عنفوانِ شباب میں رسول اللہﷺ کا کوئی معین کام نہ تھا۔ البتہ یہ خبر متواتر ہے کہ آپ بکریاں چراتے تھے۔ آپﷺ نے بنی سعد کی بکریاں چرائیں۔اور مکہ میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے عوض چراتے تھے۔ غالباً جوان ہوئے تو تجارت کی طرف منتقل ہوگئے۔ کیونکہ یہ روایت آتی ہے کہ آپ سائب بن یزید مخزومی کے ساتھ تجارت کرتے تھے اور بہترین شریک تھے ، نہ ہیر پھیر نہ کوئی جھگڑا۔ چنانچہ سائب فتح مکہ کے دن آپ کے پاس آئے تو آپ نے انہیں مرحباً کہا اور فرمایا کہ میرے بھائی اور میرے شریک کو مرحبا۔
(ابن ہشام ۱/۱۶۶, صحیح بخاری۔ الاجارات ، باب رعی الغنم علی قراریط ۱/۳۰۱, سنن ابی داؤد ۲/۶۱۱ ، ابن ماجہ ح ۲۲۸۷ (۲/۷۶۸)
پچیس سال کی عمر ہوئی توحضرت خدیجہ ؓ کا مال لے کر تجارت کے لیے ملک شام تشریف لے گئے۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ خدیجہ بنت خویلد ایک معزز مالدار اور تاجر خاتون تھیں۔ لوگوں کو اپنا مال تجارت کے لیے دیتی تھیں اور مضاربت کے اصول پر ایک حصہ طے کرلیتی تھیں۔ پورا قبیلۂ قریش ہی تاجر پیشہ تھا۔ جب انہیں رسول اللہﷺ کی راست گوئی ، امانت اور مکارمِ اخلاق کا علم ہوا تو انھوں نے ایک پیغام کے ذریعے پیش کش کی۔ آپ ان کا مال لے کر تجارت کے لیے ان کے غلام مَیْسَرہ کے ساتھ ملک شام تشریف لے جائیں۔ وہ دوسرے تاجروں کو جوکچھ دیتی ہیں اس سے بہتر اجرت آپ کو دیں گی۔ آپ نے یہ پیش کش قبول کر لی اور ان کا مال لے کر ان کے غلام مَیْسَرہ کے ساتھ ملک شام تشریف لے گئے۔ (ابن ہشام ۱/۱۸۷ ، ۱۸۸)
آپ مکہ واپس تشریف لائے , حضرت خدیجہ ؓ نے اپنے مال میں ایسی امانت وبرکت دیکھی جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی اور ادھر ان کے غلام مَیْسَرہ نے آپ کے شریں اخلاق ، بلند پایہ کردار موزوں اندازِ فکر ، راست گوئی اور امانت دارانہ طور طریق کے متعلق اپنے مشاہدات بیان کیے تو حضرت خدیجہ کو اپنا گم گشتہ گوہرِ مطلوب دستیاب ہوگیا۔ اس سے پہلے بڑے بڑے سردار اور رئیس ان سے شادی کے خواہاں تھے، لیکن انھوں نے کسی کا پیغام منظور نہ کیا تھا۔ اب انھوں نے اپنے دل کی بات اپنی سہیلی نفیسہ بنت منبہ سے کہی اور نفیسہ نے جاکر نبیﷺ سے گفت وشنید کی۔ آپﷺ راضی ہوگئے اور اپنے چچاؤں سے اس معاملے میں بات کی۔ انھوں نے حضرت خدیجہ ؓ کے چچا سے بات کی اور شادی کا پیغام دیا۔ اس کے بعد شادی ہوگئی۔ نکاح میں بنی ہاشم اور رؤسائے مضر شریک ہوئے۔
یہ ملک شام سے واپسی کے دو مہینے بعد کی بات ہے۔ آپﷺ نے مہر میں بیس اونٹ دیے۔ اس وقت حضرت خدیجہ ؓ کی عمر چالیس سال اور کہا جاتا ہے کہ اٹھائیس سال تھی اور وہ نسب ودولت اور سوجھ بوجھ کے لحاظ سے اپنی قوم کی سب سے معزز اور افضل خاتون تھیں ، یہ پہلی خاتون تھیں جن سے رسول اللہﷺ نے شادی کی اور ان کی وفات تک کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی۔ (ابن ہشام ۱/۱۸۹، ۱۹۰)
ابراہیم کے علاوہ رسول اللہﷺ کی بقیہ تمام اوّلاد انہی کے بطن سے تھیں۔ سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے اور انہی کے نام پر آپ کی کنیت ابوالقاسم پڑی۔ پھر حضرت زینب ؓ ، رقیہ ؓ ، اُم کلثوم ؓ ، فاطمہؓ اور عبد اللہ پیدا ہوئے۔
عبد اللہ کا لقب طیب اور طاہر تھا۔ آپﷺ کے سب بچے بچپن ہی میں انتقال کر گئے۔ البتہ بچیوں میں سے ہر ایک نے اسلام کا زمانہ پایا۔ مسلمان ہوئیں اور ہجرت کے شرف سے مشرف ہوئیں ، لیکن حضرت فاطمہ ؓ کے سوا باقی سب کا انتقال آپ کی زندگی ہی میں ہوگیا۔ حضرت فاطمہ ؓ کی وفات آپ کے چھ ماہ بعد ہوئی۔ (ابن ہشام ۱/۱۹۰ ، ۱۹۱ صحیح بخاری ، فتح الباری ۷/۱۰۵ ، تلقیح الفہوم ص ۷)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔