Sunday, 25 January 2015

اسلام قبول کرنے والوں پر ظلم و ستم


۴ نبوت میں اسلامی دعوت کے منظر عام پر آنے کے بعد مشرکین نے اس کے خاتمے کے لیے سابقہ کارروائیاں رفتہ رفتہ انجام دیں۔ مہینوں اس سے آگے قدم نہیں بڑھا یا اور ظلم وزیادتی شروع نہیں کی لیکن جب دیکھا کہ یہ تدبیریں اسلامی دعوت کو ناکام بنانے میں مؤثر نہیں ہورہی ہیں تو باہمی مشورے سے طے کیا کہ مسلمانوں کو سزائیں دے دے کر ان کو ان کے دین سے باز رکھا جائے۔ اس کے بعد سردار نے اپنے قبیلے کے ماتحت لوگوں کو جو مسلمان ہوگئے تھے۔ سزائیں دینی شروع کیں اور ہر مالک اپنے ایمان لانے والے غلاموں پر ٹوٹ پڑا اور یہ بات تو بالکل فطری تھی کہ دم چھلے اور اوباش اپنے سرداروں کے پیچھے دوڑیں اور ان کی مرضی اور خواہش کے مطابق حرکت کریں ، چنانچہ مسلمانوں اور بالخصوص کمزوروں پر ایسے ایسے مصائب توڑے گئے اور انہیں ایسی ایسی سزائیں دی گئیں جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل پھٹ جاتا ہے۔ ذیل میں محض ایک جھلک دی جارہی ہے۔

ابو جہل جب کسی معزز اور طاقتور آدمی کے مسلمان ہونے کی خبر سنتا تو اسے برا بھلا کہتا۔ ذلیل ورسوا کرتا اور مال کو سخت خسارے سے دوچار کرنے کی دھمکیاں دیتا اور اگر کوئی کمزور آدمی مسلمان ہوتا تو اسے خود بھی مارتا اور دوسروں کو بھی بر انگیختہ کرتا۔ (ابن ہشام ۱/۳۲۰ 2 رحمۃ للعالمین ۱/۵۷)

حضرت عثمان بن عفانؓ کا چچا انہیں کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیتا۔ (اسد الغابہ ۴/۴۰۶، تلقیح الفہوم ص۶۰)

حضرت مصعب بن عمیرؓ کی ماں کو ان کے اسلام لانے کا علم ہوا تو ان کا دانہ پانی بند کر دیا اور گھر سے نکال دیا، یہ بڑے ناز ونعمت میںپلے تھے۔ شدت سے دوچار ہو ئے تو کھال اس طرح ادھڑ گئی جیسے سانپ کچلی چھوڑتا ہے۔ (الاصابہ ۳،۴/۲۵۵، ابن سعد ۳/۲۴۸)

حضرت بلالؓ امیہ بن خلف جحمی کے غلام تھے۔ امیہ ان کی گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں کے حوالے کردیتا اور وہ انہیں مکہ کے پہاڑوں میں گھماتے اور کھینچتے پھرتے۔ یہاں تک کہ گردن پر رسی کا نشان پڑ جاتا۔ پھر بھی أحد أحدکہتے رہتے۔ خود بھی انہیں باندھ کر ڈنڈے مارتا ، اور چلچلاتی دھوپ میں جبراً بٹھائے رکھتا۔ کھانا پانی بھی نہ دیتا،بلکہ بھوکا پیاسا رکھتا اور ان سب سے بڑھ کر یہ ظلم کرتا کہ جب دوپہر کی گرمی شباب پر ہوتی تو مکہ کے پتھریلے کنکروں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھوا دیتا۔ پھر کہتا : واللہ! تو اسی طرح پڑارہے گا یہا ں تک کہ مر جائے یا محمد کے ساتھ کفر کرے اور لات وعزیٰ کی پوجا کرے۔ حضرت بلالؓ اس حالت میں بھی کہتے : أحد ،أحد اور فرماتے : اگر مجھے کوئی ایسا کلمہ معلوم ہوتا جو تمہیں اس سے بھی زیادہ ناگوار ہوتا تو میں اسے کہتا۔ ایک روز یہی کاروائی جاری تھی کہ حضرت ابوبکرؓ کا گزر ہوا۔ انہوں نے حضرت بلالؓ کو ایک کالے غلام کے بدلے اور کہا جاتا ہے کہ دوسو درہم (۷۳۵ گرام چاندی) یا دوسو اسی درہم (ایک کلو سے زائد چاندی ) کے بدلے خرید کر آزاد کر دیا۔ (ابن ہشام ۱/۳۱۷، ۳۱۸ ، تلقیح الفہوم ص۶ تفسیر ابن کثیر سورۂ النحل ۳/۶۴۸)

حضرت عمار بن یاسرؓ بنو مخزوم کے غلام تھے۔ انہوں نے اور ان کے والدین نے اسلام قبول کیا تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مشرکین ، جن میں ابوجہل پیش پیش تھا۔ سخت دھوپ کے وقت پتھریلی زمین پرلے جاکر اس کی تپش سے سزا دیتے۔ ایک بار انہیں اسی طرح سزادی جارہی تھی کہ نبیﷺ کا گزر ہوا۔ آپ نے فرمایا : آل یاسر ! صبر کرنا۔ تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔ آخر کار یاسر ظلم کی تاب نہ لاکر وفات پاگئے اور حضرت سمیہؓ ، جو حضرت عمارؓ کی والدہ تھیں۔ ابوجہل نے ان کی شرمگاہ میں نیزہ مارا اور وہ دم توڑ گئیں۔ یہ اسلام میں پہلی شہیدہ ہیں۔ ان کے والد کا نام خیاط تھا اور یہ ابوحذیفہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم کی لونڈی تھیں۔ بہت بوڑھی اور ضعیف تھیں۔
حضرت عمار پر سختی کا سلسلہ جاری رہا۔ انہیں کبھی دھوپ میں تپایا جاتا تو کبھی ان کے سینے پر سرخ پتھر رکھ دیا جاتا اور کبھی پانی میں ڈبویا جاتا یہاں تک کہ وہ ہوش حواس کھو بیٹھتے۔ ان سے مشرکین کہتے تھے کہ جب تک تم محمد کو گالی نہ دو گے ، یا لات وعزیٰ کے بارے میں کلمۂ خیر نہ کہو گے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ مجبوراً انہوں نے مشرکین کی بات مان لی۔ پھر نبیﷺ کے پاس روتے اور معذرت کرتے ہوئے تشریف لائے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
(۱۶ : ۱۰۶ ) ''جس نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کیا (اس پر اللہ کا غضب اور عذاب عظیم ہے ) لیکن جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو '' (اس پر کوئی گرفت نہیں )
(ابن ہشام ۱/۳۱۹ ، ۳۲۰ ، طبقات ابن سعد ۳/۲۴۸، ۲۴۹، آخری ٹکڑا طوفی نے ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے۔ ابن کثیر اورالدرالمنثور تفسیر سورۂ نحل آیت ۲۰۶۔)



حضرت ابو فکیہہ جن کا نام افلح تھا۔ جو اصلاً قبیلہ ازد سے تھے اور بنو عبد الدار کے غلام تھے ، ان کے دونوں پاؤں میں لوہے کی بیڑیاں ڈال کر دوپہر کی سخت گرمی میں باہر نکالتے اور جسم سے کپڑے اتار کر تپتی ہوئی زمین پر پیٹ کے بل لٹادیتے اور پیٹھ پر بھاری پتھر رکھ دیتے کہ حرکت نہ کرسکیں۔ وہ اسی طرح پڑے پڑ ے ہوش حواس کھو بیٹھتے۔ انہیں اسی طرح کی سزائیں دی جاتی رہیں ، یہاں تک کہ دوسری ہجرتِ حبشہ میں وہ بھی ہجرت کر گئے۔ ایک بار مشرکین نے ان کا پاؤں رسی میں باندھ ، اور گھسیٹ کر تپتی ہوئی زمین پر ڈال دیا، پھر اس طرح گلا دبا یا کہ سمجھے یہ مر گئے ہیں۔ اسی دوران وہاں حضرت ابوبکر کا گزر ہوا۔ انہوں نے خرید کر اللہ کے لیے آزاد کر دیا۔ (اسد الغابہ ۵/۲۴۸، الاصابہ ۷،۸/۱۵۲وغیرہ۔)

خباب بن ارت قبیلہ خزاعہ کی ایک عورت ام انمار کے غلام تھے اور لوہاری کا کام کرتے تھے۔ مسلمان ہوئے تو ان کی مالکہ انھیں آگ سے جلانے کی سزا دیتی۔ وہ لوہے کا گرم ٹکڑا لاتی اور ان کی پیٹھ یا سر پر رکھ دیتی۔ تاکہ وہ محمدﷺ کے ساتھ کفر کریں۔ مگر اس سے ان کے ایمان اور تسلیم ورضا میں اور اضافہ ہوتا۔ انھیں مشرکین بھی طرح طرح کی سزائیں دیتے۔ کبھی سختی سے گردن مروڑتے تو کبھی سر کے بال نوچتے۔ ایک بار تو انھیں دہکتے ہوئے انگاروں پر ڈال دیا۔ اسی پر گھسیٹا اور دبائے رکھا، یہاں تک کہ ان کی پیٹھ کی چربی پگھلنے سے آگ بچھی۔ (اسد الغابہ ۱/۵۹۱ ، ۵۹۳ ، تلقیح الفہوم ص ۶ وغیرہ۔)

حضرت زنیرہ رومی لونڈی تھیں۔ وہ مسلمان ہوئیں تو انھیں اللہ کی راہ میں سزائیں دی گئیں۔ اتفاق سے ان کی آنکھ جاتی رہی۔ مشرکین نے کہا :دیکھو ! تم پر لات وعزیٰ کی مار پڑگئی ہے۔ انہوں نے کہا: نہیں ، واللہ ! یہ لات وعزیٰ کی مار نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر وہ چاہے تو دوبارہ بحال کرسکتا ہے۔ پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دوسرے دن نگاہ پلٹ آئی ، مشرکین کہنے لگے :یہ محمد کا جادو ہے۔ (طبقات ابن سعد ۸/۲۵۶ ، ابن ہشام ۱/۱۳۸)

غلاموں میں عامر بن فہیرہ بھی تھے، اسلام لانے پر انھیں بھی اس قدر سزائیں دی جاتیں کہ وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھتے اور انھیں پتہ نہ چلتا کہ کیا بول رہے ہیں۔( طبقات ابن سعد ۳/۲۴۸)

حضرت ابوبکرؓ نے ان سارے غلاموں اورلونڈیوں کو خرید کو آزاد کردیا۔ اس پر ان کے والد ابو قحافہ نے ان کو عتاب کیا۔ کہنے لگے : (بیٹا ) میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ کمزور گرد نیں آزاد کر رہے ہو۔ توانا لوگوں کو آزاد کرتے تو وہ تمہارا بچاؤ بھی کرتے۔ انہوں نے کہا : میں اللہ کی رضا چاہتا ہوں اس پر اللہ نے قرآن اتارا۔ حضرت ابوبکرؓ کی مدح کی اور ان کے دشمنوں کی مذمت کی۔ فرمایا
وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى ﴿١٧﴾ الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ ﴿١٨﴾ وَمَا لِأَحَدٍ عِندَهُ مِن نِّعْمَةٍ تُجْزَىٰ ﴿١٩﴾ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَ‌بِّهِ الْأَعْلَىٰ ﴿٢٠﴾ وَلَسَوْفَ يَرْ‌ضَىٰ ﴿٢١﴾ (۹۲: ۱۷ تا ۲۱)
اور اس آگ سے وہ پرہیزگار آدمی دور رکھا جائے گا جو اپنا مال پاکی حاصل کرنے کے لیے خرچ کررہا ہے۔ اس پر کسی کا احسان نہیں ہے جس کا بدلہ دیا جارہا ہو۔ بلکہ محض اپنے رب اعلیٰ کی مرضی کی طلب ہے۔ اس سے مقصود حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ (ابن ہشام ۱/۱۳۸ ، ۳۱۹ ، طبقات ابن سعد ۸/۲۵۶ کتب تفسیر آیت مذکورہ۔)

یہ اس ظلم وجور کا ایک نہایت مختصر خاکہ ہے جو اہل اللہ اور سکان حرم ہونے کا دعویٰ رکھنے والے سرکش مشرکین کے ہاتھوں رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کو سہنا پڑ رہے تھے۔
اس سنگین صورت حال کا تقاضا یہ تھا کہ رسول اللہﷺ ایسا محتاط اور حزم وتدبیر پر مبنی موقف اختیار کریں کہ مسلمانوں پر جو آفت ٹوٹ پڑی تھی اس سے بچانے کی کوئی صورت نکل آئے اور ممکن حد تک اس کی سختی کم کی جاسکے۔ اس مقصد کے لیے رسول اللہﷺ نے دو حکیمانہ قدم اٹھائے۔ جو دعوت کا کام آگے بڑھانے میں بھی مؤثر ثابت ہوئے:
ارقم بن ابی الارقم مخزومی کے مکان کو دعوت وتربیت کے مرکز کے طور پر اختیار فرمایا۔
" مسلمانوں کو ہجرت حبشہ کا حکم فرمایا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔