۲۔ مقوقس شاہ ِ مصر کے نام خط
نبیﷺ نے ایک گرامی نامہ جریج بن متی (یہ نام علامہ منصورپوری نے رحمۃ للعالمین ۱/۱۷۸ میں ذکر فرمایا ہے۔ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کا نام بنیامین بتلایا ہے۔ دیکھئے رسول اکرم کی سیا سی زندگی ، ص ۱۴۱)کے نام روانہ فرمایا جس کا لقب مقوقس تھا۔ اور جو مصر واسکندریہ کا بادشاہ تھا۔ نامۂ گرامی یہ ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد کی طرف سے مقوقس عظیم ِ قِبط کی جانب !!
اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اما بعد :
میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لاؤ سلامت رہوگے۔ اور اسلام لاؤ اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔لیکن اگر تم نے منہ موڑا تو تم پراہل ِ قبط کا بھی گناہ ہوگا۔ ''اے اہل ِ قبط ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور ہم میں سے بعض ، بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائیں۔ پس اگر وہ منہ موڑ یں تو کہہ دوکہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں۔''(زاد المعاد لابن قیم ۳/۶۱ ماضی قریب میں یہ خط دستیاب ہوا ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کا جو فوٹو شائع کیا ہے اس میں اور زاد المعاد کی عبارت میں صرف دو حرف کا فرق ہے۔ زاد المعاد میں ہے اسلم تسلم۔ اسلم یوتک اللہ...الخ اور خط میں ہے فاسلم تسلم یوتک اللّٰہ ، اسی طرح زاد المعاد میں ہے اثم اہل القبط اور خط میں ہے اثم القبط۔ دیکھئے: رسول اکرم کی سیاسی زندگی ص ۱۳۶، ۱۳۷)
اس خط کو پہنچانے کے لیے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کا انتخاب فرمایا گیا۔ وہ مقوقس کے دربار میں پہنچے تو فرمایا کہ (اس زمین پر ) تم سے پہلے ایک شخص گزرا ہے جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا۔ اللہ نے اسے آخر واوّل کے لیے عبرت بنادیا۔ پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا۔ پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ لہٰذا دوسرے سے عبرت پکڑو۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں۔
مقوقس نے کہا : ہمارا ایک دین ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے جب تک کہ اس سے بہتر دین نہ مل جائے۔
حضرت حاطب نے فرمایا: ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ماسوا (ادیان) کے بدلے کافی بنادیا ہے۔ دیکھو ! اس نبی نے لوگوں کو (اسلام کی ) دعوت دی تو اس کیخلاف قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے۔ یہودنے سب سے بڑھ کر دشمنی کی۔ اور نصاریٰ سب سے زیادہ قریب رہے۔ میری عمر کی قسم ! جس طرح حضرت موسیٰ ؑنے حضرت عیسیٰ ؑکے لیے بشارت دی تھی۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ نے محمدﷺ کے لیے بشارت دی ہے۔ اور ہم تمہیں قرآن مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں جیسے تم اہلِ تورات کو انجیل کی دعوت دیتے ہو۔ جو نبی جس قوم کو پاجاتا ہے وہ قوم اس کی امت ہوجاتی ہے۔ اور اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس نبی کی اطاعت کرے اور تم نے اس نبی کا عہد پالیا ہے۔ اور پھر ہم تمہیں دین ِ مسیح سے روکتے نہیں ہیں بلکہ ہم تو اسی کا حکم دیتے ہیں۔
مقوقس نے کہا : میں نے اس نبی کے معاملے پر غور کیا تو میں نے پایا کہ وہ کسی ناپسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے۔ اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے۔ وہ نہ گمراہ جادوگر ہیں نہ جھوٹے کاہن۔ بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ساتھ نبوت کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے اور سرگوشی کی خبر دیتے ہیں میں مزید غور کروں گا۔
مقوقس نے نبیﷺ کا خط لے کر (احترام کے ساتھ ) ہاتھی دانت کی ایک ڈبیہ میں رکھ دیا اور مہرلگا کر اپنی ایک لونڈی کے حوالے کردیا۔ پھر عربی لکھنے والے ایک کاتب کو بلا کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھوایا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد بن عبد اللہ کے لیے مقوقس عظیم قبط کی طرف سے۔
آپ پر سلام ! اما بعد میں نے آپ کا خط پڑھا۔ اورا س میں آپ کی ذکر کی ہوئی بات اور دعوت کو سمجھا۔ مجھے معلوم ہے کہ ابھی ایک نبی کی آمد باقی ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ شام سے نمودار ہوگا۔ میں نے آپ کے قاصد کا اعزاز واکرام کیا۔ اور آپ کی خدمت میں دولونڈیاں بھیج رہاہوں جنہیں قبطیوں میں بڑا مرتبہ حاصل ہے۔ اور کپڑے بھیج رہا ہوں۔ اور آپ کی سواری کے لیے ایک خچر بھی ہدیہ کررہا ہوں ، اور آپ پرسلام۔''
مقوقس نے اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا اور اسلام نہیں لایا۔ دونوں لونڈیاں ماریہ اور سیرین تھیں۔ خچر کا نام دُلدل تھا۔ جو حضرت معاویہؓ کے زمانے تک باقی رہا۔ (زاد المعاد ۳/۶۱)نبیﷺ نے ماریہ کو اپنے پاس رکھا۔ اور انہی کے بطن سے نبیﷺ کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے۔
حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا مصر سے حضرت حاطب رضی اللہ عنہا کے ساتھ آئی تھیں، اس لیے وہ ان سے بہت زیادہ مانوس ہوگئی تھیں، حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے اس انس سے فائدہ اُٹھاکر اُن کے سامنے اسلام پیش کیا، حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا اور اُن کی بہن حضرت سیرین رضی اللہ عنہا نے تواسلام قبول کرلیا؛ لیکن اُن کے بھائی مابور اپنے قدیم دین عیسائیت پرقائم رہے۔ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا گوازواجِ مطہرات میں نہیں تھیں؛ لیکن رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ازواجِ مطہرات ہی کے ایسا سلوک کرتے تھے، آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے اعزاز واحترام کوباقی رکھا اور ہمیشہ ان کے نان ونفقہ کا خیال کرتے رہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے ساتھ یہی سلوک مرعی رکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے بیحد محبت تھی اور اس وجہ سے اُن کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدورفت بہت زیادہ رہتی تھی؛ گووہ کنیز تھیں (جاربات، یعنی کنیزوں کے لیے پردہ کی ضرورت نہیں) لیکن ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کی طرح اُن کوبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ میں رہنے کا حکم دیا تھا (اصابہ، وابن سعد) اُن کے فضل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ مبارک کافی ہے کہ:
استوصوا بالقبط خيرا فإن لهم ذمة ورحما قال ورحمهم أن أم إسماعيل بن إبراهيم منهم وأم إبراهيم بن النبي صلى الله عليه وسلم منهم۔
(الطبقات الكبرى،ابن سعد:۸/۲۱۴، شاملہ،المؤلف: محمد بن سعد بن منيع أبوعبدالله البصري الزهري، الناشر:دارصادر،بيروت)
ترجمہ: قبطیوں کے (مصر کے عیسائی) ساتھ حسنِ سلوک کرو، اس لیے کہ اُن سے عہد اور نسب دونوں کا تعلق ہے، اُن سے نسب کا تعلق تویہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (حضرت ہاجرہ) اور میرے لڑکے ابراہیم دونوں کی ماں اسی قوم سے ہیں (اور عہد کا تعلق یہ ہے کہ اُن سے معاہدہ ہوچکا ہے)۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔