حضور صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد سے حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کی خصوصی روحانی ، نورانی اور بے مثال شخصیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کیسے باکمال، جامع الصفات مومن خالص تھے،
چناں چہ جب ہمہ صفت موصوف شخصیت ( بعد النبی) کا یہ مقام ہو اور حق بھی ان کی طرف مڑ جاتا اور ان کے منہ سے وہی بات نکلتی ہو جو حقیقت پر مبنی اور حق ہی کی آئینہ دار ہوتی،
ایسے بہت سے مواقع آئے کہ قرآنی آیات کے نزول سے پہلے ہی کوئی بات نور نبوت کی شعاؤں سے منور ہونے والے قلب عمر پر پڑتی تھیں، حق سمجھ میں اور دل میں آجاتا تھا، اس کا اظہار وہ برملا کر دیتے تھے۔
کم وبیش تیس مواقع ایسے ہیں کہ رب کائنات ذوالجلال نے اپنے بندہ عمر فاروق کے خیالات اور اقوال کے مطابق آیات قرآنی نازل فرمائیں جن کو محدثین ومورخین کی اصطلاح اور حقیقت پر مبنی کلمات کے بموجب” موافقات عمر“ رضی الله عنہ کہا جاتا ہے، تفصیلات حدیث کی کتابوں موجود ہیں۔
خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے رب نے مجھ سے اکیس (٢١) باتوں میں موافقت فرمائی ہے ۔ جن کا تذکرہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ الخلفاء میں کیا ہے۔ چندامورکی تفصیل حسب ذیل ہے:ـ-
1۔ حجاب کے احکام سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ ! ازواجِ مطہرات کے سامنے طرح طرح کے لوگ آتے ہیں اس لیے آپ انہیں پردے کا حکم دیجیے۔ اس پر یہ آیت نازل ہو گئی۔
وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ۔
''اور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر مانگو ''۔ (الاحزاب:٥٣،)
2۔ ایک بار آپ نے عرض کی، یا رسول اللہ ! ہم مقامِ ابراہیم کو مصلیٰ نہ بنالیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوگئی،
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہمَ مُصَلًّی ۔
''اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ''۔(البقرۃ:١٢٥، )
3۔ بدر کے قیدیوں کے متعلق بعض نے فدیہ کی رائے دی جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں قتل کرنے کا مشورہ دیا ۔ اس پر آپ کی موافقت میں یہ آیت نازل ہوئی۔
لَوْلاَ کِتَاب مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَاب'' عَظِیْم''۔
'' اگر اللہ ایک بات پہلے لکھ نہ چکا ہوتاتو تم نے جو کافروں سے بدلے کا مال لے لیا،اس میں تم پر بڑا عذاب آتا ''۔(الانفال:٦٨)
4۔ نبی کریم ﷺ کا اپنی کنیز حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جانا بعض ازواجِ مطہرات کو ناگوار لگا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان ازواج سے فرمایا،
عَسٰی رَبُّہ، اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہ، اَزْوَاجًا خَیْرًا مِنْکُنَّ۔
'' اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ اُن کا رب اُنہیں تم سے بہتر بیویاں بدل دے''۔ (التحریم:٣)
بالکل انہی الفاظ کے ساتھ وحی نازل ہوگئی۔
5۔ حرمت سے قبل مدینہ طیبہ میں شراب اور جوئے کاعام رواج تھا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ نبوی میں عرض کی، ہمیں شراب اور جوئے کے متعلق ہدایت دیجیے کیونکہ یہ مال اور عقل دونوں ضائع کرتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی،
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْم'' کَبِیْر''۔
''تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں، تم فرما دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے ''۔ (البقرۃ:٢١٩،)
6۔ ایک بار ایک شخص نے شراب کے نشہ میں نماز پڑھائی تو قرآن غلط پڑھا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پھر وہی عرض کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔
یٰااَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی ۔(النسائ:٤٣)
''اے ایمان والو! نشہ کی حالت میںنماز کے پاس نہ جاؤ ''
7۔ اسی سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بار بار دعا کی ، الٰہی! شراب اور جوئے کے متعلق ہمارے لئے واضح حکم نازل فرما۔ یہانتک کہ شراب اور جوئے کے حرام ہونے پریہ آیت نازل ہوگئی۔
اِنَّمَا الْخَمْرُ والْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلاَمُ رِجْس'' مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ ۔
''بیشک شراب اور جؤا اور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام، تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ''۔ (المائدۃ:٩٠)
8۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت لَقَدْخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِنْ طِیْنِ (بیشک ہم نے آدمی کو چُنی ہوئی مٹی سے بنایا) نازل ہوئی۔ (المؤمنون:١٢) تو اِسے سن کرحضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بے ساختہ کہا،
فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ۔ '' تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا''۔
اس کے بعد اِنہی لفظوں سے یہ آیت نازل ہوگئی۔ (تفسیر ابن ابی حاتم)
9۔ جب منافق عبداللہ ابن اُبی مرا تو اُس کے لوگوں نے رسو ل ُاللہ سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے درخواست کی ۔اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی،یا رسول اللہ ! عبداللہ ابن اُبی توآپ کا سخت دشمن اور منافق تھا ،آپ اُس کا جنازہ پڑھیں گے؟ رحمتِ عالم انے تبلیغ دین کی حکمت کے پیشِ نظر اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ یہ آیت نازل ہوگئی ،
وَلاَ تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ اَبَدًا۔ '
'اور جب ان(منافقوں) میں سے کوئی مرے تو اس پر نماز نہ پڑھیے''۔
10۔ اسی نماز جنازہ کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی، سَوَائ'' عَلَیْہِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ۔
''ان منافقوں کے لیے استغفار کرنا نہ کرنا برابر ہے''۔
اس پر سورۃ المنافقون کی یہ آیت نازل ہوئی۔ (طبرانی )
11۔ جنگ بدر کے سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مدینہ سے نکلنے کر لڑنے کا مشورہ دیا اور یہ آیت نازل ہوئی۔
کَمَا اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ بِالْحَقِّ الخ۔
''جس طرح اے محبوب! تمہیں تمہارے رب نے (لڑنے کے لئے)تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کیا اور بیشک مسلمانوں کا ایک گروہ اس پر ناخوش تھا''۔(الانفال:٥، )
12۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پرجب منافقوں نے بہتان لگایا تو ر سول اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مشورہ فرمایا۔ آپ نے عرض کی ، آپ کا اُن سے نکاح کس نے کیاتھا؟ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا، اللہ نے ! اس پر آپ نے عرض کی ، کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے رب نے آپ سے اُن کے عیب کوچھپایا ہو گا، بخدا یہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر عظیم بہتان ہے۔
سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُہْتَان'' عَظِیْم'' ۔ اسی طرح آیت نازل ہوئی۔ (النور:١٦)
13۔ ابتدائے اسلام میں رمضان شریف کی رات میں بھی بیوی سے قربت منع تھی ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے بارے میں کچھ عرض کیا۔ اس کے بعد شب میں مجامعت کو جائز قرار دے دیا گیااور آیت نازل ہوئی۔
اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَائِکُمْ
۔''روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لیے حلال ہوا''۔ (البقرۃ:١٨٧)
14۔ ایک یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا ، جبرئیل فرشتہ جس کا ذکر تمہارے نبی کرتے ہیں وہ ہمارا دشمن ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا،
مَنْ کَانَ عَدُوَّ لِلّٰہِ وَمَلاَ ئِکَتِہٖ وَرُسُلِہ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوُّ لِلْکٰفِرِیْن۔
''جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کا ،تو اللہ دشمن ہے کافروں کا''۔(البقرۃ:٩٨)
بالکل اِنہی الفاظ میں یہ آیت نازل ہوئی۔
15۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک روز سو رہے تھے کہ آپ کا ایک غلام بغیر اجازت لیے اندر چلا آیا۔ اس وقت آپ نے دعا فرمائی ، الٰہی! بغیر اجازت گھروں میں داخل ہونا حرام فرما دے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا ۔ '
' اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو ''۔(النور:٢٧)
16۔ دو شخص لڑائی کے بعد انصاف کے لیے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے ۔ حضور ﷺ نے ان کا فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا، وہ منافق تھا۔ اس نے کہا کہ چلو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس چلیں اور ان سے فیصلہ کرائیں۔ چنانچہ یہ دونوں پہنچے اور جس شخص کے موافق حضور نے فیصلہ کیا تھا اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا ، حضور نے تو ہمارا فیصلہ اس طرح فرمایا تھا لیکن یہ میرا ساتھی نہیں مانا اورآپ کے پاس فیصلہ کے لئے لے آیا ۔ آپ نے فرمایا، ذرا ٹھہرو میں آتا ہوں۔ آپ اندر سے تلوار نکال لائے اور اس شخص کو جس نے حضور کا فیصلہ نہیں مانا تھا، قتل کر دیا۔ دوسرا شخص بھاگا ہوا رسولُ اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا، مجھے عمرسے یہ امید نہیں کہ وہ کسی مومن کے قتل پر اس طرح جرات کرے ۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس منافق کے خون سے بری رہے۔
فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ الخ۔
تمہارے رب کی قسم! وہ مسلمان نہ ہونگے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو،اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں''۔ (النساء ٦٥)
۔ (تاریخ الخلفاء)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔