Sunday, 25 January 2015

فنِ تاریخ نویسی کے موجد اور یہ احساسِ کمتری؟


اسلام سے پیشتر دنیا کے کسی ملک اورکسی قوم کو یہ توفیق میسر نہیں ہوئی کہ وہ فن تاریخ نویسی کی طرف متوجہ ہوتی یا اپنے بزرگوں کی صحیح تاریخ مدوّن ومرتب کرتی ۔ حالت یہ تھی کہ تاریخ بغیر سند کے مبالغہ امیز قصے کہانیوں اور مشہور شاعروں کے اشعار میں ہی ملتی تھی۔ ا س کے لیے بائیبل کے صحیفوں ، یونان کے تخیلاتی کرداروں اورمہابھارت ورامائن کے افسانوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ کو باقاعدہ ایک فن کی شکل میں مسلمانوں نے آکر راءج کیا ۔احادیث نبوی کی حفاظت وروایت میں جس احتیاط سے کام لیا گیا اُس کی نطیر انسانی نسل ہرگز ہرگز پیش نہیں کرسکتی،اصولِ حدیث واسماء الرجال وغیرہ مستقل علوم محض حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت وحفاظت کے لئے مسلمانوں نے ایجاد کئے،
روایات کی چھان بین اور تحقیق وتدقیق کے لئے جو محکم اصول مسلمانوں نے ایجاد کئے اُن کی مثال دنیا نے اپنی اس طویل عمر میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔اسی سلسلہ اوراسی طرز وانداز میں انہوں نے اپنے خلفاء،امراء سلاطین، علماء وغیرہ کے حالات قلم بند کئے، مسلمانوں کی تاریخ نویسی دنیا کے لئے ایک نئی چیز اوربالکل غیر مترقبہ مگر بے حد ضروری سامان تھا،
دوسری قومیں جب اپنی بائیبل اورمہا بھارت وغیرہ کتابوں کو مایۂ ناز تاریخی سرمایہ سمجھتی ہیں تو انسان حیران رہ جاتا ہے اور مسلمان کہ اپنی مستند تاریخ کو تاریخی کتابوں کی الماری سے نکال کر جُدا کرتے نظر آتے ہیں۔
آج یورپی مؤرخین فن تاریخ کے متعلق بڑی بڑی موشگافیوں سے کام لیتے ہوئے نظر آتے ہیں اورمسلمان ان سے مرعوب اوراُن کے کمالِ فن کی داد دینے میں پورے خلوص سے کام لے رہے ہیں ؛لیکن ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ شمالی افریقہ کے رہنے والے ایک اندلسی عرب خاندان کے مسلمان مؤرخ ابن خلدون کے مقدمہ تاریخ کی خوشہ چینی نے تمام یورپ اور ساری دنیا کو فن تاریخ کے متعلق وہ وہ باتیں سمجھا اور بُجھا دی ہیں کہ مؤرخین یورپ کی تمام مؤرخانہ سعی وکوشش کے مجموعہ کو مرقدابن خلدون کے مجاور کی خدمت میں جاروب بناکر مؤدبانہ پیش کیا جاسکتا ہے۔
ابن اسحاق، ابن ہشام،ابن الاثیر ،طبری وغیرہ سے لے کر احمد بن خاوند شاہ اورضیاء برنی ،ملائے بدایونی تک ہزارہا مسلمان مؤرخین کی مساعی جمیلہ اورکارہائے نمایاں جن ضخیم جلدوں میں آج تک محفوظ ہیں اُن میں سے ہر ایک کتاب مسلمانوں کی مبہوت کن شوکت رفتہ اورمرعوب ساز عظمتِ گذشتہ کا ایک مرقع ہے اوران میں سے ہر اسلامی تاریخ اس قابل ہے کہ مسلمان اُس کے مطالعہ سے بصیرت اندوز اورعبرت آموز ہوں لیکن کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اب فی صدی ایک مسلمان بھی ایسا نظر نہیں آتا جو اپنی اسلامی تاریخ سے واقف ہونے کے لئے ان مسلمان مؤرخین کی لکھی ہوئی تاریخوں کو مطالعہ کرنے کی قابلیت بھی رکھتا ہو؛حالانکہ مل،کار لائل، الیٹ،گین وغیرہ کی لکھی ہوئی تاریخیں پڑھنے اورسمجھنے کی قابلیت بہت سے مسلمانوں میں موجود ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔