Saturday 29 August 2015

محبت اور جانثاری کے نادر واقعات


شہداء کی تدفین اور اللہ عزوجل کی ثناء ودعا سے فارغ ہوکر رسول اللہﷺ نے مدینے کا رخ فرمایا۔ جس طرح دورانِ کارزار اہلِ ایمان صحابہ سے محبت وجاں سپاری کے نادر واقعات کا ظہور ہوا تھا اسی طرح اثناء راہ میں اہل ِ ایمان صحابیات سے صدق وجاں سپاری کے عجیب عجیب واقعات ظہور میں آئے۔
چنانچہ راستے میں آنحضورﷺ کی ملاقات حضرت حَمنہ بنت جحشؓ سے ہوئی۔ انہیں ان کے بھائی عبد اللہ بن جحشؓ کی شہادت کی خبر دی گئی۔ انہوں نے انا للہ پڑھی اور دعائے مغفرت کی۔ پھر ان کے ماموں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کی شہادت کی خبر دی گئی۔ انہوں نے پھر انا للہ پڑھی اور دعائے مغفرت کی۔ اس کے بعد ان کے شوہر حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شہادت کی خبر دی گئی تو تڑپ کر چیخ اٹھیں۔ اور دھاڑ مار کررونے لگیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ',عورت کا شوہر اس کے یہاں ایک خصوصی درجہ رکھتا ہے۔''(ابن ہشام ۲/۹۸ 2 )
اسی طرح آپ کا گزر بنودینار کی ایک خاتون کے پاس سے ہوا۔ جس کے شوہر ، بھائی ، اور والد تینوں خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوچکے تھے۔ جب انہیں ان لوگوں کی شہادت کی خبردی گئی تو کہنے لگیں کہ رسول اللہﷺ کا کیا ہوا ؟ لوگوں نے کہا : ام فلاں ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم بخیر ہیں۔ اور بحمد للہ جیسا تم چاہتی ویسے ہی ہیں۔ خاتون نے کہا : ذرا مجھے دکھلادو۔ میں بھی آپﷺ کا وجود مبارک دیکھ لوں۔ لوگوں نے انہیں اشارے سے بتلایا۔ جب ان کی نظر آپﷺ پر پڑی تو بے ساختہ پکار اٹھیں: کل مصیبۃ بعدک جلل '' آپ کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے۔''(ایضا ۲/۹۹)
اثناء راہ ہی میں حضرت سعد بن معاذؓ کی والدہ آپ کے پاس دوڑتی ہوئی آئیں۔ اس وقت حضرت سعدبن معاذ رسول اللہﷺ کے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ کہنے لگے : یا رسول اللہﷺ میری والدہ ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: انہیں مرحبا ہو۔ اس کے بعد ان کے استقبال کے لیے رک گئے۔ جب وہ قریب آگئیں تو آپﷺ نے ان کے صاحبزادے عمرو بن معاذ کی شہادت پر کلمات ِ تعزیت کہتے ہوئے انہیں تسلی دی اور صبر کی تلقین فرمائی۔ کہنے لگیں: جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہ سلامت دیکھ لیا تو میرے لیے ہر مصیبت ہیچ ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے شہداء اُحد کے لیے دعا فرمائی۔ اور فرمایا : اے اُمِ سعد ! تم خوش ہوجاؤ۔ اور شہداء کے گھروالوں کو خوش خبری سنادو کہ ان کے شہداء سب کے سب ایک ساتھ جنت میں ہیں اور اپنے گھروالوں کے بارے میں ان سب کی شفاعت قبول کرلی گئی ہے۔
کہنے لگیں : اے اللہ کے رسول ! ان کے پسماندگان کے لیے بھی دعا فرمادیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! ان کے دلوں کاغم دور کر۔ ان کی مصیبت کا بدل عطا فرما۔ اور باقی ماندگان کی بہترین دیکھ بھال فرما۔(السیرۃ الحلبیہ ۲/ ۴۷)
بیشتر روایتیں متفق ہیں کہ مسلمان شہداء کی تعداد ستر تھی۔ جن میں بھاری اکثریت انصار کی تھی ، یعنی ان کے ۶۵ آدمی شہید ہوئے تھے۔ ۴۱ خزرج سے اور ۲۴ اوس سے۔ ایک آدمی یہود سے قتل ہوا تھا۔ اور مہاجرین شہداء کی تعداد صرف چار تھی۔
باقی رہے قریش کے مقتولین تو ابن اسحاق کے بیان کے مطابق ان کی تعداد ۲۲ تھی ، لیکن اصحاب مغازی اور اہل ِ سِیَر نے اس معرکے کی جو تفصیلات ذکر کی ہیں اور جن میں ضمناً جنگ کے مختلف مرحلوں میں قتل ہونے والے مشرکین کا تذکرہ آیا ہے ان پر گہری نظر رکھتے ہوئے دقت پسندی کے ساتھ حساب لگایا جائے تو یہ تعداد ۲۲ نہیں بلکہ ۳۷ہوتی ہے۔ واللہ اعلم
(ابن ہشام ۲/۱۲۲تا ۱۲۹ فتح الباری ۷/۳۵۱ اور غزوہ ٔ احد تصنیف محمد احمد باشمیل ص ۲۷۸، ۲۷۹،۲۸۰)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔