ہم بتا چکے ہیں کہ یہود اسلام اور مسلمانوں سے جلتے بھُنتے تھے ، مگر چونکہ وہ مردِ میدان نہ تھے۔ سازشی اور دسیسہ کار تھے ، اس لیے جنگ کے بجائے کینے اور عداوت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اور مسلمانوں کو عہد وپیمان کے باوجود اذیت دینے کے لیے طرح طرح کے حیلے اور تدبیریں کرتے تھے۔ البتہ بنو قَینُقاع کی جلاوطنی اور کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ پیش آیا تو ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ اور انہوں نے خوفزدہ ہو کر خاموشی اور سکون اختیار کر لیا۔ لیکن غزوۂ احد کے بعد ان کی جرأت پھر پلٹ آئی۔ انہوں نے کھلم کھلا عداوت وبد عہدی کی۔ مدینہ کے منافقین اور مکے کے مشرکین سے پس پردہ ساٹ گانٹھ کی۔ اور مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی حمایت میں کام کیا۔( سنن ابی داؤد مع شرح عون المعبود ۳/۱۱۶،۱۱۷)
نبیﷺ نے سب کچھ جانتے ہوئے صبر سے کام لیا لیکن رجیع اور معونہ کے حادثات کے بعد ان کی جرأت وجسارت حد سے بڑھ گئی۔ اور انہوں نے نبیﷺ ہی کے خاتمے کا پروگرام بنالیا۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبیﷺ اپنے چند صحابہ کے ہمراہ یہود کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے بنو کلاب کے ان دونوں مقتولین کی دیت میں اعانت کے لیے بات چیت کی - (جنہیں حضرت عَمرو بن اُمیہ ضَمری نے غلطی سے قتل کردیا تھا ) ان پر معاہدہ کی رُو سے یہ اعانت واجب تھی۔ انہوں نے کہا : ابو القاسم ! ہم ایسا ہی کریں گے۔ آپﷺ یہاں تشریف رکھئے ہم آپﷺ کی ضرورت پوری کیے دیتے ہیں۔ آپﷺ ان کے ایک گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اور ان کے وعدے کی تکمیل کا انتظار کرنے لگے۔ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکرؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بھی تشریف فرماتھی۔
ادھر یہود تنہائی میں جمع ہوئے تو ان پر شیطان سوار ہوگیا۔ اور جو بدبختیاں ان کا نوشتہ تقدیر بن چکی تھی اسے شیطان نے خوشنما بناکر پیش کیا۔ یعنی ان یہود نے باہم مشورہ کیا کہ کیوں نہ نبیﷺ ہی کو قتل کردیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے کہا : کون ہے جو اس چکی کو لے کر اوپر جائے اور آپﷺ کے سر پر گراکر آپﷺ کو کچل دے۔ اس پر ایک بدبخت یہودی عَمرو بن جحاش نے کہا : میں ... ان لوگوں سے سلام بن مشکم نے کہا بھی کہ ایسا نہ کرو۔ کیونکہ اللہ کی قسم! انہیں تمہارے ارادوں کی خبر دے دی جائے گی۔ اور پھر ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد وپیمان ہے یہ اس کی خلاف ورزی بھی ہے۔ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور اپنے منصوبے کو روبہ عمل لانے کے عزم پر برقرار رہے۔
ادھر رب العالمین کی طرف سے رسول اللہﷺ کے پاس حضرت جبریل ؑ تشریف لائے۔ اور آپﷺ کو یہود کے ارادے سے باخبر کیا۔ آپﷺ تیزی سے اُٹھے۔ اور مدینے کے لیے چل پڑے۔ بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپﷺ سے آن ملے اور کہنے لگے : آپﷺ اُٹھ آئے اور ہم سمجھ نہ سکے۔ آپﷺ نے بتلایا کہ یہود کا ارادہ کیا تھا۔ مدینہ واپس آکر آپﷺ نے فوراً ہی محمد بن مسلمہ کو بنی نضیر کے پاس روانہ فرمایااور انہیں یہ نوٹس دیا کہ تم لوگ مدینے سے نکل جاؤ۔ اب یہاں میرے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ تمہیں دس دن کی مہلت دی جاتی ہے اس کے بعد جو شخص پایا جائے گا اس کی گردن ماردی جائے گی۔ اس نوٹس کے بعد یہود کو جلاوطنی کے سوا کوئی چارہ کا ر سمجھ میں نہیں آیا۔ چنانچہ وہ چند دن تک سفر کی تیاریاں کرتے رہے۔لیکن اسی دوران عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین نے کہلا بھیجا کہ اپنی جگہ برقرار رہو۔ ڈٹ جاؤ۔ اور گھر بار نہ چھوڑو۔ میرے پاس دوہزار مردانِ جنگی ہیں۔ جو تمہارے ساتھ تمہارے قلعے میں داخل ہوکر تمہاری حفاظت میں جان دے دیں گے۔ اور اگر تمہیں نکالا ہی گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے۔ اور تمہارے بارے میں کسی سے ہرگز نہیں دبیں گے۔ اور اگرتم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔ اور بنو قریظہ اور غَظْفَان جو تمہارے حلیف ہیں وہ بھی تمہاری مدد کریں گے۔
یہ پیغام سن کر یہود کی خود اعتمادی پلٹ آئی۔ اور انہوں نے طے کرلیا کہ جلاوطن ہونے کے بجائے ٹکر لی جائے گی۔ ان کے سردار حُیی بن اخطب کو توقع تھی کہ راس المنافقین نے جو کچھ کہا ہے وہ پورا کرے گا۔ اس لیے اس نے رسول اللہﷺ کے پاس جوابی پیغام بھیج دیا کہ ہم اپنے دیار سے نہیں نکلتے ، آپ کو جوکرنا ہو کرلیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔