ابن عساکر نے جلہمہ بن عرفطہ سے روایت کی ہے کہ میں مکہ آیا۔ لوگ قحط سے دوچار تھے۔
قریش نے کہا : ابوطالب ! وادی قحط کا شکار ہے۔ بال بچے کال کی زد میں ہیں۔ چلیے بارش کی دعا کیجیے۔
ابوطالب ایک بچہ ساتھ لے کر برآمد ہوئے۔ بچہ ابر آلود سورج معلوم ہوتا تھا۔ جس سے گھنا بادل ابھی ابھی چھٹا ہو۔
اس کے ارد گرد اور بھی بچے تھے۔ ابوطالب نے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے ٹیک دی۔ بچے نے ان کی انگلی پکڑر کھی تھی۔ اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا نہ تھا۔ لیکن (دیکھتے دیکھتے ) اِدھر اُدھر سے بادل کی آمد شروع ہوگئی اور ایسی دھواں دھار بارش ہوئی کہ وادی میں سیلاب آگیا اور شہر وبیاباں شاداب ہوگئے۔ بعد میں ابوطالب نے اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محمدﷺ کی مدح میں کہا تھا:
وأبیض یستسقی الغمام بوجہہ
ثمال الیتامی عصمۃ للأرامل
'' وہ ایسے روشن ومنور ہیں کہ ان کے چہرے کی برکت سے بارش مانگی جاتی ہے یتیموں کے ماویٰ اور بیواؤں کے محافظ ہیں۔ ''
(مختصر السیرۃ شیخ عبد اللہ ص ۱۵، ۱۶ ، ہیثمی نے مجمع الزوائد میں طبرانی سے اسی طرح کا واقعہ کتاب علامات النبوۃ ۸/۲۲۲ میں نقل کیا ہے۔)
بحیرا راہب:
بعض روایات کے مطابق... جو تحقیق کے رو سے مجموعی طور پر ثابت اور مستند ہیں... جب آپ کی عمر بارہ برس اور تفصیلی قول کے مطابق بارہ برس دومہینے دس دن کی ہوگئی تو ابوطالب آپ کو ساتھ لے کر تجارت کے لیے ملک شام کے سفر نکلے اور بصریٰ پہنچے بصریٰ ملک شام کا ایک مقام اور حوران کا مرکزی شہر ہے۔ اس وقت یہ جزیرۃ العرب کے رومی مقبوضات کا دار الحکومت تھا۔ اس شہر میں جرجیس نامی ایک راہب رہتا تھا ، جو بحیرا کے لقب سے معروف تھا۔ جب قافلے نے وہاں پڑاؤ ڈالا تو یہ راہب اپنے گرجا سے نکل کر قافلے کے اندر آیا اور اس کی میزبانی کی حالانکہ اس سے پہلے وہ کبھی نہیں نکلتا تھا۔ اس نے رسول اللہﷺ کو آپ کے اوصاف کی بنا پر پہچان لیا اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : یہ سید العالمین ہیں۔ اللہ انہیں رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجے گا۔ ابوطالب نے کہا : آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا ؟ اس نے کہا: تم لوگ جب گھاٹی کے اس جانب نمودار ہوئے تو کوئی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو سجدہ کے لیے جھک نہ گیا ہو اور یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی انسان کو سجدہ نہیں کرتیں۔ پھر میں انہیں مہر نبوت سے پہچانتا ہوں۔( تلقیح الفہوم ص )
جو کندھے کے نیچے کری (نرم ہڈی) کے پاس سیب کی طرح ہے اور ہم انہیں اپنی کتابوں میں بھی پاتے ہیں۔اس کے بعد بحیرا راہب نے ابوطالب سے کہا کہ انہیں واپس کر دو ملک شام نہ لے جاؤ۔ کیونکہ یہود سے خطرہ ہے۔ اس پر ابوطالب نے بعض غلاموں کی معیت میں آپ کو مکہ واپس بھیج دیا۔( تفصیل: جامع ترمذ ی ۵/۵۵۰، ۵۵۱ حدیث نمبر ۳۶۲۰ تاریخ طبری ۲/۲۷۸ ، ۲۷۹ ، مصنف ابن ابی شیبہ ۱۱/۴۸۹ حدیث نمبر ۱۱۷۸۲، دلائل النبوۃ بیہقی ۲/۲۴، ۲۵ ، ابونعیم ۱/۱۷۰ ، زاد المعاد )
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔