۶۔ ہوذہ بن علی صاحبِ یمامہ کے نام خط:
نبیﷺ نے ہوذہ بن علی حاکم ِ یمامہ کے نام حسب ذیل خط لکھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی طرف سے ہوذہ بن علی کی جانب !!
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میرا دین اونٹوں اور گھوڑوں کی رسائی کی آخری حد تک غالب آکر رہے گا۔ لہٰذااسلا م لاؤ سالم رہو گے اور تمہارے ماتحت جو کچھ ہے اسے تمہارے لیے برقرار رکھوں گا۔''
اس خط کو پہنچانے کے لیے بحیثیت قاصد سلیط بن عمرو عامری کا انتخاب فرمایا گیا۔ حضرت سلیط اس مہر لگے ہوئے خط کو لے کر ہوذہ کے پاس تشریف لے گئے تو اس نے آپ کو مہمان بنایا۔ اور مبارکباد دی۔ حضرت سلیط نے اسے خط پڑھ کر سنایا تو اس نے درمیانی قسم کا جواب دیا۔ اور نبیﷺ کی خدمت میں یہ لکھا :آپ جس چیز کی دعوت دیتے ہیں اس کی بہتری اور عمدگی کا کیا پوچھنا۔ اور عرب پر میری ہیبت بیٹھی ہوئی ہے۔ اس لیے کچھ کار پردازی میرے ذمہ کردیں۔ میں آپ کی پیروی کروں گا۔
اس نے حضرت سلیط کو تحائف بھی دیے۔ انہیں ہجر کا بناہوا کپڑا دیا۔ حضرت سلیط یہ تحائف لے کر خدمت نبوی میں واپس آئے اور ساری تفصیلات گوش گزار کیں۔ نبیﷺ نے اس کا خط پڑھ کر فرمایا : اگر وہ زمین کا ایک ٹکڑا بھی مجھ سے طلب کرے گا تو میں اسے نہ دوں گا۔ وہ خود بھی تباہ ہوگا ، اور جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے وہ بھی تباہ ہوگا۔ پھر جب رسول اللہﷺ فتح مکہ سے واپس تشریف لائے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ خبر دی کہ ہوذہ کا انتقال ہوچکا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا : سنو ! یمامہ میں ایک کذاب نمودار ہونے والا ہے جو میرے بعد قتل کیا جائے گا۔ ایک کہنے والے نے کہا : یارسول اللہ ! اسے کون قتل کرے گا ؟ آپ نے فرمایا : تم اور تمہارے ساتھی ، اور واقعۃً ایسا ہی ہوا۔( زادالمعاد ۳/۶۳)
۷۔ حارث بن ابی شمر غسانی حاکم دمشق کے نام خط:
نبیﷺ نے اس کے پاس ذیل کا خط رقم فرمایا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی طرف سے حارث بن ابی شمر کی طرف !!
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے اور ایمان لائے اور تصدیق کرے۔ اور میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ اللہ پر ایمان لاؤ جو تنہا ہے ، اور جس کا کوئی شریک نہیں۔ اور تمہارے لیے تمہاری بادشاہت باقی رہے گی۔''
یہ خط قبیلہ اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی حضرت شجاع بن وہب کے بدست روانہ کیا گیا۔ جب انہوں نے یہ خط حارث کے حوالے کیا تو اس نے کہا :''مجھ سے میری بادشاہت کون چھین سکتا ہے ؟میں اس پر یلغار کرنے ہی والاہوں۔'' اور اسلام نہ لایا۔( زاد المعاد ۳/۶۳ محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ ، خضیری ۱/۱۴۶)بلکہ قیصر سے رسول اللہﷺ کے خلاف جنگ کی اجازت چاہی۔ مگر اس نے اس کو اس کے ارادے سے باز رکھا۔ پھر حارث نے شجاع بن وہب کو پارچہ جات اور اخراجات کا تحفہ دے کر اچھائی کے ساتھ واپس کردیا۔
Hakm
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔