Sunday 25 January 2015

قریش کی محاز آرائی کی پہلی صورت


یہ قرار داد طے پاچکی تو اسے جامۂ عمل پہنانے کی کارروائی شروع ہوئی کچھ کفارِ مکہ عازمین حج کے مختلف راستوں پر بیٹھ گئے اور وہاں سے ہر گزرنے والے کو آپ کے ''خطرے'' سے آگاہ کرتے ہوئے آپ کے متعلق تفصیلات بتانے لگے۔ (ابن ہشام ۱/۲۷۱)
جہاں تک رسول اللہﷺ کا تعلق ہے تو آپ حج کے ایام میں لوگوں کے ڈیروں اور عُکاظ، مجنہ اور ذو المجازکے بازاروں میں تشریف لے جاتے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے۔ ادھر ابولہب آپ کے پیچھے پیچھے لگا رہتا اور کہتا کہ اس کی بات نہ ماننا یہ جھوٹا بددین ہے۔ (مسند احمد ۳/۴۹۲، ۴/۳۴۱ میں اس کی یہ حرکت مروی ہے۔ نیز دیکھئے: البدایۃ والنہایۃ ۵/۷۵ ، کنزل العمال ۱۲/۴۴۹، ۴۵۰)
اس دوڑ دھوپ کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اس حج سے اپنے گھروں کو واپس ہوئے تو ان کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی ٔنبوت کیا ہے اور یوں ان کے ذریعے پورے دیارِ عرب میں آپ کا چرچا پھیل گیا۔
جب قریش نے دیکھا کہ محمدﷺ کو تبلیغ دین سے روکنے کی حکمت کار گر نہیں ہورہی ہے تو ایک بار پھر انہوں نے غور وخوض کیا اور آپ کی دعوت کا قلع قمع کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جن کا خلاصہ یہ ہے۔
ہنسی ، ٹھٹھا ، تحقیر ، استہزا ، اور تکذیب:... اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو بددل کر کے ان کے حوصلے توڑ دیئے جائیں۔ اس کے لیے مشرکین نے نبیﷺ کو نارواتہمتوں اور بیہودہ گالیوں کا نشانہ بنا یا۔
چنانچہ وہ کبھی آپ کو پاگل کہتے، جیسا کہ ارشاد ہے :
وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ‌ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ (۱۵: ۶)
''ان کفار نے کہا کہ اے وہ شخص جس پر قرآن نازل ہوا تو یقینا پاگل ہے۔''
اور کبھی آپ پر جادو گر اور جھُوٹے ہونے کا الزام لگاتے۔چنانچہ ارشاد ہے :
وَعَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ‌ مِّنْهُمْ ۖ وَقَالَ الْكَافِرُ‌ونَ هَـٰذَا سَاحِرٌ‌ كَذَّابٌ (۳۸: ۴)
''انہیں حیرت ہے کہ خود انہیں میں سے ایک ڈرانے والا آیا اور کافرین کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے جھوٹا ہے۔''
یہ کفار آپ کے آگے پیچھے پُر غضب ،منتقمانہ نگاہوں اور بھڑکتے ہوئے جذبات کے ساتھ چلتے تھے۔
وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِ‌هِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ‌ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ (۶۸: ۵۱)
''اور جب کفار اس قرآن کو سنتے ہیں تو آپ کو ایسی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ گویا آپ کے قدم اکھاڑدیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ یقینا ً پاگل ہے۔''
اور جب آپ کسی جگہ تشریف فرما ہوتے اور آپ کے ارد گرد کمزور اور مظلوم صحابہ کرام ؓ موجود ہوتے تو انہیں دیکھ کر مشرکین استہزاء کرتے ہو ئے کہتے :
أَهَـٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا (۶: ۵۳)
''اچھا ! یہی حضرات ہیں جن پر اللہ نے ہمارے درمیان سے احسان فرمایا ہے ؟''
جواباً اللہ کا ارشاد ہے :
أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِ‌ينَ (۶: ۵۳)
''کیا اللہ شکر گزاروں کو سب سے زیادہ نہیں جانتا۔''
عام طور پر مشرکین کی کیفیت وہی تھی جس کا نقشہ ذیل کی آیات میں کھینچا گیا ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَ‌مُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ ﴿٢٩﴾ وَإِذَا مَرُّ‌وا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ ﴿٣٠﴾ وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمُ انقَلَبُوا فَكِهِينَ ﴿٣١﴾ وَإِذَا رَ‌أَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ لَضَالُّونَ ﴿٣٢﴾ وَمَا أُرْ‌سِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ ﴿٣٣﴾ (۸۳: ۲۹تا۳۳)
''جو مجرم تھے وہ ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ اورجب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں مارتے تھے اور جب اپنے گھروں کو پلٹتے تو لُطف اندوز ہوتے ہوئے پلٹتے تھے اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے کہ یہی گمراہ ہیں۔ حالانکہ وہ ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔''
انہوں نے سخریہ اور استہزاء کی بڑی کثرت کی اور طعن وتضحیک میں رفتہ رفتہ آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کی طبیعت پر اس کا اثر پڑا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُ‌كَ بِمَا يَقُولُونَ (۱۵: ۹۷)
''ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں اس سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے۔''
لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثبات قدمی عطا فرمائی اور بتلایا کہ سینے کی یہ تنگی کس طرح جاسکتی ہے چنانچہ فرمایا:
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَ‌بِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿٩٨﴾ وَاعْبُدْ رَ‌بَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ﴿٩٩﴾ (۱۵:۹۸،۹۹)
یعنی''اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور سجدہ گزاروں میں سے ہو جاؤ اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے جاؤ یہاں تک کہ موت آجائے۔''
اور اس سے پہلے یہ بھی بتلادیا کہ ان استہزاء کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ چنانچہ فرمایا :
إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ﴿٩٥﴾ الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ‌ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (الحجر: ۹۵، ۹۶)
''ہم آپ کے لیے استہزاء کرنے والوں سے (نمٹنے کو) کافی ہیں جوا للہ کے ساتھ دوسرے کو معبود ٹھہراتے ہیں ، انہیں جلد ہی معلوم ہوجائے گا۔''
اللہ نے یہ بھی بتلایا کہ ان کا یہ فعل جلد ہی وبال بن کر ان پر پلٹے گا۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُ‌سُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُ‌وا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (الانعام :۱۰ ۔ الانبیاء :۴۱ )
''آپ سے پہلے پیغمبروں سے بھی استہزاء کیا گیا۔ توا ن کی ہنسی اڑانے والے جو استہزاء کر رہے تھے اس نے انہیں کو گھیر لیا۔''

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔