حضور ﷺ نے احزاب سے فارغ ہو کر حکم دیا کہ ہتھیار نا کھولیں اور بنو قریظہ کی طرف چلیں، آپ نے نے مدینہ میں حضرت عبداللہ ؓ ابن اُم مکتوم کو اپنا نائب مقرر فرمایا اور پھر مہاجرین و انصار کے ساتھ روانہ ہوئے ، قریظہ اگر صلح سے پیش آتے تو قابل اطمینان تصفیہ کے بعد انکو امن دے دیا جاتا ہے، لیکن وہ مقابلے کا فیصلہ کرچکے تھے ۔ بنو قریظہ کے پاس مضبوط قلعے تھے ، سامان ِخوراک کافی مقدار میں تھا اور بہت سے پانی کے چشمے موجود تھے ، اسلحہ بھی کافی تعداد میں تھے ، ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کے پاس ان وسائل کی کمی تھی؛ لیکن نہایت بہادری سے ڈٹ کران کے قلعوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھے ، طرفین میں تیر اور پتھروں کا تبادلہ ہوتا رہا، محاصرہ طول کھینچتا رہا جس کی مدت بہ اختلاف روایات پندرہ روز ، اکیس روز اور پچیس روز بتلائی گئی ہے ، بنو قریظہ نے محاصرہ سے تنگ آکر ایک قاصد بناش بن قیس کو اس پیام کے ساتھ بھیجا کہ جن شرائط پر بنو نضیر کو بستی خالی کرنے کی اجازت دی گئی تھی ہم بھی وہی شرائط قبول کرتے ہیں ، ان کی درخواست رد کر دی گئی اور ان سے کہا گیا کہ بلا شرط ہتھیار ڈال دیں،
بنو قریظ کا سردار کعب بن اسد تھا،حیی بن اخطب بھی بنو قریظہ کے ساتھ محصور تھا،کعب بن اسد نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ میری قوم سے نہیں ہوسکتا تو اُس نے اپنی قوم کو ایک جگہ جمع کرکے کہا :
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے میں تو شک نہیں ؛کیونکہ ان کے متعلق ہماری آسمانی کتاب توریت میں پیش گوئیاں صاف صاف موجود ہیں اور یہ وہی نبی ہیں جن کے ہم منتظر تھے، پس مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب اُن کی تصدیق کریں اوراپنے جان ومال واولاد کو محفوظ کرلیں، بنو قریظہ نے اس مشورہ کی مخالفت کی اورمسلمان ہونے سے انکار کیا،
اس کے بعد کعب بن اسد نے کہا: دوسرا مشورہ میرا یہ ہے کہ اپنی عورتوں اوربچوں کو قتل کردو اور قلعہ سے نکل کر میدان میں مسلمانوں سے جان توڑ کر مقابلہ کرو،اگر فتح مند ہوئے تو عورتیں اوربچے پھر میسر آسکتے ہیں،مارے گئے تو ننگ وناموس کی طرف سے بے فکر مریں گے،بنو قریظہ نے اس مشورہ کے قبول کرنے سے بھی انکار کیا،
کعب بن اسد نے کہا کہ تیسرا مشورہ میرا یہ ہے کہ سبت کی رات میں مسلمانوں پر شبخون مارو کیونکہ اس روز ہمارے یہاں قتل کرنا اورحملہ آور ہونا ناجائز ہے،مسلمان اُس رات کو ہماری طرف سے بالکل بے فکر اور غافل ہوں گے،اس لئے ہمارا شبخون بہت کامیاب رہے گا، اورہم مسلمانوں کا بکُلی استیصال کردیں گے،اس بات پر بھی بنو قریظہ رضامندنہ ہوئے اور کہا کہ ہم سبت کی بے حرمتی بھی نہیں کرنا چاہتے۔
لیکن یہود نے ان تینوں میں سے کوئی بھی تجویز منظور نہ کی۔ جس پر ان کے سردار کعب بن اسد نے (جھلا کر) کہا:تم میں سے کسی نے ماں کی کوکھ سے جنم لینے کے بعد ایک رات بھی ہوش مندی کے ساتھ نہیں گزاری ہے۔
ان تینوں تجاویز کو رد کردینے کے بعد بنو قریظہ کے سامنے صرف ایک ہی راستہ رہ جاتا تھا کہ رسول اللہﷺ کے سامنے ہتھیار ڈال دیں ۔آخر ایک کو بنو قریظہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم اپنے آپ کو اس شرط پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کرتے ہیں کہ سعد بن معاذؓ ہمارے لئے جو سزا تجویز کریں وہی سزا ہم کو دی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کو قبول فرمالیا۔
سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور انکا قبیلہ اوس بنو قریظہ کا حلیف اور ہم عہد تھا اور ان میں تعلق ہم نسبتی سے بڑھ کرتھا، بنو قریظہ نے اپنے حلیف قبیلہ اوس کے لوگوں سے اصراراً کہا کہ بنی نضیر کے لئے خزرج والوں ے سفارش کی تھی، اسی طرح تم بھی ہمارے لئے حضور ﷺ سے سفارش کرو جس پر قبیلہ اوس والوں نے حضور ﷺ سے ان کے لئے سفارش کی ، قبیلہ اوس کے لوگ رسول اللہﷺ سے عرض پر داز ہوئے کہ آپ نے بنو قینقاع کے ساتھ جو سلوک فرمایا تھا وہ آپ کو یاد ہی ہے بنو قینقاع ہمارے بھائی خَزْرج کے حلیف تھے اور یہ لوگ ہمارے حلیف ہیں۔ لہٰذا ان پر احسان فرمائیں۔یہ سن کر حضور اکرمﷺ نے انصار سے فرمایا ! کیا یہ مناسب نہیں کہ ہم میں اور ان میں کوئی شخص حکم مقرر کر دیا جائے ، سب نے کہا یہ بہت مناسب ہے ، فرمایا !ان سے کہو کہ قبیلہ اوس میں سے جس کو چاہیں حکم مقرر کریں ، بنو قریظہ نے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعدؓ بن معاذ کی ثالثی پر رضامندی ظاہر کی۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔