آپﷺ نے اپنی شاداب عقل اور روشن فطرت سے زندگی کے صحیفے، لوگوں کے معاملات اور جماعتوں کے احوال کا مطالعہ کیا اور جن خرافات میں یہ سب لت پت تھیں۔ ان سے سخت بیزاری محسوس کی۔ چنانچہ آپﷺ نے ان سب سے دامن کش رہتے ہوئے پوری بصیرت کے ساتھ ان لوگوں کے درمیان زندگی کا سفر طے کیا۔ لوگوں کا جو کام اچھا ہوتا اس میں شرکت فرماتے۔ مثلاً: قریش جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ رسول اللہﷺ بھی میں یہ روزہ رکھتے تھے۔ دیکھئے:( صحیح بخاری حدیث نمبر ۲۰۰۲ ) ورنہ اپنی مقررہ تنہائی کی طرف پلٹ جاتے۔
آپﷺ نے شراب کو کبھی منہ نہ لگایا ، آستانوں کا ذبیحہ نہ کھایا اور بتوں کے لیے منائے جانے والے تہوار اور میلوں ٹھیلوں میں کبھی شرکت نہ کی۔آپ کو شروع ہی سے ان باطل معبودوں سے اتنی نفرت تھی کہ ان سے بڑھ کر آپ کی نظر میں کوئی چیز مبغوض نہ تھی حتیٰ کی لات وعزیٰ کی قسم سننا بھی آپ کو گوارا نہ تھا۔
(ابن ہشام ۱/۱۲۸، تاریخ طبری ۲/۱۶۱، تہذیب تاریخ دمشق ۱/۳۷۳، ۳۷۶)
اس میں شبہ نہیں کہ تقدیر نے آپ پر حفاظت کا سایہ ڈال رکھا تھا۔ چنانچہ جب بعض دنیاوی تمتعات کے حصول کے لیے نفس کے جذبات متحرک ہوئے یا بعض ناپسندیدہ رسم ورواج کی پیروی پر طبیعت آمادہ ہوئی تو عنایتِ ربانی دخیل ہوکر رکاوٹ بن گئی۔ ابن اثیر کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اہل جاہلیت جو کام کرتے تھے مجھے دو دفعہ کے علاوہ کبھی ان کا خیال نہیں گزرا لیکن ان دونوں میں سے بھی ہر دفعہ اللہ تعالیٰ نے میرے اور اس کام کے درمیان رکاوٹ ڈال دی۔ اس کے بعد پھر کبھی مجھے اس کا خیال نہ گزرا یہاں تک کہ اللہ نے مجھے اپنی پیغمبری سے مشرّف فرمادیا۔ ہوا یہ کہ ایک لڑکا جو بالائی مکہ میں میرے ساتھ بکریاں چرایا کر تا تھا، اس سے ایک رات میں نے کہا کیوں نہ تم میری بکریاں دیکھو اور میں مکہ جاکر دوسرے جوانوں کی طرح وہاں کی شبانہ قصہ گوئی کی محفل میں شرکت کرلوں۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے۔ اس کے بعد میں نکلا اور ابھی مکہ کے پہلے ہی گھر کے پاس پہنچا تھا کہ باجے کی آواز سنائی پڑی۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا ہے، لوگوں نے بتایا فلاں کی فلاں سے شادی ہے ، میں سننے بیٹھ گیا اور اللہ نے میرا کان بند کر دیا اور میں سو گیا، پھر سورج کی تمازت ہی سے میری آنکھ کھلی اور میں اپنے ساتھی کے پاس واپس چلا گیا۔ اس کے پوچھنے پر میں نے تفصیلات بتائیں۔ اس کے بعد ایک رات پھر میں نے یہی بات کہی اور مکہ پہنچا تو پھر اسی رات کی طرح کا واقعہ پیش آیا اور اس کے بعد پھر کبھی غلط ارادہ نہ ہوا۔ (طبری ۲/۲۷۹)
صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ جب کعبہ تعمیر کیا گیا تو نبیﷺ اور حضرت عباسؓ پتھر ڈھورہے تھے۔ حضرت عباس ؓ نے نبیﷺ سے کہا: اپنا تہبند اپنے کندھے پر رکھ لو، پتھر سے حفاظت رہے گی لیکن آپ زمین پر جاگرے، نگاہیں آسمان کی طرف اُٹھ گئیں۔( صحیح بخاری باب بنیان الکعبہ ۱/۵۴۰، )
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔