زکوة اسلام کے معاشی نظام کا ایک اہم حصہ ہے، جس سے مملکت کی بڑی تعداد اور انسانیت کا بڑا طبقہ مستفید ہوتا ہے، غرباء و مساکین کی خبرگیری صاحب حیثیت مسلمانوں پر فرض قرار دینا اسلام کی ایک خصوصیت ہے ۔
فرضیت زکوٰۃ کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے، عام خیال یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کے بعد فرض ہوئی، بعض مورخ لکھتے ہیں کہ ۸ ھ میں فتح مکہ کے بعد فرض ہوئی، ارکان اسلام میں کلمۂ شہادت اور صلوٰۃ کے بعد زکوٰۃ دین کا تیسرا اہم رکن ہے، قرآن مجید میں صلوٰۃ اور زکواۃ کا تذکرہ ساتھ ساتھ ہے۔
فقہی اصطلاح میں زکوٰۃ اس مالی امداد کو کہتے ہیں جو ہر صاحب نصاب مسلمان اپنی دولت پر سال میں صرف ایک دفعہ مخصوص مقدار میں ادا کرتا ہے ، زکوٰۃکی شرح اورقواعدو ضوابط عین عدل و انصاف پر مبنی ہیں ، کہ محتاجوں اور ضرورت مندوں کو دی جاتی ہے جس سے امت میں طبقہ وارانہ منافرت پیدا نہیں ہوتی ، زکوٰۃ مالی ایثار ہے اور اس ذریعہ سے اصلاح باطن اورمعاشرہ کی مادی فلاح و بہبود مقصود ہے ، قرآن مجید سورہ ٔ توبہ میں زکوٰۃ کی تقسیم کے لئے آٹھ مدات بیان کئے گئے ہیں :
" صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اورمسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پر پائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور راہرو مسافروں کے لئے فرض ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے "
(سورۂ توبہ : ۶۰)
ان مدات کی تشریح درج ذیل ہے:
(۱) فقیر یعنی وہ لوگ جن کے پاس کچھ نہ ہو
(۲) مسکین یعنی وہ جن کے پاس ضرورت کے لائق نہ ہو
(۳)عامل ، وہ لوگ جو حکو مت کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے مقرر ہوں
(۴)مولفۃ القلوب، وہ لوگ جن کے اسلام قبول کرنے کی اُمید ہو یا جو اسلام میں کمزور ہوں
(۵)رقاب یعنی غلام یا قیدی کو مال دیکر آزاد کرایا جائے
(۶)غارم یعنی قرض دار کا قرض ادا کیا جائے
(۷)فی سبیل اللہ یعنی جہاد وغیرہ میں کام کرنے والوں کی مدد کی جائے
(۸) ابن السبیل یعنی مسافر اگر محتاج ہو تو اس کی بھی مدد کی جائے۔
قرآن کے مقرر کردہ یہ آٹھ مدات بڑی اہمیت کے حامل ہیں، ان کے اندر انسانی زندگی کی بہت سی انفرادی اور اجتماعی ضروریات آگئی ہیں، علامہ ابن تیمیہنے ان مدات کی معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ان مدات میں بنیادی طور پر دو باتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
(۱) ایک یہ کہ مسلمانوں کی ضروریات کی تکمیل۔
(۲) اسلام کی نصرت و تقویت۔
فقراء ومساکین، عاملین زکوٰة، غلامی یا قرض میں مبتلا شخص یا مسافر کی امداد میں عام مسلمانوں کی ضرورت کو ملحوظ رکھا گیا ہے، اور مجاہدین اور موٴلفة القلوب کی مالی اعانت میں اسلام کی نصرت و استحکام کا پہلو پیش نظر ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ،ج:۲۵،ص:۴۰)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے مدات زکوٰة کی معنویت کا تجزیہ اس طرح کیا ہے:
(۱) مملکت اور انسانی زندگی کی ضروریات اور مسائل تو بیشمار ہیں، مگر بنیادی طور پر انسان کو اسلامی حکومت میں رہتے ہوئے تین قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے:
(۱) شخصی ضروریات: فقراء ومساکین، مسافر، اور مقروض میں انہی ضروریات کا احاطہ کیاگیا ہے۔
(۲) مسلمانوں کی اجتماعی حفاظت کا مسئلہ، اس ذیل میں مجاہدین اور عاملین آتے ہیں۔
(۳) حقیقی یا امکانی شرور وفتن کے دفاع کا مسئلہ اس ذیل میں موٴلفة القلوب اور جرمانہ کی بعض شکلیں آتی ہیں۔ (حجة اللہ البالغہ۲/۴۵ مطبوعہ رشیدیہ دہلی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔