Sunday 30 August 2015

غزوہِ بنو المصطلق میں منافقین کا کردار


جب غزوہ بنی المصطلق پیش آیا۔ اور منافقین بھی اس میں شریک ہوئے، تو انہوں نے ٹھیک وہی کیا جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے:
لَوْ خَرَ‌جُوا فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (۹: ۴۷)
''اگر وہ تمہارے اندر نکلتے تو تمہیں مزید فساد ہی سے دوچار کرتے اور فتنے کی تلاش میں تمہارے اندر تگ ودو کرتے۔''
چنانچہ اس غزوے میں انہیں بھڑاس نکالنے کے دو مواقع ہاتھ آئے۔ جس کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے مسلمانوں کی صفوں میں خاصا اضطراب وانتشار مچایا۔ اور نبیﷺ کے خلاف بدترین پر وپیگنڈہ کیا۔ ایک اہم واقعہ جس پر منافقین کھل کر سامنے آئے وہ واقعہ افک ہے جسکا تذکرہ گزشتہ تحاریر میں آچکا ۔
دوسرے موقع کی کسی قدر تفصیلات یہ ہیں :
مدینہ سے ذلیل ترین آدمی کو نکالنے کی بات :
رسول اللہﷺ غزوہ بنی المصطلق سے فارغ ہوکر ابھی چشمہ مُریسیع پر قیام فرماہی تھے کہ کچھ لوگ پانی لینے گئے ان ہی میں حضرت عمر بن خطابؓ کا ایک مزدور بھی تھا۔ جس کا نام جَہْجَاہ غِفاری تھا۔ پانی پر ایک اور شخص سنان بن وبرجُہنی سے اس کی دھکم دھکا ہوگئی۔ اور دونوں لڑپڑے۔ پھر جُہنی نے پکارا : یا معشر الانصار (انصار کے لوگو! مدد کو پہنچو ) اور جہجاہ نے آوازدی : یامعشر المہاجرین (مہاجرین ! مدد کو آؤ!) رسول اللہﷺ (خبر پاتے ہی وہاں تشریف لے گئے۔ اور )فرمایا: میں تمہارے اندر موجود ہوں اور جاہلیت کی پکار پکاری جارہی ہے ؟ اسے چھوڑو، یہ بدبودار ہے۔
اس واقعے کی خبر عبد اللہ بن ابی بن سَلُول کو ہوئی تو غصے سے بھڑک اٹھا۔ اور بولا: کیا ان لوگوں نے ایسی حرکت کی ہے؟ یہ ہمارے علاقے میں آکر اب ہمارے ہی حریف اور مدّ ِ مقابل ہوگئے ہیں۔ اللہ کی قسم ! ہماری اور ان کی حالت پر تو وہی مثل صادق آتی ہے ، جو پہلوں نے کہی ہے کہ اپنے کتے کو پال پوس کر موٹا تازہ کرو تاکہ وہ تمہیں کو پھاڑ کھائے۔ سنو ! اللہ کی قسم ! اگر ہم مدینہ واپس ہوئے تو ہم میں کا معزز ترین آدمی ، ذلیل ترین آدمی کونکال باہر کرے گا۔ پھر حاضرین کی طرف متوجہ ہوکر بولا: یہ مصیبت تم نے خود مول لی ہے۔ تم نے انہیں اپنے شہر میں اتارا۔ اور اپنے اموال بانٹ کر دیئے۔ دیکھو ! تمہارے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اگر اسے دینا بند کر دو تو یہ تمہارا شہر چھوڑ کر کہیں اور چلتے بنیں گے۔
اس وقت مجلس میں ایک نوجوان صحابی حضرت زید بن ارقم بھی موجود تھے۔ انہوں نے آکر اپنے چچا کو پوری بات کہہ سنائی۔ ان کے چچا نے رسول اللہﷺ کو اطلاع دی۔ اس وقت حضرت عمرؓ بھی موجود تھے۔ بولے : حضور عباد بن بِشر سے کہئے کہ اسے قتل کردیں۔ آپ نے فرمایا : عمر ! یہ کیسے مناسب رہے گا لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کررہا ہے ؟ نہیں بلکہ تم کوچ کا اعلان کردو۔ یہ ایسا وقت تھا جس میں آپ کوچ نہیں فرمایا کرتے تھے۔ لوگ چل پڑے تو حضرت اُسید بن حُضَیرؓ حاضر خدمت ہوئے۔ اور سلام کر کے عرض کیا کہ آج آپ نے ناوقت کوچ فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تمہارے صاحب (یعنی ابن اُبیّ) نے جو کچھ کہا ہے تمہیں اس کی خبر نہیں ہوئی ؟ انہوں نے دریافت کیا کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ آپ نے فرمایا: اس کا خیال ہے کہ وہ مدینہ واپس ہوا تو معززترین آدمی ذلیل ترین آدمی کو مدینہ سے نکال باہر کرے گا۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ اگر چاہیں تو اسے مدینے سے نکال باہر کریں۔ اللہ کی قسم! وہ ذلیل ہے اور آپ باعزت ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے ساتھ نرمی برتئے۔ کیونکہ واللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے پا س اس وقت لے آیا جب اس کی قوم اس کی تاجپوشی کے لیے مونگوں کا تاج تیار کررہی تھی۔ اس لیے اب وہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اس سے اس کی بادشاہت چھین لی ہے۔
پھر آپ شام تک پورا دن اور صبح تک پوری رات چلتے رہے بلکہ اگلے دن کے ابتدائی اوقات میں اتنی دیر تک سفر جاری رکھا کہ دھوپ سے تکلیف ہونے لگی۔ اس کے بعد اتر کر پڑاؤ ڈالا گیا تو لوگ زمین پر جسم رکھتے ہی بے خبر ہوگئے۔ آپ کا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگوں کو سکون سے بیٹھ کر گپ لڑانے کا موقع نہ ملے۔
ادھر عبداللہ بن ابی کو جب پتہ چلا کہ زید بن ارقم نے بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ تو وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اللہ کی قسم کھا کر کہنے لگا کہ اس نے جوبات آپ کو بتائی ہے وہ بات میں نے نہیں کہی ہے۔ اور نہ اسے زبان پر لے آیا ہوں۔ اس وقت وہاں انصار کے جو لوگ موجود تھے انہوں نے بھی کہا: یارسول اللہ ! ابھی وہ لڑکا ہے۔ ممکن ہے اسے وہم ہوگیا ہو۔ اور اس شخص نے جو کچھ کہا تھا اسے ٹھیک ٹھیک یاد نہ رکھ سکا ہو۔ اس لیے آپ نے ابن ابی کی با ت سچ مان لی۔ حضرت زید کا بیان ہے کہ اس پر مجھے ایسا غم لاحق ہوا کہ ویسے غم سے میں کبھی دوچار نہیں ہوا تھا۔ میں صدمے سے اپنے گھر میں بیٹھ رہا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔ منافقین نازل فرمائی۔ جس میں دونوں باتیں مذکور ہیں۔
هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَ‌سُولِ اللَّـهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّوا (۶۳: ۷)
''یہ منافقین وہی ہیں جو کہتے ہیں کہ جولوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وہ چلتے بنیں ''
يَقُولُونَ لَئِن رَّ‌جَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِ‌جَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ (۶۳: ۸)
''یہ منافقین کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ واپس ہوئے تو اس سے عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔''
حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ ( اس کے بعد ) رسول اللہﷺ نے مجھے بلوایا۔ اور یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں ، پھر فرمایا : اللہ نے تمہاری تصدیق کردی۔ (صحیح بخاری ۱/۴۹۹ ، ۲/۲۲۷، ۲۲۸، ۲۲۹ صحیح مسلم حدیث نمبر ۳۵۸۴ ، ترمذی حدیث نمبر ۳۳۱۲،ابن ہشام ۲/۲۹۰ ، ۲۹۱ ، ۲۹۲)
اس منافق کے صاحبزادے جن کا نام عبد اللہ ہی تھا ، اس کے بالکل برعکس نہایت نیک طینت انسان اور خیارِ صحابہ میں سے تھے۔ انہوں نے اپنے باپ سے برأت اختیار کرلی۔ اور مدینہ کے دروازے پر تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے۔ جب ان کا باپ عبد اللہ بن اُبیّ وہاں پہنچاتو اس سے بولے : اللہ کی قسم! آپ یہاں سے آگے نہیں بڑھ سکتے یہاں تک کہ رسول اللہﷺ اجازت دے دیں۔ کیونکہ حضور عزیز ہیں اور آپ ذلیل ہیں۔ اس کے بعد جب نبیﷺ وہاں تشریف لائے تو آپ نے اس کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ اور تب صاحبزادے نے باپ کا راستہ چھو ڑا۔ عبداللہ بن اُبی کے ان ہی صاحبزادے حضرت عبد اللہ نے آپ سے یہ بھی عرض کی تھی کہ اے اللہ کے رسول ! آپ اسے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو مجھے فرمایئے اللہ کی قسم میں اس کا سر آپ کی خدمت میں حاضر کر دوں گا۔( ابن ہشام ایضا ، مختصر السیرہ للشیخ عبدا للہ ص ۲۷۷)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔