چند دن پہلے ایک ممبر نے میسج کرکے ایک تحریر کی جانب توجہ دلائی جو کہ ایک ملحد نے دہریوں کے ایک پیج سے کاپی کرکے ایک گروپ میں پیش کی ہوئی تھی ۔ اس تحریر میں مکہ، کعبہ اور زم زم کے تاریخی وجود پر تاریخی حوالہ جات پیش کرکے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ہم ان کا جواب بمعہ اہم اعتراضات کے جملوں کے پیش کررہے ہیں ۔ تحریر کی طوالت کی وجہ سے اسے تین قسطوں میں پیش کیا جارہا ہے۔
اعتراض :توحید کے گھر میں بت پرستی کیسے آگئی ؟؟
ایک بات جو سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ جب ابراہیم نے یہ کعبہ بنایا تو مطلب اس نے توحید کا گھر بنایا ۔ اب توحید کے گھر میں وقت کے ساتھ بت کیسے آگئے ؟ تاریخ میں موجود تمام تر عبادت گاہوں کو اٹھا کے دیکھ لیجئے کہ وہ جس مقصد کے لیئے بنی تھی اسی مقصد کی آج تک زبان بول رہی ہیں۔ اگر کسی نے کعبہ پہ چڑھائی کرکے اسے بتوں کا گھر بنایا تھا تو اسلامی اور باقی تاریخ کسی ایسے واقعے سے خالی کیوں ہے ؟
جواب: تاریخ کسی ایسے واقعے سے اس لیے خالی ہے کہ کسی نے کعبہ پر چڑھائی کرکے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ یہ بت پرستی بتدریج ملک عرب میں رائج ہوئی، اسکی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ ہم مختصرا پیش کرتے ہیں۔
عام باشندگانِ عرب شروع سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعوت وتبلیغ کے نتیجے میں دینِ ابراہیمی کے پَیرو تھے تاآنکہ بنو خزاعہ کا سردار عَمر و بن لُحَی منظر عام پر آیا۔ اس کی نشوونما بڑی نیکوکاری ، صدقہ وخیرات اور دینی امور سے گہری دلچسپی پر ہوئی تھی۔ اس لیے لوگوں نے اسے محبت کی نظر سے دیکھا اور اسے اکابر علماء اور افاضل اوّلیاء میں سے سمجھ کر اس کی پیروی کی۔ اس شخص نے ملک شام کے سفر میں بتوں کی پوجا دیکھی تو اس نے سمجھا کہ یہی بہتر اور بر حق ہے کیونکہ ملک شام پیغمبروں کی سر زمین اور آسمانی کتابوں کی نزول گاہ تھی۔ چنانچہ وہ اپنے ساتھ ہبل بت بھی لے آیا اور اسے خانہ کعبہ کے اندر نصب کر دیا اور اہل مکہ کو اللہ کے ساتھ شرک کی دعوت دی۔ اہل مکہ نے اس پر لبیک کہا۔ اس کے بعد بہت جلد باشندگان حجاز بھی اہل مکہ کے نقش قدم پر چل پڑے۔ کیونکہ وہ بیت اللہ کے والی اور حرم کے باشندے تھے۔ اس طرح عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا اور اس کے بعد حجاز کے ہر خطے میں شرک کی کثرت او ر بتوں کی بھر مار ہو گئی۔ ہبل سرخ عقیق سے تراشا گیا تھا۔ صورت انسان کی تھی۔ یہ مشرکین کا پہلا بت تھا اور ان کے نزدیک سب سے عظیم اور مقدس تھا۔ (کتاب الاصنام لابن الکلبی ص ۲۸)
دوسری بات یہ چیز اہل عرب کے ساتھ خاص نہیں تھی پہلے عیسائی بھی ایسی بے راہروی کا شکار ہوئے، پولس جو کہ ایک یہودی تھا' اسی طرح عیسائی مذہب میں داخل ہوا اور اپنی ولایت اور پاکبازی دکھا کر مشہور راہب اور پھر عیسی علیہ السلام کے بعد سب سے معتبر شخص کہلایا گیا ،اسی نے بعد میں عیسائیت میں تثلیث کا عقیدہ رائج کیا اور عیسائیت کو ایک مشرک مذہب میں تبدیل کردیا ۔
زم زم کے کنویں پر اعتراض :۔
اب ابن اسحاق ہی لکھتا ہے کہ جرہم کا قبیلہ باہر سے آنے والوں کے لیئے ایذا کا باعث بن گیا۔ ان کے رشتوں داروں کے علاوہ جو بھی وہاں آتا ان سے ناروا سلوک کیا جاتا۔اس بات پہ بنو خزاع اور بنو جرہم کی لڑائی ہوتی ہے اور جرہم کے قبیلے کو شکست ہوتی ہے اور وہ علاقہ چھوڑ کے چلے جاتے ہیں۔ جاتے جاتے وہ لوگ دو عدد سونے کے بنے ہوئے مجسمے اور حجر اسود زمزم میں چھپا دیتے ہیں۔ لیکن یہ واقعہ پرانا نہیں بلکہ دوسری صدی بعد از مسیح کا ہے ۔
سیرت النبی انب اسحاق، اشاعت محمدیہ یونیورسٹی صفحہ نمبر 67
ابن اسحاق لکھتا ہے کہ ایک دن نبی کریم کے دادا عبدالمطلب کو ان کے خواب کے زریعے ایک جگہ کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ اس جگہ پہ کھود دو
سیرت النبی انب اسحاق، اشاعت محمدیہ یونیورسٹی صفحہ نمبر 64
ایک کنواں جس کے ساتھ اتنی مقدس روایات وابستہ ہیں کہ ایک بچے کے رونے پہ اس کنویں کو فرشتے نے کھودا، ان لوگوں نے اس کنویں کو دوبارہ کیونکر نہ کھودا ہوگا۔
جواب : یہ بالکل ایک بچگانہ اعتراض ہے جسکا جواب اسلامی تاریخ کا بیسک علم رکھنے والا بھی دے سکتا ہے، معترض کی اگر نیت ٹھیک ہوتی تو اسے ریفرینس کے سیاق و سباق اور خود ان حوالوں پر غور کرنے سے ہی سے ہی جواب مل جاتا ہے۔ بحرحال ہم صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ جب آپ کنویں کی نسبت اسماعیل علیہ السلام سے مانتے ہوئے (فرض کرکے ہی سہی ) اگلے سوال اٹھاتے ہیں تو پھر انہی لوگوں کا جواب قبول کرنے میں کیا حرج ہے جن کے حوالے آپ بھی سوال میں دے رہے کہ قبیلہ جرہم نے جاتے ہوئے اس کنویں میں زیورات وغیرہ ڈال کے اسکا منہ ریت ، مٹی سے بھر کر برابر کردیا تھا اور اہل قریش کو نشانی یاد نہ رہی یا بھلا دی گئی تھی اور بعد میں حضور کے دادا کو یہ اعزاز ا دکھلائی گئی اور کنویں کو انکے ذریعے صاف کروایا گیا۔؟؟!!
مکہ اور کعبہ پر اعتراض :
بقیہ تاریخ کچھ یوں گویا ہوئی ہے کہ اول تو مکہ شہر کا چوتھی صدی عیسوی تک کوئی زکر ہی نہیں اور اس کے بعد کا جو زکر ہے اس میں مکہ کو کسی بڑے شہر کے طور پہ نہیں دکھایا گیا۔ کئی رومن اور یونانی جغرافیہ دانوں اور تاریخ دانوں نے عرب کا سفر کیا اور اس کے بارے میں لکھا لیکن کسی نے بھی مکہ کا زکر نہیں کیا۔
مسلمان اسے بائبل کے اندر موجود ایک نام بکا (bacca) سے ملاتے ہیں ۔ اگر بکا والی سابقے لاحقے میں تمام آیات کو غور سے پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں یروشلم کا زکر کرتے ہوئے ایک وادی کے جس میں ایک مخصوص پھول " بکا " لگتےہیں کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔
جواب :مکہ کا قدیم اور اصلی نام بکہ ہے۔
اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا(ال عمران-3:96) ترجمہ- پہلا مبارک گھر جو آدمیوں کے لیے بنایا گیا تھا وہ بکہ ہی تھا۔
معترض نے بائبل کے حوالے کے متعلق یہ کہا کہ اس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہم اسکو سیاق و سباق کے ساتھ پیش کرتے ہیں، بات واضح ہوجائے گی۔زبور 84 کی آیت 6 میں ہے
” بکہ کی وادی میں گزرتے ہوئے اسے ایک کنواں بناتے، برکتوں سے مورو کو ڈھانک لیتے، قوت سقوت تک ترقی کرتے چلے جاتے ہیں“
اس عبارت میں بکہ کا جو لفظ ہے وہ ہی مکہ معظمہ ہے لیکن اگر اس لفظ کو اسم علم کے بجائے مشتق قرار دیں تو اس کے معنی ”رونے“ کے ہوں گے اور یہ وہی عربی لفظ بکاء ہے۔ مستشریقین نے مکہ کی وقعت مٹانے کی کوشش میں عبارت مذکورہ میں بکہ کا ترجمہ رونا پیش کیا ۔ لیکن ہر شخص خود سمجھ سکتا ہے کہ اس حالت میں وادی بکا کے کیا معنی ہوں گے؟ پھر زبور کی عبارت مذکورہ کی اوپر کی آیتوں سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس نشید میں حضرت داؤدؑ نے مکہ معظمہ اور مروہ اور قربان گاہ اسماعیلی کی نسبت اپنا شوق اور حسرت ظاہر کی ہے۔ اوپر کی عبارت یہ ہے
(حضرت داؤد ؑ خدا سے کہتے ہیں) ”اے فوجوں کے خدا! تیرے مسکن کس قدر شیریں ہیں، میرا نفس خدا کے گھر کا مشتاق بلکہ عاشق ہے…اے خدا! 'تیرے قربان گاہ 'میرے مالک اور میرے خدا ہیں، مبارکی ہو ان لوگوں کو جو تیرے گھر میں ہمیشہ رہتے ہیں اور تیری تسبیح پڑھتے ہیں“
اس کے بعد بکہ والی آیتیں ہیں اب غور کریں حضرت داؤد ؑ جس مقام کے پہنچنے کا شوق ظاہر کرتے ہیں وہ اس مقام پر صادق آ سکتا ہے جس میں حسب ذیل باتیں پائی جاتی ہوں۔
1. قربانی گاہ ہو ۔
2. حضرت داؤد ؑ کے وطن سے دور ہو کہ وہاں تک سفر کر کے جائیں۔
3. وہ وادی بکہ کہلاتا ہو۔
4. وہاں مقام مورو بھی ہو۔
ان باتوں کو پیش نظر رکھیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بکہ وہی مکہ معظمہ اور مورو وہی مروہ ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی اندازہ ہو گا کہ یہود کس طرح تعصب سے الفاظ کو ادل بدل کر دیتے ہیں۔یُحَرِّفُوۡنَ الْکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ ۔
ڈاکٹر ہسٹنگس نے ”ڈکشنری آف دی بائیبل“ میں وادی بکا پر جو آرٹیکل لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس لفظ سے اگر کوئی وادی مراد ہے تو حسب ذیل ہے۔
1. ایک وادی ہے جس میں ہو کر زائرین بیت المقدس جاتے ہیں۔
2. وادی اخور ہے جو یشوعا باب 7 آیات 24- 26 میں مذکور ہے۔
3. وادی رفایون ہے جو سامویل دوم باب 5 آیات 18-22 وغیرہ میں مذکور ہے۔
4. کوہ سینا کی ایک وادی ہے۔
5. بیت المقدس تک جو کاروانی راستہ شمال سے آتا ہے اس راستے کی آخری منزل ہے۔
(رینان کی کتاب ”حیات عیسی“ باب 4)
کیا عجب بات ہے ڈاکٹر ہسٹنگس کو اتنے احتمالات کِثیرہ میں کہیں مکہ معظمہ کا پتہ نہیں لگتا۔
؏ ہمیں ورق کہ سیہ گشتہ مدعا اینجاست
حیرت پر حیرت یہ کہ جن وادیوں کا نام لیا ہے ان میں ایک کو بھی بکا کے لفظ سے کسی قسم کی مناسبت نہیں۔ یہاں تک کہ ایک حرف بھی مشترک نہیں۔ بخلاف اس کے کہ بکا اور بکہ بالکل ایک لفظ ہیں۔ قرق صرف اس قدر ہے کہ ایک ہی لفظ کے تلفظ میں فرق ہے۔
اسی طرح مارگیو لیس اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ
”اگرچہ مذہبی خیال کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنے مذہبی مرکز کو نہایت قدیم قرار دیا ہے دیا ہے لیکن صحیح روایات سے پتا چلتا ہے کہ مکہ کی سب سے قدیم عمارت محمد کے صرف چند پشت قبل تعمیر ہوئی تھی“
جدیدانسائیکلوپیڈیا جلد 7 صفحہ 399 پر محمد ﷺ کے عنوان سے جو مضمون ہے وہ مارگیو لیوس کا ہی ہے ۔مارگیو لیوس نے اوپر اپنی بات کے ثبوت میں جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے ہم کو بھی اس کی صحت سے انکار نہیں لیکن اس کل بیان میں مغالطہ ہے ۔
مارگیو لیوس نے جس بنا پر مکہ معظمہ کی قدامت کا انکار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اصابہ میں تصریح ہے کہ ”مکہ میں سب سے پہلی عمارت جو تعمیر ہوئی وہ سعید یا سعد بن عمرو نے تعمیر کی“ لیکن مارگیو لیوس کو یہ معلوم نہیں کہ مؤرخین نے جابجا یہ بھی تصریح کی ہے کہ چونکہ اہل عرب کعبہ کے مقابل یا آس پاس عمارات بنانے کو کعبہ کی بے ادبی سمجھتے تھے اس لئے عمارتیں نہیں بنوائیں، بلکہ خیموں اور شامیانوں میں رہتے تھے اور اس طرح مکہ ہمیشہ سے خیموں کا ایک وسیع شہر تھا۔
پرانے مورخین کو مکہ کے متعلق اختلاف نہ تھا لیکن اب بیسویں صدی کے بعد کے ان محققین کو انکی باتیں قبول نہیں۔ پروفیسر ڈوزی جو فرانس کا مشہور محقق اور عربی دان عالم ہے وہ لکھتا ہے
”بکہ وہی مقام ہے جس کو یونانی جعرافیہ دان ماکروبہ لکھتے ہیں“(جدید انسائیکلوپیڈیا جلد 7 صفحہ 392)
اسی طرح کارلائل نے اپنی کتاب ”ہیروز اینڈ ہیروورشپ“ میں لکھا ہے کہ
”رومن مؤرخ سیسلس نے کعبہ کا ذکر کیا اور لکھا ہے '' وہ دنیا کے تمام معبدوں سے قدیم اور اشرد ہے اور یہ ولادت مسیح ؑ سے پچاس برس پہلے کا ذکر ہے''۔“
اگر کعبہ حضرت عیسیؑ سے بہت پہلے موجود تھا تو مکہ بھی تقریباً اسی زمانے کا شہر ہوگا کیونکہ جہاں کہیں کوئی معبد ہوتا ہے اس کے آس پاس ضرور کوئی نہ کوئی شہر یا گاؤں آباد ہو جاتا ہے۔
یاقوت حمومی نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ مکہ معظمہ کا عرض اور طول بلد بطلیموس کے جغرافیہ میں حسب ذیل ہے۔
”طول78 درجہ عرض13 درجہ“
یہ بطلیموس نہایت قدیم زمانہ کا مصنف ہے اس نے اپنے جغرافیہ میں مکہ کا ذکر کیا ہے تو اس سے زیادہ قدامت کی کیا سند درکار ہے؟
مستشرقین و جدید ملحدین کی منافقت :
یہ لوگ حضرات امام بخاری کی لائف لونگ ریسرچ اور مشقت میں تو کیڑے نکلتے ہیں بساط بھر، جو کے نسبتاً نزدیک کے زمانے کے ہیں مگر وہ تاریخ دان جو بخاری سے ہزاروں سال پہلے کے ہیں اور جن کی کوئی بھی اصلی تحریر موجود نہیں، انہیں امّنا صدقنا کے مترادف آنکھیں بند کر کے قبول کرتے ہیں، ہم پوچھتے ہیں اگر آپ ١٤٠٠ سال پرانی تاریخ کی صحت پے انگشت نمائی کرتے ہیں تو وہ اصول بھی بتا دیں جس کے تحت ٣٠٠٠ سال پرانی تاریخ آپ کے لیے قابل قبول ہوگئی ہے؟
اتنے پرانے تاریخی حوالوں پر بحث یہاں سے ہی شروع ہونی چاہیے کہ جن کی باتوں کو پیش کیا جارہا وہ خود کس قدر مستند ہیں؟ انکی باتیں کس قدر سچی ہیں ؟ انکے بیان میں کس قدر انکی پسند نا پسند شامل ہوتی ہے۔ جب واقدی، ابن اسحاق اور دوسرے مورخین اور محدیثین وغیرہ پر جانبداری کی تہمت لگائی جاسکتی ہے حالانکہ وہ سند سے بات لکھتے ہیں اور انکے ہر ہر راوی کے حالات تک محفوظ ہیں تو ان بغیر سند سے لکھنے والوں کی حقیقت زیر بحث کیوں نہیں آسکتی؟ ۔ ۔ جنہوں نے تاریخ کو پہلی دفعہ ایک فن کی شکل دی اور یورپ کے بڑے بڑے مورخین اس فیلڈ میں انکے شاگرد ہیں انکی بات جھٹلائی جاسکتی ہے ان پر اسطرح جرح کی جاسکتی ہے تو ان مجہول لوگوں پر کیوں نہیں ؟
اصل میں یہی وہ سوچ اور پلان ہے جس کے متعلق پیج پر ہم کئی دفعہ لکھ چکے کہ مسلمانوں کی نوجوان نسل کو اپنی تاریخ اور مذہب سے دور کرکے ان کے ساتھ کیا کیا جانا ہے ۔۔؟ ؟ جب انکو اپنی تاریخ کا علم ہی نہیں ہوگا تو وہ پھر ان دشمنان اسلام کی تیار کردہ ایسی کچھڑیوں سے ہی متاثر ہونگے اور انہی کو ہی اصل تاریخ سمجھیں گے ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔