Sunday 25 January 2015

جاہلی معاشرے کی چند جھلکیاں



سبزہ ،پانی،ضروریات زندگی کی نایابی نے اہل عرب کو ہمیشہ آوارہ وسرگرداں اوراس مدامی سفر نے اُن کو ہمیشہ جفا کش اورمستعد رکھا،ضروریاتِ زندگی کی کمی نے اُن کے تمدن کو ترقی کرنے نہیں دی اوراُن کی معاشرت میں کوئی نمایاں اصلاح اور قابلِ تذکرہ تغیر واقع نہ ہوا،مشاغل کی کمی اورمناظر کی ایک رنگی نے اُن کی فرصتوں کو بہت وسیع اورفارغ اوقات کو بہت طویل کردیا تھا،ریگستانوں کی وسعت وکثرت،پیداوار،ملکی اورقیمتی اشیاء کی ناپیدگی آبادیوں اورشہروں کی قلت نے کسی بیرونی فتح مند قوم اورملک گیر بادشاہ کو ملکِ عرب کی طرف متوجہ نہ ہونے دیا،سیاحوں اورتاجروں کے متوجہ کرلینے کا بھی کوئی سامان اس جزیرہ نما میں نہ تھا لہذا غیر قوموں اوردنیا کے دوسرے ملکوں کی ترقیات سے اہل عرب عموماً بے خبر رہے اور کسی بیرونی ملک اوربیرونی قوم کے تمدن،اخلاق اورمعاشرت سے اہلِ عرب متاثر نہ ہوسکے،خواجہ حالی نے عرب کی نسبت بالکل صحیح لکھا ہے کہ
نہ وہ غیر قوموں ،پہ چڑھ کر گیاتھا 
نہ اس پر کوئی غیر فرماں روا تھا
ان حالات میں ظاہر ہے کہ اہل عرب کے اندر دو ہی چیزیں خوب ترقی کرسکتی تھیں،ایک شعر گوئی جس کے لئے وسیع فرصتیں اورکھلے میدان میں راتوں کو بے کار پڑے رہنا کافی محرک تھے،دوسری آپس کی لڑائیاں جھگڑے۔ صعوبت کشی کی عادت نے اُن کو جنگ و پیکار اور بات بات پر معرکہ آرائی اورزور آزمائی کا شوقین بنادیا تھا۔دین ومذہب کے معاملہ میں اُن کے فخرِ نسب اور خود ستائی نے ان کو اپنے نسبی بزرگوں کی مدح سرائی پر متوجہ کرکے بآسانی مشاہیر پرستی پر آمادہ کرکے اوربالآخر انہیں کے ناموں کے بُتوں کی پوجا کا عادی بنادیا تھا،بُت پرستی نے ان کو اوہام پرستی اورعجیب عجیب حماقتوں میں مبتلا کردیا تھا،
اہل عرب کی بڑی تعداد خانہ بدوشی کی حالت میں رہتی تھی اوربہت ہی تھوڑے لوگ تھے جو قصبوں اورآبادیوں میں مستقل سکونت رکھتے تھے، ہ اپنے نسب کے سلسلے یاد اورمحفوظ رکھنے کا بہت شوق تھا، آباواجداد کے ناموں اور کاموں کو وہ فخریہ بیان کرتے اوراسی ذریعہ سے لڑائیوں میں جوش اوربہادری دکھانے کا شوق پیدا ہوتا تھا۔
ملک کی آب وہوا کا اثر تھا یا نسب دانی کے شوق کا نتیجہ تھا کہ اہل عرب کی قوتِ حافظہ بہت زبردست تھی،کئی کئی سو اشعار کے فصیدے ایک مرتبہ سن کر یاد کرلینا اورنہایت صحت کے ساتھ سُنادینا ان کے لئے معمولی بات تھی،شاعری اور قادر الکلامی کے عام شوق نے ان کی زبان کو اس قدر ترقی یافتہ حالت تک پہنچادیا تھا کہ وہ بجا طور پر تمام غیر عرب کو عجم یعنی گونگا کہتے تھے،
اگر کسی قبیلہ کا کوئی آدمی کسی دوسرے قبیلہ کے ہاتھ سے مارا جاتا تو جب تک تمام قبیلہ اس دوسرے قبیلہ سے اپنے مقتول کا بدلہ نہ لے لے چین سے نہیں بیٹھتا تھا،قصاص نہ لینا اورخاموش ہوکر بیٹھ رہنا ان کے نزدیک بڑی بھاری بے عزتی کی بات سمجھی جاتی تھی۔
ذراذراسی اوربہت ہی معمولی باتوں پر ان میں جنگ چھڑ جاتی تھی ایک دفعہ جب لڑائی شروع ہوجاتی تو پھر کئی کئی پشتوں اورصدیوں تک برابر جاری رہتی،ان کی لڑائیوں میں کوئی بھی لڑائی ایسی نہیں ملتی جو کسی معقول اوراہم سبب کی بنا پر شروع ہوئی ہو۔
عرب جاہلیت میں ایک یہ رسم بھی تھی کہ جب دشمن پر قابو پاجاتے اوراس کے عیال واطفال کو قید کرلیتے تو بلا امتیاز اور بلا تکلف سب کو قتل کردیتے ؛ لیکن قیدیوں میں سے کوئی شخص ان کے کھانے میں سے کچھ کھالیتا تو قتل سے محفوظ ہوجاتا تھا،جس کو قید سے آزاد کردینا چاہتے تھے تو اول اس کے سر کے بال تراش لیتے،ان میں مبارزہ کی لڑائیوں کا بڑ ارواج تھا، صف بندی کرکے لڑنا ان میں رائج نہ تھا،گھوڑوں اورہتھیاروں کی نگہداشت کا ان کو بہت زیادہ خیال تھا،شمشیر زنی، تیر اندازی،شہسواری،نیزہ بازی میں جس شخص کو کمال حاصل ہوتا اس کی بڑی عزت وتوقیر کی جاتی اور اس کا نام فوراً دُور دُور تک مشہور ہوجاتا۔
اگر کسی قاتل یا دشمن پر اس کی زندگی میں دسترس حاصل نہ ہوسکتی تو اس کے بیٹے پوتوں اوررشتہ داروں سے بدلہ لیتے تھے اورجب تک انتقام نہ لے لیں چین سے نہ بیٹھتے تھے،اگر سبب عداوت یاد نہ رہے،عداوت پھر بھی یاد رہتی تھی،بہت سے شخصوں کو صرف اس لئے قتل کرتے تھے کہ ہم کو ان سے دشمنی ہے اوران کا قتل کرنا ضروری ہے،لیکن یہ نہ بتاسکتے تھے کہ ان سے کیوں دشمنی ہے؟
بعض قبائل کو بعض فنون حرب اوراسلحہ جنگ کے استعمال میں شہرت حاصل تھی،خاص خاص تلواروں، نیزوں کمانوں، گھوڑوں وغیرہ کے خاص خاص نام یعنی اسماء علم تھے اورسارے ملک میں سمجھے اورپہچانے جاتے تھے ؛مثلاً حرث بن ابی شمر غسانی کی تلوار کانام خذوم تھا، عبدالمطلب بن ہاشم کی تلوار کا نام عطشان اورمالک بن زبیر کی تلوار کا نام ذوالنون تھا،یہ سب کچھ دلیل اس امر کی ہے کہ عرب کے لوگ جنگ و قتال کے بے حد شائق تھے،یہی وجہ ہے کہ گھوڑے اور تلوار کے نام عربی زبان میں ہزار تک بتائے جاتے ہیں۔



ملک عرب میں ہرجگہ بت پرستی علانیہ ہوتی تھی، بہت سے بت تھے جو قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے یعنی ہر قبیلہ اپنا جدا بت رکھتا تھا، قریش اوربنی کنانہ عزیٰ کے پجاری تھے،بنو شیبہ عزیٰ کے دربان تھے۔ اوس اورخزرج کے قبیلے منات کے پرستار تھے، مذکورہ بتوں کے علاوہ جریش ،شارق، عائم،مدان،عوف،مناف وغیرہ بہت سے مشہور بت ہیں جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی قبیلہ کا معبود تھا،خانہ کعبہ میں جب بت پرستوں کا اجتماع ہوتا تھا ان مقررہ ایام میں اگر کوئی عرب خانہ کعبہ یعنی مکہ تک نہ جاسکتا تھا تو ایک پتھر جس کو دوّار کہتے تھے نسب کردیتا اور اس کے گرد طواف کرتا، ملکِ عرب میں خانہ کعبہ کی طرح اور بھی بُت پرستی کے کئی مرکز تھے،
حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت اسمعیل علیہ السلام،حضرت عیسیٰ علیہ السلام،حضرت مریم علیہا السلام کی تصویریں بھی خانہ کعبہ میں پوجی جاتی تھیں
بت پرست لوگ جب حج کو آتے تو قربانی کے لئے اونٹ بھی لاتے جن کو بتوں پر چڑھایا جاتا،ان اونٹوں کے گلے میں جوتا باندھ کر لٹکادیتے اوران کے کوہان کو زخمی کردیتے تھے جو علامت اس بات کی تھی کہ یہ قربانی کا اونٹ ہے پھر کوئی شخص اس اونٹ سے تعرض نہ کرتا۔
بعض مورخین کا قول ہے کہ عرب کے بت پرست توحید کے قائل تھے اورخدا کو ایک جانتے تھے،ان بتوں کی پرستش وہ یوں کرتے تھے یہ بارگاہِ الہی میں ان کے سفارشی ہیں،ان میں بعض قبائل کا یہ عقیدہ تھا کہ جس شخص کی قبر پر اونٹنی ذبح کی جاتی ہے وہ قیامت کےدن اسی اونٹنی پر سوار ہوکر اٹھے گا،یہ عقیدہ دلیل اس بات کی ہے کہ وہ حشر ونشر اوریوم جزا کے قائل تھے۔

عرب جاہلیت میں ستارہ پرستی بھی خوب رائج تھی، ستاروں کے طلوع اورغروب پر بڑے بڑے کاموں کا انحصار رکھتے تھے،کھلے میدانوں اور ریگستانوں میں بسر کرنے والے لوگوں کی توجہ ستاروں اورسیاروں کی طرف خصوصیت سے منعطف رہنا اوران ستاروں میں سے بعض کو معبود ٹھیرالینا کوئی تعجب کی بات نہ تھی، عرب کے ستارہ پرستوں میں چاند کے پرستار سب سے زیادہ تھے اورچاند سب سے محبوب معبود سمجھا جاتا تھا۔
کاہن لوگ بڑی کثرت سے ہوتے تھے، آئینہ یا پانی سے لبریز طشت پر نظر ڈالتے اورغیب کی باتیں بتاتے یا حیوانات کی ہڈیوں اورجگر وغیرہ اعضاء کو دیکھ کر حکم لگاتے تھے انہیں میں طارقین حصیٰ (سنگریزے پھینکنے والے)اورگٹھلیاں پھینکنے والے بھی تھے،یہ سب کاہنوں کی قسم میں شمار ہوتے تھے۔

نیک فالی اوربد فالی کے بھی بہت قائل تھے،کوے کو بہت منحوس اورموجب فراق سمجھتے تھے،عربی زبان میں چونکہ کوّے کو غراب کہتے ہیں اس لئے مسافرت کو غربت اورمسافرکو غریب کہنے لگے،یعنی کوّے کے اثر سے جُدائی اور مسافرت میں انسان مبتلا ہوتا ہے،الو کو بھی بہت منحوس جانتے تھے،ان کے نزدیک الو کے بولنے سے موت اورویرانی ہوتی تھی،
شیطان کو اپنا دوست بنانے کے لئے بڑی بڑی ریاضتوں میں مصروف ہوتے تھے۔

جب کہیں سفر میں جاتے تو جاتے وقت رتم کی کسی باریک شاخ میں گرہ لگاجاتے سفر سے واپس آکر دیکھتے کہ اس شاخ میں گرہ لگی ہوئی ہے یا کھل گئی ہے، اگر گرہ لگی ہوئی دیکھتے تو سمجھتے ہماری بیوی پاک دامن رہی ہے، اگر گرہ کھلی ہوئی پاتے تو یقین کرلیتے کہ عورت نے ہماری غیر موجودگی میں ضرور بدکاری کی ہے،جب کوئی شخص مرجاتا تو اس کی اونٹنی کو اس کی قبر کے پاس باندھ کر آنکھیں اس کی بند کردیتے،یہاں تک کہ وہ مرجاتی،یا اس اونٹنی کے سر کو اس کی پشت کی جانب کھینچ کر سینہ کے قریب لاکر باندھ دیتے اوراسی حالت میں چھوڑدیتے یہاں تک کہ وہ مرجاتی،یہ کام ان کے عقیدہ کے موافق اسلئے کیا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد یہ شخص جب قبر سے اٹھے گا تو اس اونٹنی پر سوار ہوکر اٹھے گا،ان کا عقیدہ تھا کہ جب کوئی شخص کسی بستی میں جائے اوروہاں کی وبا کا اس کو خوف ہو تو چاہیے کہ ا س بستی کے دروازہ پرکھڑا ہوکر خوب زور سے گدھے کی سی آوازیں نکالے تاکہ وباء سے محفوظ رہے،
اسی طرح جب کوئی گائے پانی نہ پیتی تو بیلوں کو مارتے ،ان کا عقیدہ تھا کہ جن بیلوں پر سوار ہوجاتا ہے اورگایوں کو پانی پینے سے روکتا ہے
ان کا عقیدہ تھا کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ رہتا ہے ،جب وہ سانپ بھوکا ہوتا تو پسلی کی ہڈیوں پر سے گوشت نوچ نوچ کر کھاتا ہے،ان کا عقیدہ تھا کہ اگر کسی عورت کے بچے مرجایا کرتے ہوں اور وہ عورت کسی شریف متمول آدمی کی لاش کو خوب اپنے پاؤں سے کچلے تو پھر اس کے بچے جینے لگتے ہیں،ان کا عقیدہ تھا کہ جن خرگوش سے بہت ڈرتا ہے اس لئے جنوں سے محفوظ رہنے کے لئے خرگوش کی ہڈی بطور تعویذ کے بچوں کے گلے میں ڈالتے تھے۔



عرب جاہلیت میں ایسا کوئی شخص نہ تھا جس کو شاعری کا سلیقہ نہ ہو،مرد،عورت،بچے،بوڑھے،جوان،سب کے سب تھوڑے بہت شاعر ضرور ہوتے تھے گویا وہ ماں کے پیٹ سے شاعری اورفصاحت لے کر پیدا ہوتے تھے،ان کی شاعری عموماً فی البدیہہ ہوتی تھی، سوچنے غور کرنے،مضمون تلاش کرنے کی ان کو ضرورت نہ تھی،ان کو اپنی فصاحت اور قادر الکلامی پر اس قدر غرور تھا کہ وہ ساری دنیا کو اپنے آگے گو نگا جانتے تھے،مگر قرآن کریم نے نازل ہوکر اہل عرب کے غرورِ فصاحت وبلاغت کی ایسی کمر توڑی اوران تمام فصیح وقادر الکلام اہل عرب کو قرآن کریم کے مقابلہ پر ایسا نیچا دیکھنا پڑا کہ رفتہ رفتہ اہلِ عرب کا غرورِ فصاحت جاتا رہا اورسب کو کلام الہیٰ کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔
سالانہ میلوں،تقریبوں اورحج کے موقعوں پر جس شخص کا قصیدہ مجلس مشاعرہ میں سب سے زیادہ بہتر قراردیا جاتا تھا وہ فوراً سب سے زیادہ عزت وعظمت کا وارث بن جاتا تھا،شاعروں کی عزت ان کے نزدیک بہادر سپہ سالاروں اوربادشاہوں کے مساوی ؛بلکہ ان سے زیادہ ہوتی تھی ۔ بہترین قصائد خانۂ کعبہ پر لکھ کر لٹکادیئے جاتے؛چنانچہ ایسے سات قصیدے جو سبع معلقات کے نام سے مشہور ہیں، امراء القیس بن حجر کندی،زبیر بن ابی سلمیٰ مزنی، لبید بن ربیعہ،عمربن کلثوم،عنترہ عبسی وغیرہ کے مصنفہ تھے۔

بنی تمیم اورقریش میں دختر کشی کی رسم سب سے زیادہ جاری تھی، اس رسم دختر کشی پر فخر کرتے اوراپنے لئے نشان عزت سمجھتے تھے،بعض گھرانوں میں یہ سنگدلی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ لڑکی جب بڑی ہوجاتی یعنی خوب میٹھی میٹھی باتیں کرتی اوراس کی عمر پانچ چھ سال کی ہوجاتی تب اس کو اچھے کپڑے پہنا کر سنگ دل باپ خود لے کر بستی سے باہر جاتا جہاں وہ پہلے سے ایک گہرا گڑھا کھود آتا تھا، اس گڑھے کے کنارے اس لڑکی کو کھڑا کرکے پیچھے دھکا دے کر گرادیتا،وہ لڑکی چیختی چلاتی اورباپ سے امداد طلب کرتی،لیکن وہ ظالم باپ اوپر سے ڈھیلے مارکر اورمٹی ڈال کر اس کو دبا دیتا اورزمین ہموار کرکے واپس چلا آتا اوراس طرح اپنے لختِ جگر کو زندہ درگور کرنے پر فخر کرتا،بنی تمیم کے ایک شخص قیس بن عاصم نے اسی طرح اپنی دس لڑکیاں زندہ دفن کی تھیں، دختر کشی کی اس ظالمانہ رسم سے عرب کا کوئی بھی قبیلہ پاک نہ تھا مگر بعض قبیلوں میں یہ حرکت کثرت سے ہوتی تھی اوربعض میں کسی قدر کم۔

عام طور پر اہل عرب کا لباس بہت ہی سادہ رہا ،گاڑھے کے کرتے میں چمڑے کےپیوند لگا کر پہننا معمولی بات تھی، بعض اشخاص چمڑے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو سوئی کے ٹانکوں سے جوڑ کرچادر بنالیتے تھے اوریہ چادر بلا تکلف اوڑھنے اوربچھانے کے لئے کام آتی تھی،اونٹ اوربھیڑ کے بالوں سے بھی کپڑے بُنے اورتیار کئے جاتے تھے اورزیادہ تر انہیں کمبلوں کے خیمے اورفرش بنائے جاتے تھے،ڈھیلے ڈھیلے اورنیچے کرتے تہہ بند اورسرپر رومال یا عمامہ کا رواج تھا۔

دودھ،گوشت اور چنا وغیرہ غلہ عام طور پر تمام ممالک کی غذا تھی،پنیر،ستو،کھجور،روغن زیتون،حریرہ وغیرہ کا بھی استعمال کرتے تھے، کھانا کھانے کے آداب بھی بہت ادنی درجہ کے تھے جن کا اندازہ ان احکام نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بخوبی ہوسکتا ہے جو کھانے پینے کے متعلق احادیث میں موجود ہیں اورجن میں بہت سی بد تمیزیوں سے منع کیا گیا ہے اورانسان کو دستر خوان پر بسیار خوری،بے شرمی، کثیف المزاجی اوراناپ شناپ باتوں سے باز رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔



عرب میں دو قسم کے لوگ تھے،ایک وہ جو شہروں اور بستیوں میں آباد تھے دوسرے وہ جو خانہ بدوشی کی حالت میں پھرتے تھے اورتعداد میں زیادہ تھے،شہری لوگوں میں اگرچہ حقوق ہمسایہ کی رعایت،امانت داری،دیانت وغیرہ صفات تھے مگر تجارت میں مکرودغا،دھوکہ بازی وغیرہ عیوب ان میں بھی موجود تھے،خانہ بدوش یا بدوی رہزنی اورڈاکہ ڈالنے میں بے حد مشاق تھے،مسافروں کو لوٹ لینے اور زبردستی کسی کا مال چھین لینے کی سب کو عادت تھی اگر کسی شخص کو تنہا صفر میں پاتے تو اس کا مال چھین لیتے اوراس کو غلام بنا کر بیچ ڈالتے۔
راستوں میں جو کنوئیں بنے ہوتے ہیں ان کو گھاس وغیرہ سے چھپادیتے کہ مسافر کو پانی نہ مل سکے اور پیاس سے مرجائے تو بلا زحمت اس کا مال ہاتھ آئے،چوری میں خوب مشاق تھے،بعض بعض تو چور ی میں اس قدر مشہور تھے کہ ان کے نا م بطور ضرب المثل مشہور ہوئے، ان چوروں کو ذوبان العرب(عرب کے بھیڑئیے) بھی کہا جاتا تھا۔

تکبر وتکبر کی رذیل صفات بھی عرب جاہلیت میں حد کو پہنچی ہوئی تھی،جذیمہ ابرش کے تکبر کی یہ حالت تھی کسی کو اپنا وزیر ومشیر اورہم نشین نہیں بنایا،وہ کہتا تھا کہ فرقدین ستارے میرے ہم نشین ہیں بنی مخزوم بھی تکبر کے لئے کافی شہرت رکھتے تھے،اسی تکبر کا نتیجہ تھا کہ انبیاء ورسل اورہادیان برحق کے مواعظ حسنہ سننے اوراحکام الہی کی فرماں برداری کرنے کو بھی عیب جانتے تھے۔

جب کوئی شخص مرجاتا تو اس کے عزیز واقارب اپنا منھ کھسوٹتے اوربال نوچتے اورہائے وائے کرتے تھے، عورتیں بال کھولے سرپر خاک ڈالے جنازے کے پیچھے پیچھے چلتی تھیں جس طرح ہندوستان میں ہندو لوگ مردہ کے غم میں سر کے بال اور داڑھی مونچھ منڈادیتے تھے عرب جاہلیت میں عورتیں بھی بلوائی جاتی تھیں وہ خوب زور شور سے نوحہ کرتی تھیں،دفن سے فارغ ہوکر دسترخوان بچھایا جاتا اوران نوحہ کرنے والیوں کو کھانا کھلایا جاتا، اسلام نے ان تمام مراسم جاہلیت کو مٹایا؛ لیکن تعجب ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں اب بھی موجود ہے ۔

اقتصادی حالت، اجتماعی حالت کے تابع تھی۔ اس کا اندازہ عرب کے ذرائع معاش پر نظر ڈالنے سے ہوسکتا ہے کہ تجارت ہی ان کے نزدیک ضروریات زندگی حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ تھی اور معلوم ہے کہ تجارتی آمد ورفت امن وسلامتی کی فضا کے بغیر آسان نہیں اور جزیرۃ العرب کا حال یہ تھا کہ سوائے حرمت والے مہینوں کے امن وسلامتی کا کہیں وجود نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف حرام مہینوں ہی میں عرب کے مشہور بازار عُکاظ ، ذی المجَاز اور مَجِنہ وغیرہ لگتے تھے۔
جہاں تک صنعتوں کا معاملہ ہے تو عرب اس میدان میں ساری دنیا سے پیچھے تھے۔ کپڑے کی بُنائی اور چمڑے کی دِباغت وغیرہ کی شکل میں جو چند صنعتیں پائی بھی جاتی تھیں وہ زیادہ تریمن، حیرہ اور شام کے متصل علاقوں میں تھیں۔البتہ اندرونِ عرب کھیتی باڑی اور گلہ بانی کا کسی قدر رواج تھا۔ ساری عرب عورتیں سوت کاتتی تھیں لیکن مشکل یہ تھی کہ سارا مال ومتاع ہمیشہ لڑائیوں کی زد میں رہتا تھا۔ فقر اور بھوک کی وبا عام تھی اور لوگ ضروری کپڑوں اور لباس سے بھی بڑی حد تک محروم رہتے تھے۔




پردہ کا مطلق رواج نہ تھا،ان کی عورتیں آزادانہ مردوں کے سامنے آتی تھیں،مشاغل اورضروریاتِ زندگی کی کمی آزاد مزاجی اورشاعری ومفاخرت،نیز ملک کی گرم آب وہوانے یہ مرض بھی ان میں پیدا کردیا تھا، ان میں وہ آدمی کمینہ اورذلیل سمجھا جاتا تھا جس کو کسی عورت سے کبھی عشق پیدا نہ ہوا ہو،
عرب کے بعض قبائل اپنی عشق بازی کی وجہ سے مشہور تھے،مثلاً بنی عذرہ کے عشق کی یہاں تک شہرت تھی کہ اَعْشَقُ مِنْ بَنِیْ عَذْرَۃَ کی مثل مشہور ہے یعنی فلاں شخص بنی عذرۃ سے بھی زیادہ عاشق مزاج ہے،ایک اعرابی سے کسی نے پوچھا تھا کہ تو کس قوم سے ہے،ا س نے جواب دیا میں ایسی قوم میں سے ہوں کہ جب وہ عاشق ہوتے ہیں تو ضرور مرجاتے ہیں،اس کلام کو ایک لڑکی سن رہی تھی،وہ کہنے لگی: عَذَر ی ورب الکعبۃ (رب کعبہ کی قسم ہے تو ضرور عذری ہے)
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں: ایک تو وہی صورت تھی جو آج بھی لوگوں میں رائج ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس کی زیر ولایت لڑکی کے لیے نکاح کا پیغام دیتا۔ پھر منظوری کے بعد مہر دے کر اس سے نکاح کرلیتا۔ 
دوسری صورت یہ تھی کہ عورت جب حیض سے پاک ہوتی تو اس کا شوہر کہتا کہ فلاں شخص کے پاس پیغام بھیج کر اس سے اس کی شرمگاہ حاصل کرو۔ (یعنی زنا کراؤ) اور شوہر خود اس سے الگ تھلگ رہتا اور اس کے قریب نہ جاتا۔ یہاں تک کہ واضح ہوجاتا کہ جس آدمی سے شرمگاہ حاصل کی تھی (یعنی زنا کرایا تھا ) اس سے حمل ٹھہر گیا ہے۔ جب واضح ہوجاتا تو اس کے بعد اگرشوہر چاہتا تو اس عورت کے پاس جاتا۔ ایسا اس لیے کیا جاتا تھا کہ لڑکا شریف اور باکمال پیدا ہو۔ اس نکاح کو نکاحِ اِسْتبضاع کہا جاتا تھا۔ (اسی کو ہندوستان میں نیوگ کہتے ہیں۔)
نکاح کی تیسری صورت یہ تھی کہ دس آدمیوں سے کم کی ایک جماعت اکٹھا ہوتی ، سب کے سب ایک ہی عورت کے پاس جاتے اور بد کاری کرتے۔ جب وہ عورت حاملہ ہوجاتی اور بچہ پیدا ہوتا تو پیدائش کے چند رات بعد وہ عورت سب کو بلابھیجتی اور سب کو آنا پڑتا مجال نہ تھی کہ کوئی نہ آئے۔ اس کے بعد وہ عورت کہتی کہ آپ لوگوں کا جو معاملہ تھا وہ تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں اور اب میرے بطن سے بچہ پیدا ہوا ہے اور اے فلاں! وہ تمہارا بیٹا ہے۔ وہ عورت ان میں سے جس کا نام چاہتی لے لیتی ، اور وہ اس کا لڑکا مان لیا جاتا۔
چوتھا نکاح یہ تھا کہ بہت سے لوگ اکٹھا ہوتے اور کسی عورت کے پاس جاتے ، وہ اپنے پاس کسی آنے والے سے انکار نہ کرتی۔ یہ رنڈیاں ہوتی تھیں جو اپنے دروازوں پر جھنڈیاں گاڑے رکھتی تھیں تاکہ یہ نشانی کا کام دے اور جو ان کے پاس جانا چاہے بے دھڑک چلا جائے۔ جب ایسی عورت حاملہ ہوتی ، اور بچہ پیدا ہوتا تو سب کے سب اس کے پاس جمع ہوتے ، اور قیافہ شناس کو بلاتے۔ قیافہ شناس اپنی رائے کے مطابق اس لڑکے کو کسی بھی شخص کے ساتھ ملحق کر دیتا۔ پھر یہ اسی سے مربوط ہو جاتا اور اسی کا لڑکا کہلاتا۔ وہ اس سے انکار نہ کرسکتا تھا - جب اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا تو جاہلیت کے سارے نکاح منہدم کردیے۔ صرف اسلامی نکاح باقی رہا جو آج رائج ہے۔ (صحیح بخاری : کتاب النکاح ، باب من قال لانکاح الابولی ۲/۷۶۹ وابوداؤد : باب وجوہ النکاح۔)

زمانۂ جاہلیت میں کسی تحدید کے بغیر متعدد بیویاں رکھنا بھی معروف با ت تھی۔ لوگ ایسی دوعورتیں بھی بیک وقت نکاح میں رکھ لیتے تھے جو آپس میں سگی بہن ہوتی تھیں۔ باپ کے طلاق دینے یا وفات پانے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے بھی نکاح کر لیتا تھا۔ طلاق ورجعت کا اختیار مرد کو حاصل تھا اور ان کی کوئی حد معین نہ تھی تا آنکہ اسلام نے ان کی حد بندی کی۔ (ابو داؤد ، نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث ، نیز کتب تفسیر متعلقہ الطلاق مرتان۔)
زنا کاری تمام طبقات میں عروج پر تھی۔ کوئی طبقہ یا انسانوں کی کوئی قسم اس سے مستثنیٰ نہ تھی ، البتہ کچھ مرد اور عورتیں ایسی ضرور تھیں جنھیں اپنی بڑائی کا احساس اس بُرائی کے کیچڑ میں لت پت ہونے سے باز رکھتا تھا۔ پھر آزاد عورتوں کا حال لونڈیوں کے مقابل نسبتاً اچھا تھا، اصل مصیبت لونڈیاں ہی تھیں اور ایسا لگتا ہے کہ اہلِ جاہلیت کی غالب اکثریت اس برائی کی طرف منسوب ہونے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتی تھی۔ چنانچہ سنن ابی داؤد وغیرہ میں مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ !فلاں میرا بیٹا ہے ، میں نے جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اسلام میں ایسے دعوے کی کوئی گنجائش نہیں، جاہلیت کی بات گئی اب تو لڑکا اسی ہوگا جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زنا کار کے لیے پتھر ہے اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور عبد بن زَمْعہ کے درمیان زمعہ کی لونڈی کے بیٹے...عبد الرحمن بن زمعہ...کے بارے میں جو جھگڑا پیش آیا تھا وہ بھی معلوم ومعروف ہے۔
(صحیح بخاری ۲/۹۹۹، ۱۰۶۵، ابو داؤد: الولد للفراش ، مسند احمد ۲/۲۰۷
)
خلاصہ یہ کہ اجتماعی حالت ضُعف وبے بصیرتی کی پستی میں گری ہوئی تھی۔ جہل اپنی طنابیں تانے ہوئے تھا اور خرافات کا دور دورہ تھا۔ لوگ جانوروں جیسی زندگی گزار رہے تھے۔ عورت بیچی اور خریدی جاتی تھی اور بعض اوقات اس سے مٹی اور پتھر جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ قوم کے باہمی تعلقات کمزور بلکہ ٹوٹے ہو ئے تھے اور حکومتوں کے سارے عزائم ، اپنی رعایا سے خزانے بھر نے یا مخالفین پر فوج کشی کرنے تک محدود تھے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔