۳۔ شاہ فارس خسرو پرویز کے نام خط
نبیﷺ نے ایک خط بادشاہِ فارس کسریٰ (خسرو ) کے پاس روانہ کیا جو یہ تھا :
''بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی طرف سے کِسریٰ عظیم فارس کی جانب !!
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ اور گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی لائق ِ عبادت نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ کیونکہ میں تمام انسانوں کی جانب اللہ کا فرستادہ ہوں تاکہ جو شخص زندہ ہے اسے انجام ِ بد سے ڈرایا جائے۔ اور کافرین پر حق بات ثابت ہوجائے۔( یعنی حجت تمام ہو جائے ) پس تم اسلام لاؤ، سالم رہوگے۔ اور اگر اس سے انکارکیا توتم پر مجوس کا بھی بارِ گناہ ہوگا۔''
اس خط کو لے جانے کے لیے آپﷺ نے حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمیؓ کو منتخب فرمایا۔ انہوں نے یہ خط سربراہ بحرین کے حوالے کیا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ سربراہ بحرین نے یہ خط اپنے کسی آدمی کے ذریعہ کسریٰ کے پاس بھیجا یا خود حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی کو روانہ کیا۔ بہرحال جب یہ خط کسریٰ کو پڑھ کرسنا یا گیا تو اس نے چاک کردیا۔ اور نہایت متکبرانہ اندازمیں بولا : میری رعایا میں سے ایک حقیر غلام اپنانام مجھ سے پہلے لکھتا ہے۔
رسول اللہﷺ کو اس واقعے کی جب خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا : اللہ اس کی بادشاہت کو پارہ پارہ کرے۔ اور پھر وہی ہوا جو آپ نے فرمایا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد کسریٰ نے اپنے یمن کے گورنر باذان کو لکھا کہ یہ شخص جو حجاز میں ہے اس کے یہاں اپنے دو توانا اور مضبوط آدمی بھیج دو کہ وہ اسے میرے پاس حاضر کریں۔ باذان نے اس کی تعمیل کرتے ہوئے دو آدمی منتخب کیے۔ ایک اسکا قہرمان بانویہ جو حساب داں تھا اور فارسی میں لکھتا تھا۔ دوسرا خرخسرو۔ یہ بھی فارسی تھا۔( تاریخ ابن خلدون ۲/۳۷) اور انھیں ایک خط دے کر رسول اللہﷺ کے پاس روانہ کیا جس میں آپ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان کے ساتھ کسریٰ کے پاس حاضر ہوجائیں۔ جب وہ مدینہ پہنچے اور نبیﷺ کے روبرو حاضر ہوئے تو ایک نے کہا : شہنشاہ کسریٰ نے شاہ باذان کو ایک مکتوب کے ذریعہ حکم دیا ہے کہ وہ آپ کے پا س ایک آدمی بھیج کر آپ کو کسریٰ کے روبروحاضر کرے اور باذان نے اس کام کے لیے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ میرے ساتھ چلیں۔ ساتھ ہی دونوں نے دھمکی آمیز باتیں بھی کہیں۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ کل ملاقات کریں۔
ادھر عین اسی وقت جبکہ مدینہ میں یہ دلچسپ ''مہم '' درپیش تھی۔ خود خسروپرویز کے گھرانے کے اندر اس کے خلاف ایک زبردست بغاوت کا شعلہ بھڑ ک رہا تھا جس کے نتیجے میں قیصر کی فوج کے ہاتھوں فارسی فوجوں کی پے در پے شکست کے بعد اب خسرو کا بیٹا شیرویہ اپنے باپ کو قتل کر کے خود بادشاہ بن بیٹھا تھا۔ یہ منگل کی رات ۱۰ جمادی الاولیٰ ۷ھ کا واقعہ ہے۔ (فتح الباری ۸/۱۲۷ تاریخ ابن خلدون ۲/۳۷)
رسول اللہﷺ کو اس واقعہ کا علم وحی کے ذریعہ ہوا۔ چنانچہ جب صبح ہوئی اور دونوں فارسی نمائندے حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں اس واقعے کی خبردی۔ ان دونوں نے کہا : کچھ ہوش ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ ہم نے اس سے بہت معمولی بات بھی آپ کے جرائم میں شمار کی ہے۔ تو کیا آپ کی یہ بات ہم بادشاہ کو لکھ بھیجیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں۔ اسے میری اس بات کی خبر کردو۔ اور اس سے یہ بھی کہہ دو کہ میرا دین اور میری حکومت وہاں تک پہنچ کررہے گی جہاں تک کسریٰ پہنچ چکا ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اس جگہ جاکر رُکے گی جس سے آگے اونٹ اور گھوڑے کے قدم جاہی نہیں سکتے۔ تم دونوں اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو جو کچھ تمہارے زیراقتدار ہے وہ سب میں تمہیں دے دوں گا اور تمہیں تمہاری قوم ابناء کا بادشاہ بنادوں گا۔ اس کے بعد وہ دونوں مدینہ سے روانہ ہوکر باذان کے پاس پہنچے اور اسے ساری تفصیلات سے آگاہ کیا۔ تھوڑے عرصہ بعد ایک خط آیا کہ شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کردیا ہے۔ شیرویہ نے اپنے اس خط میں یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جس شخص کے بارے میں میرے والد نے تمہیں لکھا تھا اسے تا حکم ثانی برانگیختہ نہ کرنا۔
اس واقعہ کی وجہ سے باذان اور اس کے فارسی رفقاء (جو یمن میں موجود تھے) مسلمان ہوگئے۔( محاضرات خضری ۱/۱۴۷ فتح الباری ۸/۱۲۷ ، ۱۲۸)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔