اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے لحاظ سے یہ صورت حال نازک تھی کیونکہ ان کے لیے اپنی تاریخ کے اس نازک اور پیچیدہ موڑ پر دشمنوں سے ٹکراؤ کچھ زیادہ قابل اطمینان نہ تھا۔ انجام خطرناک ہوسکتا تھا۔آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ سارا عرب مسلمانوں کے خلاف تھا۔ اور مسلمانوں کے دو تبلیغی وفود نہایت بے دردی سے تہ تیغ کیے جاچکے تھے ، پھر بنی نضیر کے یہود اتنے طاقتور تھے کہ ان کا ہتھیار ڈالنا آسان نہ تھا۔ اور ان سے جنگ مول لینے میں طرح طرح کے خدشات تھے۔ مگر بئر معونہ کے المیے سے پہلے اور اس کے بعد حالات نے جونئی کروٹ لی تھی ، اس کی وجہ سے مسلمان قتل اور بد عہدی جیسے جرائم کے سلسلے میں زیادہ حساس ہوگئے تھے ، اوران جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کا جذبہ ٔ انتقام فزوں تر ہوگیا تھا۔ لہٰذا انہوں نے طے کرلیا کہ چونکہ بنو نضیر نے رسول اللہﷺ کے قتل کا پروگرام بنایا تھا ، اس لیے ان سے بہرحال لڑنا ہے۔ خواہ اس کے نتائج جو بھی ہوں۔ چنانچہ جب رسول اللہﷺ کو حیی بن اخطب کا جوابی پیغام ملا تو آپ نے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ اکبر اور پھر لڑائی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور حضرت ابن اُمِ مکتوم کو مدینہ کا انتظام سونپ کر بنونضیرکے علاقے کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت علی بن ابی طالبؓ کے ہاتھ میں عَلَم تھا بنونضیرکے علاقے میں پہنچ کر ان کا محاصر ہ کرلیا گیا۔
ادھر بنونضیر نے اپنے قلعوں اور گڑھیوں میں پناہ لی۔ اور قلعہ بندرہ کر فصیل سے تیر اور پتھر برساتے رہے چونکہ کھجور کے باغات ان کے لیے سپر کاکام دے رہے تھے۔ اس لیے آپﷺ نے حکم دیا کہ ان درختوں کو کاٹ کر جلادیا جائے۔بعد میں اسی کی طرف اشارہ کرکے حضرت حسانؓ نے فرمایا تھا :
وہـان علـی سـراۃ بنـی لـوی
حـریق بـالبویـــرۃ مستطیــر
بنی لوی کے سرداروں کے لیے یہ معمولی بات تھی کہ بَوُیَرْہ میں آگ کے شعلے بلند ہوں (بویرہ ! بنونضیر کے نخلستان کا نام تھا) اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی نازل ہوا :
مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّـهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ (۵۹: ۵)
''تم نے کھجور کے جو درخت کاٹے یا جنہیں اپنے تنوں پر کھڑا رہنے دیا وہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا۔ اور ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ اللہ ان فاسقوں کورسواکرے ۔''
بہرحال جب ان کا محاصرہ کیا گیا تو بنو قُریظہ ان سے الگ تھلگ رہے۔ عبداللہ بن اُبی نے بھی خیانت کی۔ اور ان کے حلیف غَطفان بھی مدد کو نہ آئے۔ غرض کوئی بھی انہیں مدد دینے یا ان کی مصیبت ٹالنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے واقعے کی مثال یوں بیان فرمائی :
كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ (۵۹:۱۶)
''جیسے شیطان انسان سے کہتا ہے کفر کرو اورجب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو شیطان کہتا ہے میں تم سے بری ہوں ۔''
محاصرے نے کچھ زیادہ طول نہیں پکڑا۔ بلکہ صرف چھ رات ...یابقول بعض پندرہ رات ... جاری رہاکہ اس دوران اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔ اور رسول اللہﷺ کو کہلوا بھیجا کہ ہم مدینے سے نکلنے کو تیار ہیں۔ آپ نے ان کی جلاوطنی کی پیش کش منظور فرمائی۔ اور یہ بھی منظور فرمالیا کہ وہ ہتھیار کے علاوہ باقی جتنا سازوسامان اونٹوں پر لادسکتے ہوں سب لے کر بال بچوں سمیت چلے جائیں۔
بنو نضیر نے اس منظوری کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور اپنے ہاتھوں اپنے مکانات اجاڑ ڈالے ،تاکہ دروازے اور کھڑکیاں بھی لاد لے جائیں۔ بلکہ بعض بعض نے تو چھت کی کڑیاں اور دیواروں کی کھونٹیاں بھی لاد لیں۔ پھر عورتوں اور بچوں کو سوار کیا۔ اور چھ سو اونٹوں پر لد لداکر روانہ ہوگئے۔ بیشتر یہود اور ان کے اکابر مثلاًحُیی بن اخطب اور سلام بن ابی الحُقَیق نے خیبر کا رُخ کیا۔ ایک جماعت ملک شام روانہ ہوئی صرف دوآدمیوں، یعنی یامین بن عمرو اور ابو سعید بن وہب نے اسلام قبول کیا۔ لہٰذا ان کے مال کو ہاتھ نہیں لگایاگیا۔
غزوہ بنی نضیر ربیع الاول۴ھ ،اگست ۶۲۵ ء میں پیش آیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس تعلق سے پوری سورۂ حشر نازل فرمائی۔ جس میں یہودکی جلاوطنی کا نقشہ کھینچتے ہوئے منافقین کے طرزِ عمل کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ اور مال ِ فَیْ کے احکام بیان فرماتے ہوئے مہاجرین وانصار کی مدح وستائش کی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگی مصالح کے پیش نظر دشمن کے درخت کاٹے جاسکتے ہیں۔ اور ان میں آگ لگائی جاسکتی ہے۔ ایسا کرنا فساد فی الارض نہیں ہے۔ پھر اہلِ ایمان کو تقویٰ کے التزام اور آخرت کی تیاری کی تاکید کی گئی ہے۔ ان سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی حمد وثنا فرماتے ہوئے اور اپنے اسماء وصفات کوبیان کرتے ہوئے سورۃ ختم فرمادی ہے۔
ابن عباسؓ اس سورۂ (حشر) کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ اسے سورہ ٔ بنی النضیر کہو۔( ابن ہشام ۲/۱۹۰ ،۱۹۱ ، ۱۹۲ ، زاد المعاد ۲/۷۱، ۱۱۰ ، صحیح بخاری ۲/۵۷۴،۵۷۵)
یہ اس غزوہ کے بارے میں ابن اسحاق اور عام اہلِ سیر کے بیان کا خلاصہ ہے ، امام ابوداؤد اور امام عبد الرزاق وغیرہ نے اس غزوے کی ایک دوسری وجہ روایت کی ہے: دیکھیے مصنف عبدالرزاق ۵/۳۵۸- ۳۶۰ ح ۳۳ ۷ ۹، سنن ابی داؤد ، کتاب الخراج والفی والعمارۃ ، باب فی خبر النضیر ۲/۱۵۴)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔