قریش کی واپسی کے بعد مسلمان اپنے شہیدوں اور زخمیوں کی کھوج خبر لینے کے لیے فارغ ہوگئے۔ حضرت زیدبن ثابتؓ کا بیان ہے کہ احد کے روز رسول اللہﷺ نے مجھے بھیجا کہ میں سعد بن الربیع کو تلاش کروں اور فرمایا کہ اگر وہ دکھائی پڑجائیں تو انہیں میرا سلام کہنا۔ اور یہ کہنا کہ رسول اللہﷺ دریافت کررہے ہیں کہ تم اپنے آپ کو کیسا پارہے ہو؟ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ میں مقتولین کے درمیان چکر لگاتے ہوئے ان کے پاس پہنچا تو ان کی آخری سانس آجارہی تھی۔ انہیں نیزے ، تلوار اور تیر کے ستر سے زیادہ زخم آئے تھے۔ میں نے کہا: اے سعد ! اللہ کے رسول آپ کو سلام کہتے ہیں اور دریافت فرمارہے ہیں کہ مجھے بتاؤ اپنے آپ کو کیسا پارہے ہو ؟ انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ کو سلا م۔ آپ سے عرض کرو کہ یارسول اللہ ! جنت کی خوشبو پارہا ہوں۔ اور میری قوم انصار سے کہو کہ اگر تم میں سے ایک آنکھ بھی ہلتی رہی ، اور دشمن رسول اللہﷺ تک پہنچ گیا تو تمہارے لیے اللہ کے نزدیک کوئی عذر نہ ہوگا۔ اور اسی وقت ان کی روح پرواز کر گئی۔( زاد المعاد ۲/۹۶)
لوگوں نے زخمیوں میں اُصیرم کو بھی پایا۔ جن کا نام عمرو بن ثابت تھا۔ ان میں تھوڑی سی رمق باقی تھی۔ اس سے قبل انہیں اسلام کی دعوت دی جاتی تھی مگر وہ قبول نہیں کرتے تھے۔ اس لیے لوگوں نے (حیرت سے ) کہا: یہ اصیرم کیسے آیا ہے ؟ اسے تو ہم نے اس حالت میں چھوڑا تھا کہ وہ اس دین کا انکاری تھا۔ چنانچہ ان سے پوچھا گیا کہ تمہیں یہاں کیا چیز لے آئی ؟ قوم کی حمایت کا جوش ؟ یا اسلام کی رغبت ؟ انہوں نے کہا : اسلام کی رغبت۔ درحقیقت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا۔ اور اس کے بعد رسول اللہﷺ کی حمایت میں شریک ِ جنگ ہوا۔ یہاں تک کہ اب اس حالت سے دوچار ہوں جو آپ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ اور اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا۔ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا: وہ جنتیوں میں سے ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ حالانکہ اس نے اللہ کے لیے ایک وقت کی بھی نماز نہیں پڑھی تھی۔ (کیونکہ اسلام لانے کے بعد ابھی کسی نماز کا وقت آیا ہی نہ تھا کہ شہید ہوگئے )( ایضا ۲/۹۴، ابن ہشام ۲/۹۰)
ان ہی زخمیوں میں قُزمان بھی ملا۔ اس نے جنگ میں خوب خوب داد ِ شجاعت دی تھی۔ اور تنہا سات یا آٹھ مشرکین کو تہ تیغ کیا تھا۔ وہ جب ملا تو زخموں سے چور تھا ، لوگ اسے اٹھا کر بنو ظفر کے محلے میں لے گئے۔ اور مسلمانوں نے خوشخبری سنائی۔ کہنے لگا : واللہ! میری جنگ تو محض اپنی قوم کے ناموس کے لیے تھی۔ اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں لڑائی ہی نہ کرتا۔ اس کے بعد جب اس کے زخموں نے شدت اختیار کی تو اس نے اپنے آپ کو ذبح کر کے خودکشی کرلی۔ ادھر رسول اللہﷺ سے اس کا جب بھی ذکر کیا جاتا تھا تو فرماتے تھے کہ وہ جہنمی ہے۔( زادا لمعاد ۲/۹۷ ، ۹۸۔ ابن ہشام ۲/۸۸) (اور اس واقعے نے آپﷺ کی پیشین گوئی پر مہر تصدیق ثبت کردی) حقیقت یہ ہے کہ اِعلائِ کلمۃُ اللہ کے بجائے وطنیت یا کسی بھی دوسری راہ میں لڑنے والوں کا انجام یہی ہے۔ چاہے وہ اسلام کے جھنڈے تلے بلکہ رسول اور صحابہ کے لشکر ہی میں شریک ہوکر کیوں نہ لڑرہے ہوں۔
اس کے بالکل بر عکس مقتولین میں بنو ثعلبہ کا ایک یہودی تھا۔ اس نے اس وقت جبکہ جنگ کے بادل منڈلارہے تھے ، اپنی قوم سے کہا : اے جماعت یہود ! اللہ کی قسم تم جانتے ہو کہ محمد کی مدد تم پر فرض ہے۔ یہود نے کہا : مگر آج سَبت (سنیچر ) کا دن ہے۔ اس نے کہا: تمہارے لیے کوئی سبت نہیں ، پھر اس نے اپنی تلوار لی۔ ساز وسامان اٹھا یا۔ اور بولا: اگر میں مارا جاؤں تو میرا مال محمد(ﷺ ) کے لیے ہے۔ وہ اس میں جو چاہیں گے کریں گے۔ اس کے بعد میدانِ جنگ میں گیا اور لڑتے بھِڑتے مارا گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مُخیریق بہترین یہودی تھا۔( ابن ہشام ۲/۸۸، ۸۹)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔