ابن قمئہ کے اس اعلان سے نبیﷺ کی شہادت کی خبر مسلمانوں اور مشرکین دونوں میں پھیل گئی۔ اور یہی وہ نازک ترین لمحہ تھا۔ جس میں رسول اللہﷺ سے الگ تھلگ نرغے کے اندر آئے ہوئے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ان کے عزائم سرد پڑ گئے اور ان کی صفیں اتھل پتھل اور بد نظمی وانتشار کا شکار ہوگئیں۔ مگر آپﷺ کی شہادت کی یہی خبر اس حیثیت سے مفید ثابت ہوئی کہ اس کے بعد مشرکین کے پُرجوش حملوں میں کسی قدر کمی آگئی۔ کیونکہ وہ محسوس کررہے تھے کہ ان کا آخری مقصد پورا ہوچکا ہے۔ چنانچہ اب بہت سے مشرکین نے حملہ بند کرکے مسلمان شہداء کی لاشوں کا مُثلہ کرنا شروع کردیا۔
حضرت مُصعب بن عمیرؓ کی شہادت کے بعد رسول اللہﷺ نے جھنڈا حضرت علی بن ابی طالبؓ کودیا۔ انہوں نے جم کر لڑائی کی۔ وہاں پر موجود باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی بے مثال جانبازی وسرفروشی کے ساتھ دفاع اور حملہ کیا۔ جس سے بالآخر اس بات کا امکان پیدا ہوگیا کہ رسول اللہﷺ مشرکین کی صفیں چیر کر نرغے میں آئے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جانب راستہ بنائیں۔ چنانچہ آپﷺ نے قدم آگے بڑھایا اور صحابہ کرام کی جانب تشریف لائے۔ سب سے پہلے حضرت کعب بن مالک نے آپﷺ کو پہچانا۔ خوشی سے چیخ پڑے کہ مسلمانو! خوش ہوجاؤ۔ یہ ہیں رسول اللہﷺ ! آپﷺ نے اشارہ فرمایا کہ خاموش رہو - تاکہ مشرکین کو آپﷺ کی موجودگی اور مقام موجودگی کا پتہ نہ لگ سکے - مگر ان کی آواز مسلمانوں کے کان تک پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ مسلمان آپ کی پناہ میں آنا شروع ہوگئے۔ اور رفتہ رفتہ تقریباً تیس صحابہ جمع ہوگئے۔
جب اتنی تعداد جمع ہو گئی تو رسول اللہﷺ نے پہاڑ کی گھاٹی، یعنی کیمپ کی طرف ہٹنا شروع کیا مگر چونکہ اس واپسی کے معنی یہ تھے کہ مشرکین نے مسلمانوں کو نرغے میں لینے کی جو کارروائی کی تھی وہ بے نتیجہ رہ جائے۔ اس لیے مشرکین نے اس واپسی کو ناکام بنانے کے لیے اپنے تابڑ توڑحملے جاری رکھے۔ مگر آپﷺ نے ان حملہ آوروں کا ہجوم چیر کر راستہ بناہی لیا۔ اور شیرا ن ِ اسلام کی شجاعت وشہ زوری کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ چنانچہ اسی اثناء میں مشرکین کا ایک اڑیل شہسوار عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ یہ کہتے ہوئے رسول اللہﷺ کی جانب بڑھا کہ یا تو میں رہوں گا یا وہ رہے گا۔ ادھر رسول اللہﷺ بھی دودوہاتھ کرنے کے لیے ٹھہر گئے مگر مقابلے کی نوبت نہ آئی۔ کیونکہ اس کا گھوڑا ایک گڑھے میں گر گیا۔ اور اتنے میں حارث بن صمہ نے اس کے پاس پہنچ کر اسے للکارا۔ اور اس کے پاؤں پر اس زور کی تلوار ماری کہ وہیں بٹھادیا ، پھر اس کاکام تمام کرکے اس کا ہتھیار لے لیا۔ اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں آگئے مگر اتنے میں مکی فوج کے ایک دوسرے سوار عبد اللہ بن جابر نے پلٹ کر حضرت حارثہ بن صمہ پر حملہ کردیا اور ان کے کندھے پر تلوار مار کر زخمی کردیا۔ مگر مسلمانوں نے لپک کر انہیں اٹھا لیا۔
کرشمۂ قدرت دیکھئے کہ اسی خونریز مار دھاڑ کے دوران مسلمانوں کو نیند کی چھپکیاں بھی آرہی تھیں اور جیسا کہ قرآن نے بتلایا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے امن وطمانیت تھی۔ ابو طلحہؓ کا بیان ہے کہ میں بھی ان لوگوں میں تھا جن پر اُحد کے روز نیند چھارہی تھی ، یہاں تک کہ میرے ہاتھ سے کئی بار تلوار گرگئی۔حالت یہ تھی کہ وہ گرتی تھی اور میں پکڑتا تھا ،پھر گرتی تھی اور پھر پکڑتا تھا۔( صحیح بخاری ۲/۵۸۲)
خلاصہ یہ کہ اس طرح کی جانبازی وجان سپاری کے ساتھ یہ دستہ منظم طور سے پیچھے ہٹتا ہوا پہاڑ کی گھاٹی میں واقع کیمپ تک جاپہنچا۔ اور بقیہ لشکر کے لیے بھی اس محفوظ مقام تک پہنچنے کا راستہ بنادیا۔ چنانچہ باقی ماندہ لشکر بھی اب آپﷺ کے پاس آگیا۔ اور حضرت خالد بن ولید کی فوجی عبقریت رسول اللہﷺ کی فوجی عبقریت کے سامنے ناکام ہوگئی۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔