نبی کریم ﷺ نے مدینہ آتے ھی مدینے کے انصار اور مہاجرین کے درمیاں مواخات یا بھائی چارہ قائم کیا اور یہود کے مخلتف قبائل کے ساتھ معاہدے کر کے مدینے کا ایک 51 شقوں پر مبنی میثاقِ مدینہ لکھا ،جو مدینے کا ایک آئینی ڈھانچہ تھا جس میں تمام شہریوں کے حقوق متعین کیئے گئے تھے ! یہ دنیا کا پہلا مکمل تحریری آئین تھا ! باقی جو بھی آئین بیان کیئے جاتے ھیں ان میں صرف بادشاھوں کے حقوق بیان کیئے گئے ھیں،،شہریوں اور ریاست کے حقوق و فرائض کا تعین نہیں کیا گیا !
یہود کی سیرت و فطرت جو قرآن نے سورہ البقرہ سے شروع کر کے پورے قرآن میں جگہ جگہ بیان کی ھے وہ غداری و بد عہدی کی شرمناک داستان ھے جو انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ بھی بار بار کی جبکہ ان پر ایمان بھی رکھتے تھے اور ان کے معجزوں کا کمایا کھا بھی رھے تھے،طعن تشنیع بھی کرتے جا رھے تھے یہانتک کہ جب انہیں بیت المقدس میں داخل ھونے کے لئے آگے بڑھنے کو کہا گیا تو انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ " اِذھب انت و ربک فقاتلا انا ھٰھنا قاعدون،، جا تو اور تیرا خدا جا کے لڑ لو ھم یہاں بیٹھے ھیں، جب اس جسارت پر چالیس سال کی قید ملی تو من و سلوی نازل ھوا ،مگر ان کے نخرے دیکھنے والے تھے،،یوں فرمائشیں کر رھے تھے اور کھانے پر اعتراض بھی ھو رھے ھیں اور ساتھ اس ادا کے ساتھ کہ " اپنے رب سے مانگ، اے موسی اپنے رب کو یہ کہہ" گویا اللہ صرف موسی کا رب تھا ان کا تو کچھ لگتا ھی نہیں تھا ! نبیوں کو نبی مان کر قتل کرنا ان کے کارناموں میں شامل ھے !
مدینہ میں بھی یہ مسلسل کوشش کرتے رھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کسی طرح قتل کر دیں یا قتل کرا دیں،، اس کے لئے وہ مکے والوں سے بھی گٹھ جوڑ کرتے رھے اور منافقین کو بھی بڑھاوا دیتے رھے،، بنو نضیر جو سنار کا کام کرتے تھے اور پورے محلے میں سنار کی دکانیں تھیں ، ایک مسلمان پردہ دار خاتون سونے کی خریداری کے لئے ایک سنار کی دکان میں داخل ھوئی ،خریداری کے دوارن ایک اوباش یہودی نے اس خاتون کی چادر کو کسی چیز سے باندھ دیا،جونہی خاتون اٹھ کر چلی تو اس کی چادر کھنچ کر اتر گئ جس سے وہ بےحجاب ھو گئ،، اس نے شور مچا دیا اور یہودی کو برا بھلا کہنا شروع کیا،، بازار میں سے ایک مسلمان گزر رھا تھا اس نے عورت سے صورتحال پوچھ کر اس یہودی کو قتل کر دیا،، یہود کا محلہ تھا یہود نے اس نوجوان کو قتل کر دیا،، بات نبی کریمﷺ تک پہنچی تو آپ نے یہود کو پیغام بھیجا کہ تمہارے آدمی نے تو اپنے کیئے کی سزا پائی ھے،کیونکہ اس نے ایک مسلمان عورت کی عصمت پر ھاتھ ڈالا تھا،جب کہ تم نے مسلمان کو ناحق قتل کیا ھے اس کا خون بہا ادا کیا جائے،، یہود نے سازش کر کے آپ کو پیغام بھیجا کہ آپ تشریف لایئے اور خون بہا لے جایئے ،، جب آپ خون بہا لینے گئے تو انہوں نے آپ کو ایک مکان کی دیوار کے ساتھ بٹھا دیا اور اپنے ایک آدمی کو چھت پر بھیجا کہ وہ آپﷺ پر وہ وزنی پتھر گرا د ے جو اسی مقصد کے لئے چھت پر پہنچا دیا گیا تھا،، اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو فوراً اٹھ کر چل دینے کو کہا اور بتایا کہ آپ کو شہید کرنے کی سازش کی گئ تھی ! واپس آ کر آپ نے یہود کو پیغام بھیجا کہ تم نے مجھے قتل کرنے کی سازش کی تھی لہذا مدینے سے نکل جاؤ ! انہوں نے جواباً بد تمیزی کی اور جنگ کا عندیہ دیا،، ان کا محاصرہ کیا گیا اور جب مغلوب ھو گئے تو عبداللہ ابن ابی کے اصرار پر آپ نے انہیں جو کچھ وہ لے جا سکتے تھے لے جانے کی اجازت دے دی اور مدینہ بدر کر دیا۔
غزوہ خندق میں 24 ھزار کفار کے مقابلے میں 3 ھزار محصور مسلمان تھے، اس دوران بنو قریظہ نے اندر سے مسلمانوں پر وار کرنے کا منصوبہ بنایا اور جہاں خواتین اور بچوں کو رکھا گیا تھا اس حویلی پر حملہ کرنے کا پلان بنایا تا کہ جونہی مسلمانوں کی توجہ بٹے باھر سے لشکر کو مدینے میں داخلے کا موقع مل جائے،مگر ریکی کے دوران ان کے مخبر کو حضرت صفیہ نے قتل کر دیا ،جس پر وہ دھشت زدہ ھو گئے کہ شاید یہاں بھی مسلمانوں کی جمیعت عورتوں کی حفاظت پر مامور ھے،حالانکہ وھاں مردوں میں سے صرف حضرت حسان بن ثابتؓ ھی تھے جو کہ لڑائی بھڑائی کے بندے ھی نہ تھے ! غزوہ الاحزاب یا جنگ خندق میں کفار کی ناکامی کے بعد نبی کریمﷺ اپنا جنگی لباس اتار رھے تھے کہ جبریل تشریف لائے اور فرمایا کہ آپﷺ اپنا جنگی لباس اتار رھے ھیں جبکہ ھمیں اس کی اجازت نہیں دی گئ بلکہ بنو قریظہ کی طرف چلنے کو کہا گیا ھے،، آپﷺ نے بھی صحابہ میں اعلان کر دیا کہ اسی حال میں بنوقریظہ کی طرف کوچ کرو ! بنو قریظہ کا محاصرہ کر لیا گیا، 25 دن کے محاصرے کے بعد یہود نے مطالبہ کیا کہ انہیں بھی بنو نضیر کی طرح کہیں چلے جانے کی اجازت دی جائے !
مگر حضورﷺ نے یہ منظور نہ کیا ! اب انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کا فیصلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کو سونپ دیا جائے جو کہ بنو قریظہ کے قبل اسلام حلیف تھے ! آپ ﷺ نے یہ درخواست منظور کر کے ان کا معاملہ سعد بن معاذؓ کو سونپ دیا،، سعد بن معاذؓ نے فیصلہ دیا کہ ان کے قابلِ جنگ مردوں کو قتل کر دیا جائے،، جس پر عمل درآمد کیا گیا۔
اصولاً یہ فیصلہ حضورﷺ نے کیا ھی نہیں تھا بلکہ بنو قریظہ کے اپنے منتخب کردہ ثالث کا فیصلہ تھا جو ان کو رھا بھی کر سکتے تھے اور ملک بدر بھی،،مگر حقیقت یہ ھے کہ یہ آسمانی فیصلہ تھا جو کہ ٹھیک اللہ کی سنت کے مطابق تھا جو وہ اپنے رسولوں کے معاملے میں اختیار کرتا ھے ! رسول کی موجودگی میں اللہ کی عدالت ! تمام رسولوں کے معاملے اللہ کی اپنی سنت ھے، جبکہ نبیوں کے معاملے الگ طریقہ کار ھے، رسول اللہ کی عدالت بن کر تشریف لاتے ھیں جو موقعے پر فیصلہ سناتی ھے،الحشر سے یہی مراد ھے، اور لاول الحشر سے مراد بڑے حشر سے پہلے زمین پر حشر بپا کرنا ھے، رسول کے معاملے میں زمین پر سنایا گیا فیصلہ حتمی ھوتا ھے اور سزا فوری شروع ھو جاتی ھے قیامت کے دن ان کا کیس ری اوپن نہیں ھو گا ،جبکہ عام کافروں کا معاملہ قیامت کو چکایا جائے گا،قران نے مختلف انداز مین اس بات کو جگہ جگہ واضح کیا ھے،، اولئک الذین کفروا بآیاتِ ربھم ولقائہ فحبطت اعمالھم فلا نقیم لھم یوم القیامۃ وزناً - ذالک جزاءھم جہنم بما کفروا واتخذوا آیاتی و رسلی ھزواً ( الکہف 106 ) اسی طرح فرعون کے بارے میں فرمایا کہ اس کا آگ کا عذاب شروع ھو چکا ھے،، و حاق بآل فرعون سوء العذاب ، النار یعرضون علیہا غدواً و عشیاً،، ( المومن 46 )
اسی طرح رسول کے ساتھ شہادت پانے والوں کی جنت کا فیصلہ اور اس پر عمل درآمد فوری شروع ھو جاتا ھے ! رسول کے ساتھ جو لوگ ھوتے ھیں اگرچہ وہ ان کے ماننے والے ھی کیوں نہ ھوں ان کے اعمال کا اجر بھی زیادہ ھوتا اور سزا بھی فوری اور سخت ھوتی ھے ! غزوہ اُحد میں چند آدمیوں کے اپنے کمانڈر کی حکم عدولی کرنے پر اللہ کا یہی ضابطہ حرکت میں آیا اور 70 آدمی شہید ھو گئے حالانکہ اللہ پاک نے فتح کا وعدہ کیا ھوا تھا،جب یہ واقعہ ھو گیا تو لوگوں نے یہی کہا کہ جب ھم اللہ کے رسول کے ساتھ کھڑے تھے اور اللہ کی نصرت ھمارے ساتھ تھی اور 5000 فرشتے ھماری مدد کو تیار تھے تو پھر یہ کیا ھو گیا اور کیوں ھو گیا،، اللہ نے جواب دیا کہ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تھا اور تم ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رھے تھے کہ پھر تم نے خود اپنے کمانڈر کی حکم عدولی کی اور نظم کی پابندی میں فیل ھو گئے تو تم نے فتح و مالِ غنیمت دیکھ کر حکم عدولی کی،۔
جب اللہ پاک نے مخلصیں کی ذرا سی لغزش کا بھی اتنا سخت نوٹس لیا تو بھلا غدار بنو قریظہ کو وہ کیسے نظر انداز کر دیتا اور معاف کر دیتا ! یہی سنت آپ کو موسی علیہ السلام کے معاملے میں نظر آئے گی کہ دشمنوں میں آل فرعون کو لاکھوں کی تعداد میں اگر ڈبو دیا تو شرک کے ارتکاب پر بنی اسرائیل کی زبانی توبہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ پوری رات آپس میں ایک دوسرے کو مارتے رھیں صبح جو بچ جائیں گے ان کو بھی بخش دیا جائے گا اور جو مر جائیں گے ان کو بھی بخش دیا جائے گا یوں 60 ھزار یہود ایک رات میں قتل ھوئے۔ ! مختصر خلاصہ یہ ھے کہ :
1. بنو قریظہ نے مدینے سے غداری کی۔
2. نہ صرف مدینے کے دفاع میں حصہ نہ لیا بلکہ مسلمانوں کے کمزور محاذ پر اندر سے وار کر کے آئین کے ساتھ بھی غداری کی ۔
3. اس غداری کی سزا کا انتخاب خود انہوں نے کیا ۔
4. نبئ رحمت کے ھاتھ سے اپنا معاملہ لے کر سعد بن معاذ کے ھاتھ میں دے دینا ان کا اقدامِ خود کشی تھا،، اللہ کی مشیئت نے یہ داغ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن پر نہیں لگنے دیا !
تحریر قاری حنیف ڈار
یہود کی سیرت و فطرت جو قرآن نے سورہ البقرہ سے شروع کر کے پورے قرآن میں جگہ جگہ بیان کی ھے وہ غداری و بد عہدی کی شرمناک داستان ھے جو انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ بھی بار بار کی جبکہ ان پر ایمان بھی رکھتے تھے اور ان کے معجزوں کا کمایا کھا بھی رھے تھے،طعن تشنیع بھی کرتے جا رھے تھے یہانتک کہ جب انہیں بیت المقدس میں داخل ھونے کے لئے آگے بڑھنے کو کہا گیا تو انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ " اِذھب انت و ربک فقاتلا انا ھٰھنا قاعدون،، جا تو اور تیرا خدا جا کے لڑ لو ھم یہاں بیٹھے ھیں، جب اس جسارت پر چالیس سال کی قید ملی تو من و سلوی نازل ھوا ،مگر ان کے نخرے دیکھنے والے تھے،،یوں فرمائشیں کر رھے تھے اور کھانے پر اعتراض بھی ھو رھے ھیں اور ساتھ اس ادا کے ساتھ کہ " اپنے رب سے مانگ، اے موسی اپنے رب کو یہ کہہ" گویا اللہ صرف موسی کا رب تھا ان کا تو کچھ لگتا ھی نہیں تھا ! نبیوں کو نبی مان کر قتل کرنا ان کے کارناموں میں شامل ھے !
مدینہ میں بھی یہ مسلسل کوشش کرتے رھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کسی طرح قتل کر دیں یا قتل کرا دیں،، اس کے لئے وہ مکے والوں سے بھی گٹھ جوڑ کرتے رھے اور منافقین کو بھی بڑھاوا دیتے رھے،، بنو نضیر جو سنار کا کام کرتے تھے اور پورے محلے میں سنار کی دکانیں تھیں ، ایک مسلمان پردہ دار خاتون سونے کی خریداری کے لئے ایک سنار کی دکان میں داخل ھوئی ،خریداری کے دوارن ایک اوباش یہودی نے اس خاتون کی چادر کو کسی چیز سے باندھ دیا،جونہی خاتون اٹھ کر چلی تو اس کی چادر کھنچ کر اتر گئ جس سے وہ بےحجاب ھو گئ،، اس نے شور مچا دیا اور یہودی کو برا بھلا کہنا شروع کیا،، بازار میں سے ایک مسلمان گزر رھا تھا اس نے عورت سے صورتحال پوچھ کر اس یہودی کو قتل کر دیا،، یہود کا محلہ تھا یہود نے اس نوجوان کو قتل کر دیا،، بات نبی کریمﷺ تک پہنچی تو آپ نے یہود کو پیغام بھیجا کہ تمہارے آدمی نے تو اپنے کیئے کی سزا پائی ھے،کیونکہ اس نے ایک مسلمان عورت کی عصمت پر ھاتھ ڈالا تھا،جب کہ تم نے مسلمان کو ناحق قتل کیا ھے اس کا خون بہا ادا کیا جائے،، یہود نے سازش کر کے آپ کو پیغام بھیجا کہ آپ تشریف لایئے اور خون بہا لے جایئے ،، جب آپ خون بہا لینے گئے تو انہوں نے آپ کو ایک مکان کی دیوار کے ساتھ بٹھا دیا اور اپنے ایک آدمی کو چھت پر بھیجا کہ وہ آپﷺ پر وہ وزنی پتھر گرا د ے جو اسی مقصد کے لئے چھت پر پہنچا دیا گیا تھا،، اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو فوراً اٹھ کر چل دینے کو کہا اور بتایا کہ آپ کو شہید کرنے کی سازش کی گئ تھی ! واپس آ کر آپ نے یہود کو پیغام بھیجا کہ تم نے مجھے قتل کرنے کی سازش کی تھی لہذا مدینے سے نکل جاؤ ! انہوں نے جواباً بد تمیزی کی اور جنگ کا عندیہ دیا،، ان کا محاصرہ کیا گیا اور جب مغلوب ھو گئے تو عبداللہ ابن ابی کے اصرار پر آپ نے انہیں جو کچھ وہ لے جا سکتے تھے لے جانے کی اجازت دے دی اور مدینہ بدر کر دیا۔
غزوہ خندق میں 24 ھزار کفار کے مقابلے میں 3 ھزار محصور مسلمان تھے، اس دوران بنو قریظہ نے اندر سے مسلمانوں پر وار کرنے کا منصوبہ بنایا اور جہاں خواتین اور بچوں کو رکھا گیا تھا اس حویلی پر حملہ کرنے کا پلان بنایا تا کہ جونہی مسلمانوں کی توجہ بٹے باھر سے لشکر کو مدینے میں داخلے کا موقع مل جائے،مگر ریکی کے دوران ان کے مخبر کو حضرت صفیہ نے قتل کر دیا ،جس پر وہ دھشت زدہ ھو گئے کہ شاید یہاں بھی مسلمانوں کی جمیعت عورتوں کی حفاظت پر مامور ھے،حالانکہ وھاں مردوں میں سے صرف حضرت حسان بن ثابتؓ ھی تھے جو کہ لڑائی بھڑائی کے بندے ھی نہ تھے ! غزوہ الاحزاب یا جنگ خندق میں کفار کی ناکامی کے بعد نبی کریمﷺ اپنا جنگی لباس اتار رھے تھے کہ جبریل تشریف لائے اور فرمایا کہ آپﷺ اپنا جنگی لباس اتار رھے ھیں جبکہ ھمیں اس کی اجازت نہیں دی گئ بلکہ بنو قریظہ کی طرف چلنے کو کہا گیا ھے،، آپﷺ نے بھی صحابہ میں اعلان کر دیا کہ اسی حال میں بنوقریظہ کی طرف کوچ کرو ! بنو قریظہ کا محاصرہ کر لیا گیا، 25 دن کے محاصرے کے بعد یہود نے مطالبہ کیا کہ انہیں بھی بنو نضیر کی طرح کہیں چلے جانے کی اجازت دی جائے !
مگر حضورﷺ نے یہ منظور نہ کیا ! اب انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کا فیصلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کو سونپ دیا جائے جو کہ بنو قریظہ کے قبل اسلام حلیف تھے ! آپ ﷺ نے یہ درخواست منظور کر کے ان کا معاملہ سعد بن معاذؓ کو سونپ دیا،، سعد بن معاذؓ نے فیصلہ دیا کہ ان کے قابلِ جنگ مردوں کو قتل کر دیا جائے،، جس پر عمل درآمد کیا گیا۔
اصولاً یہ فیصلہ حضورﷺ نے کیا ھی نہیں تھا بلکہ بنو قریظہ کے اپنے منتخب کردہ ثالث کا فیصلہ تھا جو ان کو رھا بھی کر سکتے تھے اور ملک بدر بھی،،مگر حقیقت یہ ھے کہ یہ آسمانی فیصلہ تھا جو کہ ٹھیک اللہ کی سنت کے مطابق تھا جو وہ اپنے رسولوں کے معاملے میں اختیار کرتا ھے ! رسول کی موجودگی میں اللہ کی عدالت ! تمام رسولوں کے معاملے اللہ کی اپنی سنت ھے، جبکہ نبیوں کے معاملے الگ طریقہ کار ھے، رسول اللہ کی عدالت بن کر تشریف لاتے ھیں جو موقعے پر فیصلہ سناتی ھے،الحشر سے یہی مراد ھے، اور لاول الحشر سے مراد بڑے حشر سے پہلے زمین پر حشر بپا کرنا ھے، رسول کے معاملے میں زمین پر سنایا گیا فیصلہ حتمی ھوتا ھے اور سزا فوری شروع ھو جاتی ھے قیامت کے دن ان کا کیس ری اوپن نہیں ھو گا ،جبکہ عام کافروں کا معاملہ قیامت کو چکایا جائے گا،قران نے مختلف انداز مین اس بات کو جگہ جگہ واضح کیا ھے،، اولئک الذین کفروا بآیاتِ ربھم ولقائہ فحبطت اعمالھم فلا نقیم لھم یوم القیامۃ وزناً - ذالک جزاءھم جہنم بما کفروا واتخذوا آیاتی و رسلی ھزواً ( الکہف 106 ) اسی طرح فرعون کے بارے میں فرمایا کہ اس کا آگ کا عذاب شروع ھو چکا ھے،، و حاق بآل فرعون سوء العذاب ، النار یعرضون علیہا غدواً و عشیاً،، ( المومن 46 )
اسی طرح رسول کے ساتھ شہادت پانے والوں کی جنت کا فیصلہ اور اس پر عمل درآمد فوری شروع ھو جاتا ھے ! رسول کے ساتھ جو لوگ ھوتے ھیں اگرچہ وہ ان کے ماننے والے ھی کیوں نہ ھوں ان کے اعمال کا اجر بھی زیادہ ھوتا اور سزا بھی فوری اور سخت ھوتی ھے ! غزوہ اُحد میں چند آدمیوں کے اپنے کمانڈر کی حکم عدولی کرنے پر اللہ کا یہی ضابطہ حرکت میں آیا اور 70 آدمی شہید ھو گئے حالانکہ اللہ پاک نے فتح کا وعدہ کیا ھوا تھا،جب یہ واقعہ ھو گیا تو لوگوں نے یہی کہا کہ جب ھم اللہ کے رسول کے ساتھ کھڑے تھے اور اللہ کی نصرت ھمارے ساتھ تھی اور 5000 فرشتے ھماری مدد کو تیار تھے تو پھر یہ کیا ھو گیا اور کیوں ھو گیا،، اللہ نے جواب دیا کہ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تھا اور تم ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رھے تھے کہ پھر تم نے خود اپنے کمانڈر کی حکم عدولی کی اور نظم کی پابندی میں فیل ھو گئے تو تم نے فتح و مالِ غنیمت دیکھ کر حکم عدولی کی،۔
جب اللہ پاک نے مخلصیں کی ذرا سی لغزش کا بھی اتنا سخت نوٹس لیا تو بھلا غدار بنو قریظہ کو وہ کیسے نظر انداز کر دیتا اور معاف کر دیتا ! یہی سنت آپ کو موسی علیہ السلام کے معاملے میں نظر آئے گی کہ دشمنوں میں آل فرعون کو لاکھوں کی تعداد میں اگر ڈبو دیا تو شرک کے ارتکاب پر بنی اسرائیل کی زبانی توبہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ پوری رات آپس میں ایک دوسرے کو مارتے رھیں صبح جو بچ جائیں گے ان کو بھی بخش دیا جائے گا اور جو مر جائیں گے ان کو بھی بخش دیا جائے گا یوں 60 ھزار یہود ایک رات میں قتل ھوئے۔ ! مختصر خلاصہ یہ ھے کہ :
1. بنو قریظہ نے مدینے سے غداری کی۔
2. نہ صرف مدینے کے دفاع میں حصہ نہ لیا بلکہ مسلمانوں کے کمزور محاذ پر اندر سے وار کر کے آئین کے ساتھ بھی غداری کی ۔
3. اس غداری کی سزا کا انتخاب خود انہوں نے کیا ۔
4. نبئ رحمت کے ھاتھ سے اپنا معاملہ لے کر سعد بن معاذ کے ھاتھ میں دے دینا ان کا اقدامِ خود کشی تھا،، اللہ کی مشیئت نے یہ داغ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن پر نہیں لگنے دیا !
تحریر قاری حنیف ڈار
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔