Sunday, 30 August 2015

غزوہِ احزاب اور قریظہ کے بعد کی جنگی مہمات - غزوہ بنی مصطلق یا غزوہِ مریسیع


یہ غزوہ جنگی نقطۂ نظر سے کوئی بھاری بھرکم غزوہ نہیں ہے مگر اس حیثیت سے اس کی بڑی اہمیت ہے کہ اس میں چند واقعات ایسے رُونما ہوئے جن کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں اضطراب اور ہلچل مچ گئی۔ اور جس کے نتیجے میں ایک طرف منافقین کا پردہ فاش ہو ا۔ تو دوسری طرف ایسے تعزیری قوانین نازل ہوئے جن سے اسلامی معاشرے کو شرف وعظمت اور پاکیزگی کی ایک خاص شکل عطا ہوئی۔ ان میں ایک افک کا واقعہ اور حضور کی حضرت زینب کے ساتھ شادی کا واقعہ قابل ذکر ہے، ان دونوں واقعات ، ان پر منافقین کی بدزبانیاں اور پھر اس پر قرآن کی جو آیات نازل ہوئیں انکا تذکرہ گزشتہ تحاریر میں آچکا۔
یہ غزوہ --- عام اہل سیر کے بقول شعبان ۵ ھ میں اور ابن اسحاق کے بقول ۶ ھ1میں پیش آیا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ نبیﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ بنو المصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار آپ سے جنگ کے لیے اپنے قبیلے اور کچھ دوسرے عربوں کو ساتھ لے کر آرہا ہے۔ آپ نے بریدہ بن حصیب اسلمیؓ کو تحقیق حال کے لیے روانہ فرمایا۔ انہوں نے اس قبیلے میں جاکر حارث بن ضرار سے ملاقات کی اور بات چیت کی۔ اور واپس آکر رسول اللہﷺ کو حالات سے باخبر کیا۔
جب آپﷺ کو خبر کی صحت کا اچھی طرح یقین آگیا تو آپﷺ نے صحابہ کرام کو تیاری کا حکم دیا اور بہت جلد روانہ ہوگئے۔ روانگی ۲/شعبان کوہوئی۔ اس غزوے میں آپ کے ہمراہ منافقین کی بھی ایک جماعت تھی۔ جو اس سے پہلے کسی غزوے میں نہیں گئی تھی۔ آپ نے مدینہ کا انتظام حضرت زید بن حارثہ کو (اور کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو ذر کو ، اور کہا جاتا ہے کہ نمیلہ بن عبد اللہ لیثی کو ) سونپا تھا۔ حارث بن ابی ضرار نے اسلامی لشکرکی خبر لانے کے لیے ایک جاسوس بھیجا تھا ، لیکن مسلمانوں نے اسے گرفتار کرکے قتل کردیا۔
جب حارث بن ابی ضرار اور اس کے رفقاء کو رسول اللہﷺ کی روانگی اور اپنے جاسوس کے قتل کیے جانے کا علم ہوا تو وہ سخت خوفزدہ ہوا۔ اور جو عرب ان کے ساتھ تھے ، وہ سب بکھر گئے۔ رسول اللہﷺ چشمۂ مریسیع(مریْسیع۔ م کو پیش۔ اور ر کو زبر ، قدید کے اطراف میں ساحل سمندر کے قریب بنو مصطلق کے ایک چشمے کا نام تھا) تک پہنچے تو بنو مصطلق آمادہ ٔ جنگ ہوگئے۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام نے بھی صف بندی کر لی۔ پورے اسلامی لشکر کے علمبردار حضرت ابو بکرؓ تھے اور خاص انصار کا پھریرا حضرت سعد بن عبادہؓ کے ہاتھ میں تھا کچھ دیر فریقین میں تیروں کا تبادلہ ہوا۔ اس کے بعد رسو ل اللہﷺ کے حکم سے صحابہ کرام نے یکبارگی حملہ کیا۔ اور فتح یاب ہوگئے ، مشرکین نے شکست کھائی۔ کچھ مارے گئے۔ مسلمان کا صرف ایک آدمی ماراگیا۔ اسے ایک انصار ی نے دشمن کا آدمی سمجھ کر مار دیا تھا۔
۔( صحیح بخاری کتاب العتق ۱/۳۴۵ فتح الباری ۵/۲۰۲ ، ۷/۴۳۱)
قیدیوں میں حضرت جویریہ ؓ بھی تھیں۔ جو بنو المصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرارکی بیٹی تھیں۔ وہ ثابت بن قَیس کے حصے میں آئیں۔ ثابت نے انہیں مکاتب بنا لیا۔( مکاتب اس غلام یا لونڈی کو کہتے ہیں جو اپنے مالک سے یہ طے کر لے کہ وہ ایک مقررہ رقم مالک کو ادا کر کے آزاد ہوجائیگا)۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان کی جانب سے مقررہ رقم ادا کرکے ان سے شادی کرلی۔ اس شادی کی وجہ سے مسلمانوں نے بنو المصطلق کے ایک سو گھرانوں کو جو مسلمان ہوچکے تھے۔ آزاد کردیا۔ کہنے لگے کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے سسرال کے لوگ ہیں۔( زادالمعاد ۲/۱۱۲، ۱۱۳ ابن ہشام ۲۸۹، ۲۹۰ ، ۲۹۴ ، ۲۹۵)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔