کچھ دیر تک اسی طرح شدید جنگ ہوتی رہی۔ اور چھوٹا سا اسلامی لشکر ، رفتارِ جنگ پر پوری طرح مسلط رہا۔ بالآخر مشرکین کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ ان کی صفیں دائیں بائیں ، آگے پیچھے سے بکھرنے لگیں۔ گویا تین ہزار مشرکین کو سات سو نہیں بلکہ تیس ہزار مسلمانوں کا سامنا ہے۔ ادھر مسلمان تھے کہ ایمان ویقین اور جانبازی وشجاعت کی نہایت بلند پایہ تصویر بنے شمشیر وسنان کے جوہر دکھلارہے تھے۔
جب قریش نے مسلمانوں کے تابڑ توڑ حملے روکنے کے لیے اپنی انتہائی طاقت صَرف کر نے کے باوجود مجبوری وبے بسی محسوس کی ، اور ان کے حوصلے اس حد تک ٹوٹ گئے کہ صواب کے قتل کے بعد کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ سلسلۂ جنگ جاری رکھنے کے لیے اپنے گرے ہوئے جھنڈے کے قریب جاکر اسے بلند کرے تو انہوں نے پسپا ہونا شروع کر دیا۔ اور فرار کی راہ اختیار کی۔ اور بدلہ وانتقام ، بحالیٔ عزت ووقار اور واپسیٔ مجد وشرف کی جو باتیں انہوں نے سوچ رکھی تھیں انہیں یکسر بھول گئے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اللہ نے مسلمانوں پر اپنی مدد نازل کی، اور ان سے اپنا وعدہ پورا کیا۔ چنانچہ مسلمانوں نے تلواروں سے مشرکین کی ایسی کٹائی کی کہ وہ کیمپ سے بھی پرے بھاگ گئے۔ اور بلا شبہ ان کو شکست فاش ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کا بیان ہے کہ ان کے والد نے فرمایا: واللہ! میں نے دیکھا کہ ہند بنت عتبہ اور اس کی ساتھی عورتوں کی پنڈلیاں نظر آرہی ہیں۔ وہ کپڑے اٹھائے بھاگی جارہی ہیں۔ ان کی گرفتاری میں کچھ بھی حائل نہیں ... ابن ہشام ۲/۷۷
صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازبؓ کی روایت ہے کہ جب مشرکین سے ہماری ٹکر ہوئی تو مشرکین میں بھگدڑ مچ گئی۔ یہاں تک کہ میں نے عورتوں کو دیکھا کہ پنڈلیوں سے کپڑ ے اٹھائے پہاڑ میں تیزی سے بھاگ رہی تھیں۔ ان کے پازیب دکھائی پڑرہے تھے۔ (صحیح بخاری ۲/۵۷۹)
لیکن عین اس وقت جبکہ یہ مختصر سااسلامی لشکر اہل ِ مکہ کے خلاف تاریخ کے اوراق پر ایک اور شاندار فتح ثبت کر رہا تھا جو اپنی تابناکی میں جنگ ِ بدر کی فتح سے کسی طرح کم نہ تھی ، تیر اندازوں کی اکثریت نے ایک خوفناک غلطی کا ارتکاب کیا جس کی وجہ سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ مسلمانوں کو شدید نقصانات کا سامنا کر نا پڑا۔ اور خود نبی کریمﷺ شہادت سے بال بال بچے ، اوراس کی وجہ سے مسلمانوں کی وہ ساکھ اور وہ ہیبت جاتی رہی جو جنگ ِ بدر کے نتیجے میں انہیں حاصل ہوئی تھی۔
پچھلے صفحات میں گزر چکا ہے کہ رسول اللہﷺ نے تیر اندازوں کو فتح وشکست ہر حال میں اپنے پہاڑی مورچے پر ڈٹے رہنے کی کتنی سخت تاکید فرمائی تھی۔ لیکن ان سارے تاکیدی احکامات کے باوجود جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان مال ِ غنیمت لوٹ رہے ہیں تو ان پر حُبّ ِ دنیا کا کچھ اثر غالب آگیا ، چنانچہ بعض نے بعض سے کہا: غنیمت ......! غنیمت ...... ! تمہارے ساتھی جیت گئے ......! اب کاہے کا انتظار ہے ؟
اس آواز کے اٹھتے ہی ان کے کمانڈر حضرت عبد اللہؓ بن جبیر نے انہیں رسول اللہﷺ کے احکامات یاد دلائے اور فرمایا : کیا تم لوگ بھول گئے کہ رسول اللہﷺ نے تمہیں کیا حکم دیا تھا ؟ لیکن ان کی غالب اکثریت نے اس یاد دہانی پر کان نہ دھرا اور کہنے لگے : ''اللہ کی قسم! ہم بھی لوگوں کے پاس ضرور جائیں گے اور کچھ مالِ غنیمت ضرور حاصل کریں گے۔ '' (یہ بات صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے۔ دیکھئے ۱/۴۲۶)اس کے بعدچالیس تیر اندازوں نے اپنے مورچے چھوڑ دیے اور مالِ غنیمت سمیٹنے کے لیے عام لشکر میں جا شامل ہوئے۔ اس طرح مسلمانوں کی پشت خالی ہوگئی اور وہاں صرف عبد اللہؓ بن جبیر اور ان کے نو ساتھی باقی رہ گئے جو اس عزم کے ساتھ اپنے مورچوں میں ڈٹے رہے کہ یا تو انہیں اجازت دی جائے گی یاوہ اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردیں گے۔
حضرت خالد بن ولیدؓ ، جو اس سے پہلے تین بار اس مورچے کو سر کرنے کی کوشش کر چکے تھے ، اس زرّیں موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت تیزی سے چکر کاٹ کر اسلامی لشکر کی پشت پر جاپہنچے۔ اور چند لمحوں میں عبداللہؓ بن جبیر اور ان کے ساتھیوں کا صفا یا کر کے مسلمانوں پر پیچھے سے ٹوٹ پڑے۔ ان کے شہسواروں نے ایک نعرہ بلند کیا جس سے شکست خوردہ مشرکین کو اس نئی تبدیلی کا علم ہوگیا۔ اور وہ بھی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ ادھر قبیلہ بنو حارث کی ایک عورت عمرہ بنت علقمہ نے لپک کر زمین پر پڑا ہوا مشرکین کا جھنڈا اٹھا لیا ، پھر کیا تھا ، بکھرے ہوئے مشرکین اس کے گرد سمٹنے لگے اور ایک نے دوسرے کو آواز دی ، جس کے نتیجے میں وہ مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہوگئے اور جم کر لڑائی شروع کردی۔ اب مسلمان آگے اور پیچھے دونوں طرف سے گھیر ے میں آچکے تھے۔ گویا چکی کے دوپاٹوں کے بیج میں پڑگئے تھے۔
اس وقت رسول اللہﷺ صرف نو صحابہؓ کی ذرا سی نفری کے ہمراہ پیچھے تشریف فرماتھے اور مسلمانوں کی ماردھاڑ اور مشرکین کے کھدیڑ ے جانے کا منظر دیکھ رہے تھے کہ آپﷺ کو ایک دم اچانک خالد بن ولید کے شہسوار دکھائی پڑے۔ اس کے بعد آپﷺ کے سامنے دوہی راستے تھے ، یا تو آپﷺ اپنے نو رفقاء سمیت بھاگ کر کسی محفوظ جگہ چلے جاتے اور اپنے لشکر کو جو اب نرغے میں آیا ہی چاہتا تھا اس کی قسمت پر چھوڑ دیتے۔ یا اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے صحابہ کو بلاتے۔ اور ان کی معتد بہ تعداد اپنے پاس جمع کرکے ایک مضبوط محاذ تشکیل دیتے اور اس کے ذریعے مشرکین کا گھیرا توڑ کر اپنے لشکر کے لیے احد کی بلندی کی طرف جانے کا راستہ بناتے۔
آزمائش کے اس نازک ترین موقع پر رسول اللہﷺ کی عبقریت اور بے نظیر شجاعت نمایاں ہوئی کیونکہ آپﷺ نے جان بچاکر بھاگنے کے بجائے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جان بچانے کا فیصلہ کیا۔
چنانچہ آپﷺ نے خالد بن ولید کے شہسواروں کو دیکھتے ہی نہایت بلند آواز سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پکار ا: اللہ کے بند و ! ادھر ... ! حالا نکہ آپﷺ جانتے تھے کہ یہ آواز مسلمانوں سے پہلے مشرکین تک پہنچ جائے گی۔ اور یہی ہوا بھی۔ چنانچہ یہ آواز سن کر مشرکین کو معلوم ہو گیا کہ آپﷺ یہیں موجود ہیں۔ لہٰذا ان کا ایک دستہ مسلمانوں سے پہلے آپﷺ کے پاس پہنچ گیا۔ اور باقی شہسواروں نے تیزی کے ساتھ مسلمانوں کو گھیرنا شروع کردیا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔