سورۂ مدثر کی گزشتہ آیات نازل ہونے کے بعد رسول اللہﷺ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھے۔ آپ کی قوم چونکہ جفاکار تھی۔ بت پرستی اور درگاہ پرستی اس کا دین تھا۔ باپ دادا کی روش اس کی دلیل تھی۔ غرور وتکبر اور حمیت وانکار اس کا اخلاق تھا ۔ اس کے علاوہ وہ جزیرۃ العرب میں دینی پیشوائی کے صدر نشین تھے۔ اس کے اصل مرکز پر قابض اور اس کے وجود کے نگہبان تھے۔ اس لیے اس کیفیت کے پیش نظر حکمت کا تقاضا تھاکہ پہلے پہل دعوت وتبلیغ کا کام پس پردہ انجام دیا جائے، تاکہ اہل مکہ کے سامنے اچانک ایک ہیجان خیزصورت حال نہ آجائے۔
یہ بالکل فطری بات تھی کہ رسول اللہﷺ سب سے پہلے ان لوگوں پر اسلام پیش کرتے جن سے آپ کا سب سے گہرا ربط و تعلق تھا، یعنی اپنے گھر کے لوگوں اور دوستوں پر۔ چنانچہ آپ نے سب سے پہلے انہیں دعوت دی۔ اس طرح آپ نے ابتدا میں اپنی جان پہچان کے ان لوگوں کو حق کی طرف بلایا جن کے چہروں پر آپ بھلائی کے آثار دیکھ چکے تھے اور یہ جان چکے تھے کہ وہ حق اور خیر کو پسند کرتے ہیں ، آپ کے صدق وصلاح سے واقف ہیں۔
پھر آپ نے جنہیں اسلام کی دعوت دی ان میں سے ایک ایسی جماعت نے جسے کبھی بھی رسول اللہﷺ کی عظمت ، جلالتِ نفس اور سچائی پر شبہ نہ گزرا تھا، آپ کی دعوت قبول کر لی۔ یہ اسلامی تاریخ میں سابقین اولین کے وصف سے مشہور ہیں۔ ان میں سر فہرست آپ کی بیوی اُم المومنین حضرت خدیجہ ؓ بنت خویلد ، آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ بن شراحیل کلبی 1، آپ کے چچیرے بھائی حضرت علی بن ابی طالب، جو ابھی آپ کے زیر کفالت بچے تھے اور آپ کے یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ سب کے سب پہلے ہی دن مسلمان ہوگئے تھے۔ اس کے بعد ابو بکرؓ اسلام کی تبلیغ میں سرگرم ہوگئے۔ وہ بڑے ہر دلعزیزنرم خُو، پسندیدہ خصال کے حامل بااخلاق اور دریادل تھے ، ان کے پاس ان کی مروت ،دور اندیشی ، تجارت اور حسن صحبت کی وجہ سے لوگوں کی آمد ورفت لگی رہتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے پاس آنے والوں اور اٹھنے بیٹھنے والوں میں سے جس کو قابلِ اعتماد پایا اسے اب اسلام کی دعوت دینی شروع کردی۔ ان کی کوشش سے حضرت عثمان ؓ، حضرت زبیر ؓ، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ مسلمان ہوئے۔ یہ بزرگ اسلام کا ہر اوَل دستہ تھے۔
ان کے بعد امینِ امت حضرت ابوعبیدہ ؓ عامر بن جراح ؓ ، ابوسلمہ بن عبد الاسد مخزومی ، ان کی بیوی ام سلمہ، ارقم بن ابی الارقم مخزومی ، عثمان بن مظعون اور ان کے دونوں بھائی قدامہ اور عبداللہ ، اور عبیدہ بن حارث بن مطلب بن عبدمناف ، سعید بن زید عدوی ، اور ان کی بیوی، یعنی حضرت عمر ؓ کی بہن فاطمہ بنت خطاب عدویہ ، اور خباب بن اَرت تمیمی ، جعفر بن ابی طالب اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس ، خالد بن سعید بن عاص اموی ، ان کی بیوی امینہ بنت خلف، اور ان کے بھائی عمرو بن سعید بن عاص ، حاطب بن حارث جحمی ، ان کی بیوی فاطمہ بنت مجلل ، اور ان کے بھائی حطاب بن حارث ، اور ان کی بیوی فکیہہ بنت یسار ، اور ان کے ایک اور بھائی معمر بن حارث ، مطلب بن ازہر زہری اور ان کی بیوی رملہ بنت ابی عوف ، اور نعیم بن عبد اللہ بن نحام عدوی مسلمان ہوئے۔ یہ سب قبیلہ قریش کے مختلف خاندانوں اور شاخوں سے تعلق رکھتے تھے۔
قریش کے باہر سے جولوگ پہلے پہل اسلام لائے ان میں سر فہرست یہ ہیں : عبد اللہ بن مسعود ہذلی ، مسعود بن ربیعہ قاری ، عبد اللہ بن جحش اسدی ، ان کے بھائی احمد بن جحش ، بلال بن رباح حبشی ،صہیب بن سنان رومی ، عمار بن یاسر عنسی ، ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ ، اور عامر بن فہیرہ۔
عورتوں میں مذکورہ عورتوں کے علاوہ جو پہلے پہل اسلام لے آئیں ان کے نام یہ ہیں: أم ایمن برکۃ حبشیہ، حضرت عباس بن عبد المطلب کی بیوی أم الفضل لبابہ الکبریٰ بنت حارث ہلالیہ ، اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صاحبزادی حضرت اسماء۔ (سیرت ابن ہشام ۱/۲۴۵-۲۶۲، ابن ہشام)
یہ سب سابقین اولین کے لقب سے معروف ہیں۔ تلاش وجستجو سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ اسلام کی طرف سبقت کرنے کے وصف سے موصوف کیے گئے ہیں ان کی تعداد مردوں اور عورتوں کو ملا کر ایک سو تیس تک پہنچ جاتی ہے، لیکن یہ بات پورے تیقن کے ساتھ نہیں معلوم ہوسکی کہ یہ سب کھلی دعوت وتبلیغ سے پہلے اسلام لائے یا بعض لوگ اس سے متاخر بھی ہوئے تھے۔
ادھر سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات کے بعد وحی کی آمد پورے تسلسل اور گرم رفتاری کے ساتھ جاری تھی۔ اس دور میں چھوٹی چھوٹی آیتیں نازل ہورہی تھیں۔ ان آیتوں کا خاتمہ یکساں قسم کے بڑے پرُ کشش الفاظ پر ہوتا تھا اور ان میں بڑی سکون بخش اور جاذب قلب نغمگی ہوتی تھی۔ جو اس پر سکون اور رِقت آمیز فضا کے عین مطابق ہوتی تھی پھر ان آیتوں میں تزکیہ نفس کی خوبیاں اور آلائش دنیا میں لت پت ہونے کی برائیاں بیان کی جاتی تھیں اور جنت وجہنم کا نقشہ اس طرح کھینچا جاتا تھا کہ گویا وہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔ یہ آیتیں اہل ایمان کو اس وقت کے انسانی معاشرے سے بالکل الگ ایک دوسری ہی فضا کی سیر کراتی تھیں۔
ابتدائً جو کچھ نازل ہوا اسی میں نماز کا حکم بھی تھا۔ علامہ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اور اسی طرح آپ کے صحابہ کرامؓ واقعۂ معراج سے پہلے قطعی طور پر نماز پڑھتے تھے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ نماز پنجگانہ سے پہلے کوئی نماز فرض تھی یا نہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے پہلے ایک ایک نماز فرض تھی۔
حارث بن اسامہ نے ابن لَہِیْعَہ کے طریق سے موصولاً حضرت زید بن حارثہؓ سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ پر ابتدائً جب وحی آئی تو آپ کے پاس حضرت جبریل تشریف لا ئے اور آپ کو وضو کا طریقہ سکھایا۔ جب وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چُلّو پانی لے کر شرمگاہ پر چھینٹا مارا۔ ابن ماجہ نے بھی اس مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ براء بن عازبؓ اور ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ ابن عباس ؓ کی حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ یہ (نماز) اولین فرائض میں سے تھی۔ (مختصر السیرۃ از شیخ عبد اللہ ص ۸۸)
ابن ہشام کا بیان ہے کہ نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ نماز کے وقت گھاٹیوں میں چلے جاتے تھے اور اپنی قوم سے چھپ کر نماز پڑھتے تھے۔ ایک بار ابو طالب نے نبیﷺ اور حضرت علیؓ کو نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ پوچھا اور حقیقت معلوم ہوئی تو کہا کہ اس پر برقرار رہیں۔ (ابن ہشام ۱/۲۴۷)
یہ عبادت تھی جس کا اہل ایمان کو حکم دیا گیا تھا۔ اس وقت نماز کے علاوہ اور کسی بات کے حکم کا پتہ نہیں چلتا۔
البتہ وحی کے ذریعے توحید کے مختلف گوشے بیان کیے جاتے تھے ، تزکیۂ نفس کی رغبت دلائی جاتی تھی۔ مکارم اخلاق پر ابھارا جاتا تھا۔ ایسے بلیغ وعظ ہوتے تھے جن سے سینے کھل جاتے تھے۔ روحیں آسودہ ہوجاتیں ۔
یوں تین برس گزر گئے اور دعوت وتبلیغ کا کام صرف افراد تک محدود رہا۔ مجمعوں اور مجلسوں میں اس کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن اس دوران وہ قریش کے اندر خاصی معروف ہوگئی ، مکہ میں اسلام کا ذکر پھیل گیا اور لوگوں میں اس کا چرچا ہوگیا۔ بعض نے کسی کسی وقت نکیر بھی کی اور بعض اہل ایمان پر سختی بھی ہوئی لیکن مجموعی طور پر اس دعوت کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ کیونکہ رسول اللہﷺ نے بھی ان کے دین سے کوئی تعرض نہیں کیا تھا۔ نہ ان کے معبودوں کے بارے میں زبان کھولی تھی۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔