یزید کے معاملے میں لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہیں: دو انتہائیں، اور تیسری راہ وسط ہے۔
دو انتہاؤں میں سے ایک کا کہنا ہے کہ یزید کافر تھا۔ منافق تھا۔ اسی نے نواسۂ رسول کے قتل کی تمام تر سعی کی، جس سے اس کا مقصد بھی رسول اللہ ﷺ سے اپنا بدلہ نکالنا تھا اور اپنے آباءو اجداد کا انتقام لینا اور اپنے نانا عتبہ اور نانا کے بھائی شیبہ اور ماموں ولید بن عتبہ وغیرہ کے خون کا حساب بے باک کرنا کہ جن کو نبیﷺ نے بدر کے روز علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور حمزہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی تلواروں سے قتل کرایا تھا۔ اِس فریق کا کہنا ہے کہ یزید نے در اصل بدر کے بدلے چکائے تھے اور جاہلیت کے حسابات بے باک کئے تھے۔ اس فریق نے یزید کی زبان سے یہ شعر بھی کہلوائے ہیں:
لما بدت تلک الحمول وأشرفت-----تلک الرؤوس علی ربیٰ جیرون
نعق الغراب، فقلت نح أو لا تنح-------فلقد قضیت من النبی دیونی
جس وقت وہ رخت ہائے سفر سامنے آئے اور وہ (نیزوں پر گاڑے ہوئے) سر جیرون کی چوٹیوں پر سے نظر آنے لگے، تب کوا نوحہ کرنے لگا۔ میں نے کہا نوحہ کر یا نہ کر، میں نے تو نبی (ﷺ) کے ساتھ اپنے قرض چکا لئے!
اس فریق کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس موقعہ پر یزید مستی میں آ کر ابن الزبعری کے یہ اشعار بھی گانے لگا جو زبعری نے اُحد میں مسلمانوں کو پچھاڑنے کے موقعہ پر گائے تھے:
لیت أشیاخی ببدر شہدوا۔۔۔۔۔۔جزع الخزرج من وقع ال أسل
قد قتلنا الکثیر من أشیاخہم۔۔۔۔۔۔۔وعدلناہ ببدر فاعتدل
کاش میرے بڑے جو بدر میں مارے گئے آج دیکھ لیتے کہ کس طرح ہمارے نیزوں کی ضربوں سے خزرج کے لوگ تڑپتے پھر رہے ہیں۔ ہاں تو آج ہم نے اُن کے بڑوں کی ایک کثیر تعداد موت کے گھاٹ اتار ڈالی، اور ادلے کا بدلہ کر ڈالا۔ تو آج جاکر معاملہ برابر برابر ہوا۔
یہ فریق اسی طرح کی اور بہت سی باتیں بیان کرتا ہے۔ ایسی باتیں زبان پر لانا رافضہ کیلئے تو ویسے ہی بہت آسان ہے، جو کہ اس سے پہلے ابو بکر , عمر اور عثمان رضوان اللہ کی تکفیر کر چکے ہوتے ہیں۔ اور ایسوں کیلئے ظاہر ہے یزید کی تکفیر کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔!
دوسری انتہا پر چلے جانے والوں کا گمان ہے کہ یزید ایک صالح شخص تھا۔ امامِ عادل تھا۔ بلکہ ان ننھے صحابہ میں سے تھا جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں پیدا ہوئے تھے اور یہ کہ پیدائش کے بعد اس کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا، آنحضور نے اس کو گود میں اٹھایا اور برکت کی دعا دی! بلکہ ان میں سے بعض تو اس قدر آگے گئے کہ یزید کو ابو بکرؓ اور عمرؓ پر فضیلت دی۔ کچھ تو اس کو نبی کہنے سے نہیں چوکے۔ یہ شیخ عدی یا حسن مقتول سے بھی ایک جھوٹا قول منسوب کرتے ہیں کہ: ستر ولی ایسے ہوئے جن کے چہرے موت کے وقت قبلہ سے پھیر کر دوسری طرف کر دیے گئے، اس لئے کہ (افضلیت) یزید کی بابت توقف کیا کرتے تھے!۔عدویہ اور اکراد کے غالی طبقوں اور ان جیسے کچھ دیگر طوائف کا یہی مذہب ہے۔ یہ حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں یزید کی تعریف کو فوقیت دیتے ہیں۔
اوپر جو دونوں انتہائیں بیان ہوئیں، ظاہر ہے وہ کسی بھی انسان کے نزدیک جو ذرہ بھر عقل کا مالک ہے اور دورِ سلف سے اور اس وقت کے امور سے ذرہ بھر واقف ہے اس پر ان دونوں انتہاؤں کا باطل ہونا آپ سے آپ واضح ہے۔ یہی وجہ ہے سنت پر پائے جانے والے معروف اہل علم میں سے کسی ایک کی بھی ان ہر دو انتہاؤں میں سے کسی ایک سے کوئی نسبت نہیں رہی۔ نیز سب عقلاءجو رائے رکھنے میں معتبر ہیں اور تاریخی روایات کھنگالنے میں تجربہ رکھتے ہیں ایسی کسی انتہا کی طرف نہیں گئے۔
تیسرا قول (جو کہ صحیح ہے اور وسط کی راہ ہے) یہ ہے کہ: یزید مسلمانوں کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔ اس کی نیکیاں بھی ہیں، بدیاں بھی۔ یہ (دورِ نبوت میں نہیں) بلکہ خلافت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں پیدا ہوا۔ کافر نہیں تھا۔ مگر اس کے سبب سے قتل حسین رضی اللہ عنہ جیسا واقعہ رونما ہوا، اہل حرہ کے ساتھ بھی اس نے جو کیا وہ معروف ہے، یزید نہ صحابی ہے اور نہ اللہ کے نیک اولیاء میں سے ہے۔ یہی قول اہل سنت و جماعت میں سے عام اہل عقل و اہل علم کا اختیار کردہ ہے۔
جہاں تک یزید پر دشنام اور لعنت بھیجنے سے اجتناب کا معاملہ ہے
یزید یا اس جیسے کسی متنازع شخص سے قطع نظر شریعت اسلامیہ کا عام اصول ہے جو یزید سے پہلے بھی معمول بہ تھا اور اس کے بعد بھی فقہاء امت نے اسے پوری صراحت کے ساتھ جابجا ذکر فرمایا ہے کہ کسی معین شخص کو نام لے کر لعنت کرنا درست نہیں ہے ،کیونکہ ”لعنت"کی حقیقت یہ ہے کہ رحمت خداوندی سے کسی کو دور کرنا، جبکہ رحمت خداوندی کے فیصلے خدا تعالیٰ ہی کو زیب دیتے ہیں، البتہ جن لوگوں کے بارے میں قرآن وسنت میں 'تصریح' کے ساتھ لعنت اور بددعاء کا ذکر ہے ان کے بارے میں 'بطور حکایت' لعنت کرنا مباح ہے، اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ وعمل ہے.
حدیث صحیح ہے کہ جب کوئی شخص کسی پر لعنت کرتا ہے ، اگر وہ شخص قابل لعن ہے تو لعن اس پر پڑتی ہے ورنہ لعنت کرنے والے پر رجوع کرتی ہے۔جب تک کسی کا کفر پر مرنا متحقق نہ ہوجائے، اس پر لعنت نہیں کرنا چاہیے کہ اپنے اوپر عود لعنت کا اندیشہ ہے۔
لہٰذا یزید کے وہ افعال ناشائستہ ہرچند موجب لعن کے ہیں ، مگر جس کو محقق اخبار اور قرائن سے معلوم ہوگیا ہو کہ وہ ان مفاسد سے راضی وخوش تھا اور ان کو مستحسن اور جائز جانتا تھا اور بدون توبہ کے مرگیا تو وہ لعنت کرے ، اسی لیے جمہور علماء اس میں تردد رکھتے ہیں۔ انکے نزدیک اوّل میں وہ مسلمان تھا۔ اس کے بعد ان افعال کا وہ صریح مرتکب تھا یا نہ تھا اور ثابت ہوا یا نہ ہوا، کافر مرا یا مسلمان مستند تحقیق نہیں ۔ پس بدون تحقیق اس امر کے لعن جائز نہیں۔ لہٰذا یہ علماء بوجہ حدیث 'منع لعن مسلم' کے لعن سے منع کرتے ہیں اور یہ مسئلہ حق ہے ۔
جواز لعن اور عدم جواز کا مدار تاریخ پر ہے، اس لیے احتیاط سکوت میں ہے ۔ کیونکہ اگر لعن جائز ہے تو لعن نہ کرنے میں کوئی حر ج نہیں۔ لعن نہ فرض ہے ، نہ واجب ، نہ سنت محض مباح ہے اور جو محل نہیں اس پر خود مبتلا ہونا اچھا نہیں۔ پھر کسی حدیث میں مستحقِ لعنت پر لعنت کرنے کا کوئی ثواب واردنہیں ہوا۔ اس لیے لعنت کے الفاظ زبان پرلانے سے کوئی فائدہ نہیں۔
رہ گئی یہ بات کہ یزید کے ساتھ محبت نہیں رکھی جائے گی، تو وہ اس بنا پر کہ محبتِ خاصہ تو رکھی جاتی ہے نبیوں کے ساتھ، صدیقین کے ساتھ، شہداءکے ساتھ اور صالحین کے ساتھ۔ جبکہ یزید ان چاروں اصناف میں نہیں آتا۔ نیز رسول اللہﷺ نے فرما رکھا ہے: المرءمع من أحب "آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ اس کی محبت ہو"
اب جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے کبھی یہ اختیار نہیں کرے گا کہ وہ یزید کے ساتھ ہو یا اس جیسے دیگر بادشاہوں کے ساتھ ہو جو عادل نہیں ہیں۔
مستفاد از :
فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ترجمہ حامد کمال الدین،
نقیب ختم نبوت
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔