ایک طرف مشرکین کا جھنڈا معرکے کا مرکزِ ثقل تھا تو دوسری طرف میدان کے بقیہ حصوں میں بھی شدید جنگ جاری تھی۔ مسلمانوں کی صفوں پر ایمان کی رُوح چھائی ہوئی تھی۔ اس لیے وہ شرک وکفر کے لشکر پر اس سیلاب کی طرح ٹوٹے پڑ رہے تھے جس کے سامنے کوئی بند ٹھہر نہیں پاتا۔ مسلمان اس موقعے پر اَمِتْ اَمِت کہہ رہے تھے۔ اور اس جنگ میں یہی ان کا شعار تھا۔
ادھر ابو دجانہؓ نے اپنی سُرخ پٹی باندھے، رسول اللہﷺ کی تلوار تھامے، اور اس کے حق کی ادائیگی کا عزم ِ مصمم کیے پیش قدمی کی۔ اور لڑتے ہوئے دور تک جاگھسے وہ جس مشرک سے ٹکراتے اس کا صفایا کردیتے۔ انہوں نے مشرکین کی صفوں کی صفیں اُلٹ دیں۔
حضرت زبیر بن عوامؓ کا بیان ہے کہ جب میں نے رسول اللہﷺ سے تلوار مانگی اور آپ نے مجھے نہ دی تو میرے دل پر اس کا اثر ہو ا۔ اور میں نے اپنے جی میں سوچا کہ میں آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ کا بیٹا ہوں ، قریشی ہوں۔ اور میں نے آپ کے پاس جاکر ابو دجانہ سے پہلے تلوار مانگی ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہ دی ، اور انہیں دے دی۔ اس لیے واللہ ! میں دیکھوں گا کہ وہ اس سے کیا کام لیتے ہیں ؟ چنانچہ میں ان کے پیچھے لگ گیا۔ انہوں نے یہ کیا کہ پہلے اپنی سرخ پٹی نکالی اورسر پر باندھی۔ اس پر انصار نے کہا: ابو دُجانہ نے موت کی پٹی نکال لی ہے۔ پھر وہ یہ کہتے ہوئے میدان کی طرف بڑھے۔
أنا الـذی عاہدنـی خلیـلـی ونحن بالسفح لـدی النخیل
أن لا أقوم الدہر في الکیول اضرب بسیف اللہ والرسول
''میں نے اس نخلستان کے دامن میں اپنے خلیلﷺ سے عہد کیا ہے کہ کبھی صفوں کے پیچھے نہ رہوں گا۔ (بلکہ آگے بڑھ کر ) اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار چلاؤں گا۔''
اس کے بعد انہیں جو بھی مل جاتا اسے قتل کردیتے۔ ادھر مشرکین میں ایک شخص تھا جو ہمارے کسی بھی زخمی کو پاجاتا تو اس کا خاتمہ کردیتا تھا۔ یہ دونوں رفتہ رفتہ قریب ہورہے تھے۔ میں نے اللہ سے دعا کی کہ دونوں میں ٹکر ہوجائے۔ اور واقعتا ٹکر ہوگئی۔ دونوں نے ایک دوسر ے پر ایک ایک وار کیا۔ پہلے مشرک نے ابو دجانہ پر تلوار چلائی، لیکن ابو دجانہ نے یہ حملہ ڈھال پر روک لیا۔ اور مشرک کی تلوار ڈھال میں پھنس کر رہ گئی۔ اس کے بعد ابودجانہ نے تلوار چلائی اور مشرک کو وہیں ڈھیر کردیا۔( ابن ہشام ۲/۶۸، ۶۹)
اس کے بعد ابو دجانہ صفوں پر صفیں درہم برہم کرتے ہوئے آگے بڑھے، یہاں تک کہ قریشی عورتوں کی کمانڈر تک جاپہنچے۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ یہ عورت ہے۔ چنانچہ ان کا بیان ہے کہ میں نے ایک انسان کو دیکھا وہ لوگوں کو بڑے زور وشور سے جوش وولولہ دلارہا تھا۔ اس لیے میں نے اس کو نشانے پر لے لیا لیکن جب تلوار سے حملہ کرنا چاہا تو اس نے ہائے پکار مچائی اور پتہ چلا کہ عورت ہے۔ میں نے رسول اللہﷺ کی تلوار کو بٹہ نہ لگنے دیا کہ اس سے کسی عورت کو ماروں۔
یہ عورت ہند بنت عتبہ تھی۔ چنانچہ حضرت زُبیر بن عوامؓ کا بیان ہے کہ میں نے ابو دجانہ کو دیکھاکہ انہوں نے ہند بنت عتبہ کے سر کے بیچوں بیچ تلوار بلند کی، اور پھر ہٹالی۔ میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسولﷺ بہتر جانتے ہیں۔( ابنِ ہشام ۲/۶۹)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔