جب مومنین کی ایک جماعت اخوت وتعاون کی بنیاد پر قائم ہوگئی۔ جو اللہ کا پیغام پہنچانے اور اس کو اس کا مقام دلانے کا بوجھ اٹھاسکتی تھی تو وحی نازل ہوئی اور رسول اللہﷺ کو مکلف کیا گیا کہ اپنی قوم کو کھلم کھلا دعوت دیں اور ان کے باطل کا خوبصورتی کے ساتھ رد کریں۔
اس بارے میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نازل ہوا ،
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (۲۶:۲۱۴) ''آپ اپنے نزدیک ترین قرابتداروں کو (عذاب الٰہی سے) ڈرایئے ''
یہ سورئہ شعراء کی آیت ہے اور اس سورت میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کاآغاز ہوا۔ پھر آخر میں انہوں نے بنی اسرائیل سمیت ہجرت کر کے فرعون اور قومِ فرعون سے نجات پائی اور فرعون وآل فرعون کو غرق کیا گیا۔ بلفظ دیگر یہ تذکرہ ان تمام مراحل پر مشتمل ہے جن سے حضرت موسیٰ علیہ السلام ، فرعون اور قومِ فرعون کو اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہوئے گزرے تھے۔
جب رسول اللہﷺ کو اپنی قوم کے اندر کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس موقعے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کی یہ تفصیل اس لیے بیا ن کر دی گئی تاکہ کھلم کھلا دعوت دینے کے بعد جس طرح کی تکذیب اور ظلم وزیادتی سے سابقہ آنے والا تھا اس کا ایک نمونہ آپ اور صحابہ کرامؓ کے سامنے موجودر ہے۔
دوسری طرف اس سورت میں پیغمبروں کو جھٹلانے والی اقوام مثلاً: فرعون اور قومِ فرعون کے علاوہ قومِ نوح ،عاد، ثمود قومِ ابراہیم ، قومِ لوط اور اصحاب الأیکہ کے انجام کا بھی ذکر ہے۔ اس کا مقصد غالباً یہ ہے کہ جو لوگ آپ کو جھٹلائیں انہیں معلوم ہوجائے کہ تکذیب پر اصرار کی صورت میں ان کا انجام کیا ہونے والا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کس قسم کے مؤاخذے سے دوچار ہوں گے، نیز اہل ایمان کو معلوم ہوجائے کہ اچھا انجام انھیں کا ہوگا، جھٹلانے والوں کا نہیں۔
قرابت داروں میں تبلیغ:
بہرحال اس آیت کے نزول کے بعد نبیﷺ نے پہلا کام یہ کیا کہ بنی ہاشم کو جمع کیا ان کے ساتھ بنی مطلب بن عبد مناف کی بھی ایک جماعت تھی۔ کل پینتالیس آدمی تھے لیکن ابولہب نے بات لپک لی اور بولا: دیکھو یہ تمہارے چچا اور چچیرے بھائی ہیں، بات کرو لیکن نادانی چھوڑدو اور یہ سمجھ لو کہ تمہارا خاندان سارے عرب سے مقابلے کی تاب نہیں رکھتا اور میں سب سے زیادہ حق دار ہوں کہ تمہیں پکڑلوں۔ پس تمہارے لیے تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے اور اگر تم اپنی بات پر قائم رہے تو یہ بہت آسان ہوگا کہ قریش کے سارے قبائل تم پر ٹوٹ پڑیں اور بقیہ عرب بھی ان کی مدد کریں۔ پھر میں نہیں جانتا کہ کوئی شخص اپنے باپ کے خانوادے کے لیے تم سے بڑھ کر شر (اور تباہی ) کا باعث ہوگا۔ اس پر نبیﷺ نے خاموشی اختیار کرلی۔ اوراس مجلس میں کوئی گفتگو نہ کی۔اس کے بعد آپ نے انہیں دوبارہ جمع کیا اور ارشاد فرمایا:
ساری حمد اللہ کے لیے ہے، میں اس کی حمد کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں۔ اس پر ایمان رکھتا ہوں، اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور یہ گوہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، پھر آپ نے فرمایا: رہنما اپنے گھر کے لوگوں سے جھوٹ نہیں بول سکتا۔ اس اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں تمہاری طرف خصوصاً اور لوگوں کی طرف عموماً اللہ کا رسول (فرستادہ) ہوں۔ واللہ ! تم لوگ اسی طرح موت سے دوچار ہوگے جیسے سوجاتے ہو اور اسی طرح اٹھا ئے جاؤ گے جیسے سو کر جاگتے ہو۔ پھر جو کچھ تم کرتے ہو اس کا تم سے حساب لیا جائے گا۔ اس کے بعد یا تو ہمیشہ کے لیے جنت ہے یا ہمیشہ کے لیے جہنم۔
اس پر ابو طالب نے کہا (نہ پوچھو ) ہمیں تمہاری معاونت کس قدر پسند ہے۔ تمہاری نصیحت کس قدر قابلِ قبول ہے اور ہم تمہاری بات کس قدر سچی جانتے اور مانتے ہیں اور یہ تمہارے والد کا خانوادہ جمع ہے اور میں بھی ان کا ایک فرد ہوں ، فرق اتنا ہے کہ میں تمہاری پسند کی تکمیل کے لیے ان سب سے پیش پیش ہوں۔ لہٰذا تمہیں جس بات کا حکم ہوا ہے اسے انجام دو۔واللہ! میں تمہاری مسلسل حفاظت واعانت کرتا رہوں گا۔ البتہ میری طبیعت عبد المطلب کا دین چھوڑنے پر راضی نہیں۔
ابو لہب نے کہا: یہ اللہ کی قسم! برائی ہے۔ اس کے ہاتھ دوسروں سے پہلے تم لوگ خود ہی پکڑ لو۔ اس پر ابوطالب نے کہا : اللہ کی قسم! جب تک جان میں جان ہے، ہم ان کی حفاظت کرتے رہیں گے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔