یہ ہے معاہدۂ صلح کی دفعات کی حقیقت لیکن ان دفعات میں دوباتیں بظاہر اس قسم کی تھیں کہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت غم والم لاحق ہوا۔ ایک یہ کہ آ پﷺ نے بتایا تھا کہ آپ بیت اللہ تشریف لے جائیں گے اوراس کا طواف کرینگے ، لیکن آپﷺ طواف کیے بغیر واپس ہورہے تھے۔ دوسرے یہ کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں اور حق پر ہیں۔ اور اللہ نے اپنے دین کو غالب کرنے کا وعدہ کیا ہے ، پھر کیا وجہ ہے کہ آپﷺ نے قریش کا دباؤ قبول کیا۔ اور دب کر صلح کی ؟
یہ دونوں باتیں طرح طرح کے شکوک وشبہات اور گمان ووسوسے پیدا کررہی تھیں۔ ادھر مسلمانوں کے احساسات اس قدر مجروح تھے کہ وہ صلح کی دفعات کی گہرائیوں اور مآل پر غور کرنے کے بجائے حُزن وغم سے نڈھال تھے۔ اور غالباً سب سے زیادہ غم حضرت عمر بن خطابؓ کوتھا۔ چنانچہ انہوں نے خدمت ِ نبوی میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا ہم لوگ حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں ؟ انہوں نے کہا : کیاہمارے مقتولین جنت میں اور ان کے مقتولین جہنم میں نہیں ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: تو پھر کیوں ہم اپنے دین کے بارے میں دباؤ قبول کریں ؟ اور ایسی حالت میں پلٹیں کہ ابھی اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : خطاب کے صاحبزادے ! میں اللہ کا رسول ہو ں اور اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا۔ وہ میری مدد کرے گا۔ اور مجھے ہرگز ضائع نہ کرے گا ، انہوں نے کہا:کیاآپﷺ نے ہم سے یہ بیان نہیں کیا تھا کہ آپﷺ بیت اللہ کے پاس تشریف لائیں گے اور اس کا طواف
کریں گے؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں ؟لیکن کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم اسی سال آئیں گے ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو بہرحال تم بیت اللہ کے پاس آؤگے اور اس کا طواف کرو گے۔اس کے بعد حضرت عمرؓ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس پہنچے۔ اور ان سے وہی بات کہی جو رسول اللہﷺ سے کہی تھیں۔ اور انہو ں نے بھی ٹھیک وہی جواب دیا جو رسول اللہﷺ نے دیا تھا۔ اور اخیر میں اتنا اور اضافہ کیا کہ آپﷺ کی رکاب تھامے رہویہاں تک کہ موت آجائے کیونکہ اللہ کی قسم آپ حق پر ہیں۔
اس کے بعد إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا (۴۸: ۱)کی آیات نازل ہوئیں۔ جس میں اس صلح کو فتح ِ مبین قراردیا گیا ہے۔ اس کا نزول ہوا تو رسول اللہﷺ نے حضرت عمر بن خطابؓ کوبلایا اور پڑھ کرسنایا۔ وہ کہنے لگے : یارسول اللہ ! یہ فتح ہے ؟ فرمایا : ہاں۔ اس سے ان کے دل کو سکون ہوگیا۔ اور واپس چلے گئے۔
بعد میں حضرت عمرؓ کو اپنی تقصیر کا احساس ہوا تو سخت نادم ہوئے۔ خود ان کا بیان ہے کہ میں نے اس روز جو غلطی کی تھی اور جو بات کہہ دی تھی اس سے ڈرکر میں نے بہت سے اعمال کیے۔ برابر صدقہ وخیرات کرتا رہا۔ روزے رکھتا اور نماز پڑھتا رہا۔ اور غلام آزاد کرتا رہا ، یہاں تک کہ اب مجھے خیر کی امید ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔