ولادت کے بعد سات روز تک ثویبہ (ابو لہب بن عبدالمطلب کی آزاد کردہ لونڈی تھیں) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ کو بھی ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا،اس لئے مسروق بن ثویبہ اورحضرت حمزہؓ دونوں آپ ؐ کے رضائی بھائی تھے،آٹھویں روزشرفائے عرب کے دستور کے موافق آپ صلی اللہ علیہ وسلم قوم ہوازن کے قبیلۂ بنی سعد کی ایک خاتون حلیمہ کے سپرد کئے گئے ۔
عرب کے شہری باشندوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو شہری امراض سے دور رکھنے کے لیے دودھ پلانے والی بدوِی عورتوں کے حوالے کردیا کرتے تھے تاکہ ان کے جسم طاقتور اور اعصاب مضبوط ہوں اور اپنے گہوارہ ہی سے خالص اور ٹھوس عربی زبان سیکھ لیں۔ اسی دستور کے مطابق عبد المطلب نے نبیﷺ کو حضرت حلیمہ بنت ابی ذُوَیب کے حوالے کیا۔ (زاد المعاد ۱/۱۹)
رضاعت کے دوران حضرت حلیمہ نے نبیﷺ کی برکت کے ایسے ایسے مناظر دیکھے کہ سراپا حیرت رہ گئیں۔ تفصیلات انہیں کی زبانی سنیے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت حلیمہ ؓ بیان کیا کرتی تھیں کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنا ایک چھوٹا سادودھ پیتا بچہ لے کر بنی سعد کی کچھ عورتوں کے قافلے میں اپنے شہر سے باہر دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں نکلیں۔ یہ قحط سالی کے دن تھے اورقحط نے کچھ باقی نہ چھوڑا تھا۔ میں اپنی ایک سفید گدھی پر سوار تھی اور ہمارے پاس ایک اونٹنی بھی تھی، لیکن واللہ ! اس سے ایک قطرہ دودھ نہ نکلتا تھا۔ اِدھر بھُوک سے بچہ اس قدر بِلکتا تھا کہ ہم رات بھر سو نہیں سکتے تھے، نہ میرے سینے میں بچہ کے لیے کچھ تھا اور نہ اونٹنی اس کی خوراک دے سکتی تھی۔ بس ہم بارش اور خوشحالی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ میں اپنی گدھی پر سوار ہوکر چلی تو وہ کمزوری اور دُبلے پن
کے سبب اتنی سست رفتار نکلی کہ پورا قافلہ تنگ آگیا۔ خیر ہم کسی نہ کسی طرح دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ پہنچ گئے۔ پھر ہم میں سے کوئی عورت ایسی نہیں تھی جس پر رسول اللہﷺ کو پیش نہ کیا گیا ہو مگر جب اسے بتایا جاتا کہ آپﷺ یتیم ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لینے سے انکار کر دیتی۔ کیونکہ ہم بچے کے والد سے داد ووہش کی امید رکھتے تھے۔
ہم کہتے کہ یہ تو یتیم ہے۔ بھلا اس کی بیوہ ماں اور اس کے دادا کیا دے سکتے ہیں ، بس یہی وجہ تھی کہ ہم آپ کو لینا نہیں چاہتے تھے۔
ادھر جتنی عورتیں میرے ہمراہ آئی تھیں سب کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیا صرف مجھ ہی کو نہ مل سکا۔ جب واپسی کی باری آئی تو میں نے اپنے شوہر سے کہا: اللہ کی قسم ! مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری ساری سہیلیاں تو بچے لے لے کر جائیں اور تنہا میں کوئی بچہ لیے بغیر واپس جاؤں۔ میں جاکر اسی یتیم بچے کو لے لیتی ہوں۔ شوہر نے کہا: کوئی حرج نہیں ! ممکن ہے اللہ اسی میں ہمارے لیے برکت دے۔ اس کے بعد میں نے جاکر بچہ لے لیا اور محض اس بناء پر لے لیا کہ کوئی اور بچہ نہ مل سکا۔
حضرت حلیمہؓ کہتی ہیں کہ جب میں بچے کو لے کر اپنے ڈیرے پر واپس آئی اور اسے اپنی آغوش میں رکھا تو اس نے جس قدر چاہا دونوں سینے دودھ کے ساتھ اس پر اُمنڈ پڑے اور اس نے شکم سیر ہوکر پیا۔ اس کے ساتھ اس کے بھائی نے بھی شکم سیر ہوکر پیا، پھر دونوں سوگئے۔ حالانکہ اس سے پہلے ہم اپنے بچے کے ساتھ سو نہیں سکتے تھے۔ ادھر میرے شوہر اونٹنی دوہنے گئے تو دیکھا کہ اس کا تھن دودھ سے لبریز ہے، انھوں نے اتنا دودھ دوہا کہ ہم دونوں نے نہایت آسودہ ہو کر پیا اور بڑے آرام سے رات گزاری۔ ان کا بیان ہے کہ صبح ہوئی تو میرے شوہر نے کہا : حلیمہ ! اللہ کی قسم ! تم نے ایک بابرکت روح حاصل کی ہے۔ میں نے کہا : مجھے بھی یہی توقع ہے۔
حلیمہؓ کہتی ہیں کہ اس کے بعد ہمارا قافلہ روانہ ہوا۔ میں اپنی اسی خستہ حال گدھی پر سوار ہوئی اور اس بچے کو بھی اپنے ساتھ لیا۔ لیکن اب وہی گدھی اللہ کی قسم! پورے قافلے کو کاٹ کر اس طرح آگے نکل گئی کہ کوئی گدھا اس کا ساتھ نہ پکڑ سکا۔ یہاں تک میری سہیلیاں مجھ سے کہنے لگیں: او ! ابو ذویب کی بیٹی ! ارے یہ کیا ہے ؟ ذرا ہم پر مہربانی کر۔ آخریہ تیری وہی گدھی تو ہے جس پر تُو سوار ہو کر آئی تھی ؟ میں کہتی : ہاں ہاں ! اللہ کی قسم یہ وہی ہے، وہ کہتیں۔ اس کا یقینا کوئی خاص معاملہ ہے۔
پھر ہم بنو سعدمیں اپنے گھروں کو آگئے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اللہ کی روئے زمین کا کوئی خطہ ہمارے علاقے سے زیادہ قحط زدہ تھا۔ لیکن ہماری واپسی کے بعد میری بکریاں چرنے جاتیں تو آسودہ حال اور دودھ سے بھرپور واپس آتیں۔ ہم دوہتے اور پیتے۔ جبکہ کسی اور انسان کو دودھ کا ایک قطرہ بھی نصیب نہ ہوتا۔ ان کے جانوروں کے تھنوں میں دودھ سرے سے رہتا ہی نہ تھا۔ حتیٰ کہ ہماری قوم کے شہری اپنے چرواہوں سے کہتے کہ کم بختو ! جانور وہیں چرانے لے جایا کرو جہاں ابو ذویب کی بیٹی کا چرواہا لے جاتا ہے...لیکن تب بھی ان کی بکریاں بھوکی واپس آتیں۔ ان کے اندر ایک قطرہ دودھ نہ رہتا، جبکہ میری بکریاں آسودہ اور دودھ سے بھر پور پلٹتیں۔ اس طرح ہم اللہ کی طرف سے مسلسل اضافے اور خیر کا مشاہدہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اس بچے کے دوسال پورے ہوگئے اور میں نے دودھ چھڑادیا۔ یہ بچہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں اس طرح بڑھ رہاتھا کہ دوسال پورے ہوتے ہوتے وہ کڑا اور گٹھیلا ہو چلا۔ اس کے بعد ہم اس بچے کو اس کی والدہ کے پاس لے گئے ، لیکن ہم اس کی جو برکت دیکھتے آئے تھے۔ اس کی وجہ سے ہماری انتہائی خواہش یہی تھی کہ وہ ہمارے پاس رہے۔ چنانچہ ہم نے اس کی ماں سے گفتگو کی۔ میں نے کہا : کیوں نہ آپ میرے بچے کو میرے پاس ہی رہنے دیں کہ ذرا مضبوط ہوجائے۔ کیونکہ مجھے اس کے متعلق مکہ کی وباء کا خطرہ ہے۔ غرض ہمارے مسلسل اصرار پر انھوں نے بچہ ہمیں واپس دے دیا۔
(ابن ہشام ۱/۱۶۲ ، ۱۶۳، ۱۶۴، تاریخ طبری ۲/۱۵۸ ، ۱۵۹، ابن حبان (مرتب ) ۸/۸۲-۸۴ ، ابن سعد ۱/۱۱۱ سب نے الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ ابن اسحاق کے طریق سے روایت کیا ہے۔)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔