوئے)کی قیادت میں روانہ کیا گیا اس کا سبب یہ ہوا کہ عکل اور عُرینہ کے چند افراد نے مدینہ آکر اسلام کا اظہار کیا اور مدینہ ہی میں قیام کیا ، لیکن ان کے لیے مدینہ کی آب وہوا راس نہ آئی اور نبیﷺ نے انھیں چند اونٹوں کے ساتھ چراگاہ بھیج دیا اور حکم دیا کہ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیئیں۔ جب یہ لوگ تندرست ہوگئے تو رسول اللہﷺ کے راعی کو قتل کردیا۔ اونٹوں کو ہانک لے گئے۔ اور اظہارِ اسلام کے بعد اب پھر کفر اختیار کیا۔ لہٰذارسول اللہﷺ نے ان کی تلاش کے لیے کرز بن جابر فہری کو بیس صحابہ کی معیت میں روانہ فرمایا، اور یہ دعافرمائی کہ : اے اللہ عُرنیوں پر راستہ اندھا کردے اور کنگن سے بھی زیادہ تنگ بنا دے۔ اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی ، ان پر راستہ اندھا کردیا۔ چنانچہ وہ پکڑ لیے گئے اور انہوں نے مسلمان چرواہوں کے ساتھ جو کچھ کیا تھا اس کے قصاص اور بدلے کے طور پر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے گئے۔ آنکھیں داغ دی گئیں۔ اور انھیں حرّہ کے ایک گوشے میں چھوڑ دیا گیا۔ جہاں وہ زمین کریدتے کریدتے اپنے کیفر ِ کردار کو پہنچ گئے ۔ان کا واقعہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت انسؓ سے مروی ہے۔( زاد المعاد ۲/۱۲۲ مع بعض اضافات، صحیح بخاری ۲/۶۰۲)

یہ ہیں وہ سرایا اور غزوات جو جنگ ِ احزاب وبنی قریظہ کے بعد پیش آئے۔ ان میں سے کسی بھی سریے یا غزوے میں کوئی سخت جنگ نہیں ہوئی۔ صرف بعض بعض میں معمولی قسم کی جھڑپیں ہوئیں۔ لہٰذا ان مہموں کو جنگ کے بجائے طلایہ گردی ، فوجی گشت اور تادیبی نقل وحرکت کہا جاسکتا ہے۔ جس کا مقصد ڈھیٹ بدوؤں اور ا کڑے ہوئے دشمنوں کو خوفزدہ کرنا تھا۔
حالات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ غزوۂ احزاب کے بعد صورت ِ حال میں تبدیلی شروع ہوگئی تھی اور اعدائے اسلام کے حوصلے ٹوٹتے جارہے تھے۔ اب انہیں یہ امید باقی نہیں رہ گئی تھی کہ دعوتِ اسلام کوتوڑا اور اس کی شوکت کو پامال کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ تبدیلی ذرا اچھی طرح کھل کر اس وقت رونما ہوئی جب مسلمان صلح حدیبیہ سے فارغ ہوچکے۔ یہ صلح دراصل اسلامی قوت کا اعتراف اور اس بات پر مہر تصدیق تھی کہ اب اس قوت کو جزیرہ نمائے عرب میں باقی اور برقراررکھنے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔