Saturday 29 August 2015

کھدائی کے دوران نبوت کی چند نشانیوں کا ظہور


صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہؓ ، نے نبیﷺ کے اندر سخت بھُوک کے آثار دیکھے تو بکری کا ایک بچہ ذبح کیا۔ اور ان کی بیوی نے ایک صاع (تقریباً ڈھائی کلو) جَو پیسا پھر رسول اللہﷺ سے رازداری کے ساتھ خفیہ طور پر گزارش کی کہ اپنے چند رُفقاء کے ہمراہ تشریف لائیں ، لیکن نبیﷺ نے تمام اہلِ خندق کو جن کی تعداد ایک ہزار تھی ، ہمراہ لے کر چل پڑے۔ اور سب لوگوں نے اسی ذرا سے کھانے سے شکم سیر ہوکر کھایا۔ پھر بھی گوشت کی ہانڈی اپنی حالت پر برقرار رہی۔ اور بھری کی بھری جوش مارتی رہی۔ اور گوندھا ہوا آٹا اپنی حالت پر برقرار رہا۔ اس سے روٹی پکائی جاتی رہی۔( صحیح بخاری ۲/۵۸۸ ، ۵۸۹)
حضرت نعمان بن بشیرؓ کی بہن خندق کے پاس دوپسر کھجور لے کر آئیں کہ ان کے بھائی اور ماموں کھالیں گے ، لیکن رسول اللہﷺ کے پاس سے گزریں تو آپﷺ نے ان سے وہ کھجور مانگ لی اور ایک کپڑے کے اوپر بکھیر دی۔ پھر اہل ِ خندق کو دعوت دی۔ اہل خندق اسے کھاتے گئے اور وہ بڑھتی گئی یہاں تک کہ سارے اہل خندق کھا کھا کر چلے گئے۔ اور کھجور تھی کہ کپڑے کے کناروں سے باہر گررہی تھی۔( ابن ہشام ۲/۲۱۸)
انہیں ایام میں ان دونوں واقعات سے کہیں بڑھ کر ایک اور واقعہ پیش آیا۔ جسے امام بخاری نے حضرت جابرؓ سے روایت کیا ہے۔ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ خندق کھود رہے تھے کہ ایک سخت پتھر یلا ٹکڑا آڑے آگیا۔ لوگ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کی کہ یہ چٹان نما ٹکڑا خندق میں حائل ہوگیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : میں اتر رہا ہوں۔ اس کے بعد آپﷺ اٹھے آپ کے شکم پر پتھر بندھا ہوا تھا - ہم نے تین روز سے کچھ چکھا نہ تھا - پھر نبیﷺ نے کدال لے کر مارا تو وہ چٹان نما ٹکڑا بھر بھرے تودے میں تبدیل ہوگیا۔( صحیح بخاری ۲/۵۸۸)
بیس دن میں تین ہزار مبارک ہاتھوں سے خندق کی کھدوائی مکمل ہوئی، خندق کی کھدوائی کے دوران ایک جگہ سفید رنگ کی گول چٹان برآمد ہوئی جو اس قدر سخت تھی کہ کدالیں ٹوٹ گئیں ، آخر حضرت سلمان ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں پہنچے اور صورت حال بیان کی ، حضور ﷺ خود تشریف لائے ، بھوک کی وجہ سے شکم مبارک پر پتھر بندھے ہوئے تھے، حضرت سلمانؓ سے کدال لی اور بسم اللہ کہہ کر ضرب لگائی ، ایک چمک کے ساتھ ایک تہائی چٹان ٹوٹ گئی، آپ ﷺ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند فرمایا سب نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ، دوسری ضرب سے مزید تہائی حصہ گر گیا، آپ ﷺ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ، تیسری ضرب میں چٹان پاش پاش ہو گئی، آپ ﷺ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور سب نے بھی ساتھ دیا ، فرمایا ! پہلی چمک میں مجھے ملک شام کی کنجیاں عطا کی گئیں، میں نے حیرہ کے سرخ محلات کو دیکھا، دوسری ضرب کی روشنی میں فارس کی چابیاں عطا ہوئیں اور میں نے مدائن کے قصر ابیض کو دیکھا ، تیسری ضرب پر مدائن کی کنجیاں ملیں اور میں صفاء کے محلوں کو یہاں سے دیکھ رہاہوں ، جبریل ؑ نے مجھے خبر دی کہ میری اُمت ان شہروں کو فتح کرے گی، پھر آپﷺ نے حضرت سلمان ؓ فارسی کو مدائن کے محلات کی تفصیل بتلائی ، حضرت سلمانؓ نے عرض کیا : اس ذات کی قسم : جس نے آپﷺ کو نبی بنا کر بھیجا ہے قصر ابیض ایسا ہی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ ( سنن نسائی ۲/۵۶)(ابن ہشام ۲/۲۱۹)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔