Sunday 25 January 2015

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم و جور


قریش نے بالآخر وہ حدیں توڑ دیں جنہیں ظہور دعوت سے اب تک عظیم سمجھتے اور جن کا احترام کرتے آرہے تھے۔ درحقیقت قریش کی اکڑ اور کبریائی پر یہ بات بڑی گراں گزر رہی تھی کہ وہ لمبے عرصے تک صبر کریں۔ چنانچہ وہ اب تک ہنسی اور ٹھٹھے۔ تحقیر اور استہزاء۔ تلبیس اور تشویش اور حقائق کو مسخ کرنے کا جو کام کرتے آرہے تھے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر رسول اللہﷺ کی طرف ظلم وتعدی کا ہاتھ بھی بڑھادیا اور یہ بالکل فطری بات تھی کہ اس کام میں بھی آپ کا چچا ابولہب سر فہرست ہو۔ کیونکہ وہ بنو ہاشم کا ایک سردار تھا ، اسے وہ خطرہ نہ تھا جو اوروں کو تھا اور وہ اسلام اور اہل اسلام کا کٹر دشمن تھا۔ نبیﷺ کے متعلق اس کا موقف روز اول ہی سے ، جبکہ قریش نے اس طرح کی بات ابھی سوچی بھی نہ تھی ، یہی تھا ْ۔ اس نے بنو ہاشم کی مجلس میں جو کچھ کیا ، پھر کوہ صفا پر جو حرکت کی اس کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے۔
بعثت کے پہلے ابو لہب نے اپنے دو بیٹوں عُتْبہ اور عُتَیْبہ کی شادی نبیﷺ کی دو صاحبزادیوں رقیّہ اور ام کلثوم سے کی تھی لیکن بعثت کے بعد اس نے نہایت سختی اور درشتی سے ان دونوں کو طلاق دلوادی۔ (ابن ہشام ۱/۶۵۲)
اسی طرح جب نبیﷺ کے دوسرے صاحبزادے عبد اللہ کا انتقال ہو اتو ابولہب کو اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ دوڑتا ہوااپنے رفقاء کے پاس پہنچا اور انہیں یہ ''خوشخبری'' سنائی کہ محمدﷺ ابتر (نسل بریدہ ) ہوگئے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ، سورۃ الکوثر ۴/۵۹۵)
ہم ذکر کرچکے ہیں کہ ایام حج میں ابولہب نبیﷺ کی تکذیب کے لیے بازاروں ،اجتماعات میں آپ کے پیچھے پیچھے لگا رہتا تھا۔ طارق بن عبد اللہ مُحَاربی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص صرف تکذیب ہی پر بس نہیں کرتا تھا، بلکہ پتھر بھی مارتارہتا تھا جس سے آپ کی ایڑیاں خون آلود ہوجاتی تھیں۔ (کنز العمال ۱۲/۴۴۹)
ابو لہب کی بیوی اُم ِ جمیل ، جس کا نام اَرْویٰ تھا ، اور جو حَرب بن اُمیہ کی بیٹی اور ابو سفیان کی بہن تھی ، وہ نبیﷺ کی عداوت میں اپنے شوہرسے پیچھے نہ تھی۔چنانچہ وہ نبیﷺ کے راستے میں اور دروازے پر رات کو کانٹے ڈال دیا کرتی تھی۔ خاصی بدزبان اور مفسدہ پرداز بھی تھی۔چنانچہ نبیﷺ کے خلاف بدزبانی کرنا ، لمبی چوڑی دَسِیسَہ کاری وافتراء پردازی سے کام لینا، فتنے کی آگ بھڑکانا ، اور خوفناک جنگ بپا رکھنا اس کا شیوہ تھا۔ اسی لیے قرآن میں اس کو وَامْرَ‌أَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ (۱۱۱: ۴) (لکڑی ڈھونے والی ) کا لقب عطا کیا۔
جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی اور اس کے شوہر کی مَذَمت میں قرآن نازل ہوا ہے تو وہ رسول اللہﷺ کو تلاش کرتی ہوئی آئی۔ آپ خانہ کعبہ کے پاس مسجد حرام میں تشریف فرما تھے۔ ابو بکر صدیقؓ بھی ہمراہ تھے۔ یہ مُٹھی بھر پتھر لیے ہوئے تھی۔ سامنے کھڑی ہوئی تو اللہ نے اس کی نگاہ پکڑ لی اور وہ رسول اللہﷺ کو نہ دیکھ سکی۔ صرف ابو بکرؓ کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے سامنے پہنچتے ہی سوال کیا : ابوبکر تمہارا ساتھی کہاں ہے ؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ میری ہجو کرتا ہے۔ واللہ! اگر میں اسے پاگئی تو اس کے منہ پر یہ پتھر دے ماروں گی۔ دیکھو! اللہ کی قسم! میں بھی شاعرہ ہوں، پھر اس نے یہ شعر سنایا: 
مذمماً عصینا وأمرہ أبینا ودینہ قلینا
''ہم نے مذمم کی نافرمانی کی۔ اس کے امر کو تسلیم نہ کیا اور اس کے دین کو نفرت وحقارت سے چھوڑدیا۔''
مشرکین جل کر نبیﷺ کومحمد کے بجائے مُذمم کہتے تھے جس کا معنی محمد کے معنی کے بالکل عکس ہے محمد : وہ شخص ہے جس کی تعریف کی جائے۔ مذمم : وہ شخص ہے جس کی مذمت اور برائی کی جائے۔ وہ چونکہ مذمم کی برائی کرتے تھے اس لیے ان کی برائی نبیﷺ پر لاگونہ ہوتی۔ تاریخ بخاری ۱/۱۱، صحیح بخاری مع الفتح ۷/۱۶۲، مسند احمد ۲/۲۴۴ ، ۳۴۰ ، ۳۶۹۔
اس کے بعد واپس چلی گئی۔ ابو بکرؓ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا اس نے آپ کو دیکھا نہیں تھا ؟ آپ نے فرمایا: نہیں ؟ اس نے مجھے نہیں دیکھا۔ اللہ نے اس کی نگاہ پکڑ لی تھی۔ (ابن ہشام ۱/۳۳۵، ۳۳۶)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔