مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی شخصیت شاید کسی تعارف کی محتاج نہیں، تحریک ختم نبوت 1953 کے روح رواں تھے، ایسے مقرر و خطیب کے ہندو، عیسائی بھی ساری ساری رات بیٹھ کر انکی تقریر سنتے رہتے، شورش کشمیری جیسی بڑی بڑی شخصیات انکے حلقہ درس سے نکلیں. انگریز دور کے راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کرنل ہاورڈ اپنی کتا ب میں ان کے متعلق لکھتا ہے۔
"جن سیاسی قیدیوں نے مجھے اثنائے ملازمت بہت متاثر کیا، ان میں عطااللہ شاہ بخاری نام کا ایک سیاسی قیدی بڑی ہی دلفریب شخصیت کا مالک تھا،
اس کا چہرہ مہرہ چرچ کے ان مقدس راہبوں کی طرح تھا جن کی تصویر یسوس مسیح سے مشابہ ہوتی ہے، ان مستشرقین کی طرح جنہیں یورپ میں خاصی عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ہم اسے عرب کے بڑے بڑے قاموسیوں سے بھی تشبیہہ دے سکتے ہیں ۔ ۔
میں اسے دوست بنانا چاہتا تھا لیکن ہمارے درمیان سب سے بڑی روک ہماری مختلف زبانیں تھیں۔
میں تو اس کی زبان کچھ نہ کچھ سمجھ ہی لیتا تھا، لیکن وہ انگریزی سے قطعا ناواقف تھے، وہ 1857 کی اس اینٹی برٹش باقیات میں سے تھا جنہیں ہمارے پیشروؤں نے پھانسی دے کر پیداکیا تھا"۔
(ہندوستان کی یادیں)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔