Saturday, 29 August 2015

غزوہ احد میں کا فرما حکمتیں


علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس عنوان پر بہت بسط سے لکھا ہے۔( زاد المعاد ۲/۹۹ تا ۱۰۸) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: علماء نے غزوۂ احد اور اس کے اندر مسلمانوں کو پیش آنے والی زک میں بڑی عظیم ربانی حکمتیں اور فوائد بیان کیے ہیں ۔ مثلاً:
مسلمانوں کو معصیت کے بُرے انجام اور ارتکاب نہی کی نحوست سے آگاہ کر نا۔ کیونکہ تیر اندازوں کو اپنے مرکز پر ڈٹے رہنے کا جو حکم رسول اللہﷺ نے دیا تھا ، انہوں نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مرکز چھوڑ دیا تھا۔ (اور اسی وجہ سے زک اٹھانی پڑی تھی )
ایک حکمت پیغمبروں کی اس سنت کا اظہار تھا کہ پہلے وہ ابتلاء میں ڈالے جاتے ہیں ،پھر انجام کار انہیں کو کامیابی ملتی ہے۔ اور اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اگر انہیں ہمیشہ کامیابی ہی کامیابی حاصل ہو تو اہل ایمان کی صفوں میں وہ لوگ بھی گھس آئیں گے جو صاحب ایمان نہیں ہیں۔ پھر صادق وکاذب میں تمیز نہ ہوسکے گی۔ اور اگر ہمیشہ شکست ہی شکست سے دوچار ہوں تو ان کی بعثت کا مقصد ہی پورا نہ ہوسکے گا۔ اس لیے حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں صورتیں پیش آئیں تاکہ صادق وکاذب میں تمیز ہوجائے۔ کیونکہ منافقین کا نفاق مسلمانوں سے پوشیدہ تھا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا۔ اور اہل نفاق نے اپنے قول وفعل کا اظہار کیا تو اشارہ صراحت میں بدل گیا۔ اور مسلمانوں کو معلوم ہوگیا کہ خود ان کے اپنے گھروں کے اندر بھی ان کے دشمن موجود ہیں۔ اس لیے مسلمان ان سے نمٹنے کے لیے مستعد اور ان کی طرف سے محتاط ہوگئے۔
ایک حکمت یہ بھی تھی کہ بعض مقامات پر مدد کی آمد میں تاخیر سے خاکساری پیدا ہوتی ہے۔ اور نفس کا غرور ٹوٹتا ہے۔ چنانچہ جب اہل ایمان ابتلاء سے دوچار ہوئے تو انہوں نے صبر سے کام لیا ، البتہ منافقین میں آہ وزاری مچ گئی۔
ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اللہ نے اہل ِ ایمان کے لیے اپنے اعزاز کے گھر (یعنی جنت ) میں کچھ ایسے درجات تیار کر رکھے ہیں جہاں تک ان کے اعمال کی رسائی نہیں ہوتی۔ لہٰذا ابتلاء ومحن کے بھی کچھ اسباب مقرر فرمارکھے ہیں تاکہ ان کی وجہ سے ان درجات تک اہل ایمان کی رسائی ہوجائے۔
اور ایک حکمت یہ بھی تھی کہ شہادت ، اولیاء کرام کا اعلیٰ ترین مرتبہ ہے۔ لہٰذا یہ مرتبہ ان کے لیے مہیافرمادیا گیا۔

( فتح الباری ۷/۳۴۷)

کچھ معترضین نے یہ سوال اٹھایا کہ بدر کی فتح مندی اگر محمد (ﷺ ) کی توثیق رسالت کی نشانی تھی تو اُحد میں آپﷺ کے صاحب کی شکست کو کس سے تعبیر کریں گے ؟
اس کے جواب میں جنگ اُحد کا جائزہ لیتے ہوئے جنگی نقطہ نظر یا حربی اندازِ فکر صحیح نتائج اخذ کرنے میں مدد دے گا:
۱، کیا فاتح نے اپنے غلبہ سے کوئی فائدہ اٹھایا؟
۲، کتنا مال غنیمت ملا؟
۳، کتنے مجاہد اسیر ہوئے؟
۴،کیا حریف ِ مخالف کو عسکری حیثیت سے تباہ و بر باد کر دیا گیا ؟
۵، کیا ان کے حوصلے پست کرنے میں کامیاب ہوئے؟
۶، کیا فاتح اس طرح میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے؟
۷، کیا مفتوح فاتح کا تعاقب کرتاہے؟
۸، مسلمانوں کے دارالحکومت کو نقصان پہنچانے کا عزم کس حد تک کامیاب ہوا؟
اس میں سے ہر سوال کا جواب نفی میں ہے ، اسی میزان پر شکست اور فتح کو تول لیا جائے ، بے شک مسلمانوں کا جانی نقصان زیادہ ہوا ؛لیکن وہ سزا تھی حکمِ رسول سے بے اعتنائی کی، اسے غیرمفضل جنگ یعنی ہار جیت کے فیصلہ کے بغیر اختتام کہہ سکتے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔