اقوامِ عالم میں صرف مسلمان ہی وہ قوم ہے جو سب سے زیادہ شان دار تاریخ رکھتی اور سب سے بڑھ کر اپنے بزرگوں کے کارناموں کی نسبت ایسا یقینی علم حاصل کرسکتی ہے جو ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے،
مسلمانوں کو ہومر کے الیڈ واُڈ سے روشناس کرانے کی مطلق ضرورت نہیں،مسلمانوں کو مہا بھارت ورامائن کی بھی کوئی احتیاج نہیں ؛کیونکہ اُن کی یقینی وحقیقی تاریخ میں ہر قسم کے نمونے اور کارنامے الیڈواُڈ سے اورمہا بھارت ورامائن کے واقعات سے زیادہ شان دار اورمحیر العقول موجود ہیں؛ لیکن ان مذکورہ افسانوں اورداستانوں کی غلط بیانی وبے اعتباری اُن کے پاس تک نہیں پھٹک سکتی،
مسلمانوں کو فرذوسی کے شاہنا مے اوراسپار ٹا والوں کے افسانے کی بھی ضرورت نہیں؛کیونکہ اُن کی تاریخ کا ہر ورق بہت سے رستم اوربہت سے اسپارٹا پیش کرسکتا ہے،
مسلمانوں کو نوشیروان عادل اورحاتم طائی کی کہانیوں کے سُننے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ اُن کی سچی اورحقیقی تاریخ میں لا تعداد حاتم و نو شیرواں جلوہ فرما ہیں،مسلمانوں کو ارسطو وبیکن اوربطلیموس ونیوٹن کی بھی کوئی احتیاج نہیں ہے؛ کیونکہ ان کے اسلام کی مجلس میں ایسے ایسے فلسفی وہیئت داں موجود ہیں جن کی کغش برداری پر مذکورہ مشاہیر کو فخر کا موقع مل سکتا ہے۔
کس قدر! افسوس اور کسی قدر حیرت کا مقام ہے کہ آج جبکہ مسابقتِ اقوام کا ہنگامہ تمام دنیا میں برپا ہے،مسلمان جو سب سے زیادہ شان دار تاریخ رکھتے ہیں وہی سب سے زیادہ اپنی تاریخ سے بے پروا اورغافل نظر آتے ہیں،
مسلمانوں کے جس طبقہ کو کسی قدر بیدار اورہوشیار کہا جاسکتا ہے، وہ سب سے ذیادہ احساس کمتری کی شکار ہے۔اسکی بھی یہ حالت ہے کہ اپنے لیکچروں ،تقریروں، تحریروں،مضمونوں،رسالوں،اخباروں اورکتابوں میں جہاں کہیں اخلاق فاضلہ کے متعلق کسی نظیر و تمثیل کی ضرورت پیش آتی ہے تو یورپ اورعیسائیوں میں سے کسی مشہور شخص کا نام فوراً اوربلا تکلف زبان اور قلم پر جاری ہوجاتا ہے اس سے زیادہ مستحق سینکڑوں ،ہزاروں مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقہ اور علوم جدیدہ سے واقف مسلمانوں کی تقریروں اورتحریروں میں نپولین،ہنی بال،شیکسپیئر، بیکن، نیوٹن وغیرہ مشاہیر یورپ کے نام جس قدر کثرت سے پائے جاتے ہیں ایسی کثرت سے خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی،حسان بن ثابت فردوسی، طوسی،ابن رُشد،بو علی سینا وغیرہ کے نام تلاش نہیں کئے جاسکتے،
اس کا سبب بجز اس کے اورکچھ نہیں کہ مسلمان اپنی تاریخ سے ناواقف اورغافل ہیں،مسلمانوں کی ناواقفیت اورغفلت کا سبب یہ ہے کہ اول تو علم کا شوق دوسری ہمسر قوموں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو کم ہے،
دوسرے علم حاصل کرنے کے مواقع اور فرصتیں میسر نہیں،
تیسرے سرکاری مدارس اورکالجوں نے اسلامی درس گاہوں کو اس ملک ہندوستان میں قریباً ناپیدا کردیا،
چوتھے مسلمانوں میں جس طبقہ کو تعلیم یافتہ طبقہ کہا جاتا ہے اور جو ہندوستانی مسلمانوں میں پیش رو سمجھا جاتا ہے وہ سب کا سب سرکاری درس گاہوں اورکالجوں میں ہوکر نکلا ہوا ہوتا ہے، جہاں اسلامی تاریخ نصاب تعلیم کا کوئی جزو نہیں اور اگر ہے تو وہ کوئی اور ہی چیز ہے جس کو اسلامی تاریخ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے،کالجوں کے ڈپلومے حاصل کرنے کے بعد نہ تعلیم کے قابل عمر باقی رہتی ہے نہ اسلامی علوم حاصل کرنے کی مہلت وفرصت میسر ہوسکتی ہے، ہمارے ملک کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اُسی اسلامی تاریخ پر اعتماد کرنا پڑتا ہے جو مسلمانوں کے رقیبوں اورمخالفوں کی مرتب کی ہوئی مسخ شدہ تاریخ انگریزی تصانیف میں موجود ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔