یہ تحریر سات حصوں پر مشتمل ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
حضرت
جعفر رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد شیعہ کے دو گروہ پیدا ہوئے ۔جس نے ان
کے چھوٹے بیٹے حضرت موسی کاظم کو ان کا جانشین تسلیم کیا وہ آگے چل کر
امامیہ اثنا عشریہ کے نام سے مشہور ہوا۔جنہوں نے ان کے بڑے بیٹے حضرت
اسماعیل کو ان کا جانشین تسلیم کیا وہ آگے چل کر اسمعیلیہ کے نام سے مشہور
ہوا ۔ یہ اگرچہ شیعت ہی کی شاخ تھی لیکن بعد میں یہ تحریک اپنے معتقدات اور
اعمال کے لحاظ سے شیعت سے بھی کوسوں دور نکل گئی ، تاریخ میں اسے ملاحدہ،
باطنیہ، تعلیمیہ اور قرامطہ جیسے القاب سے یاد کیا گیا۔ حمدان قرمط ایک
عراقی کاشتکار تھا ، چونکہ اس کی ٹانگیں چھوٹیں تھیں اس لیے اسے قرمط
کہتےتھے۔ ا س نے اسمعیلی مذہب کو باطنی تحریک میں تبدیل کردیا، اسی کے نام
سے اسماعیلی فرقہ قرامطہ کے نام سے موسوم ہوگیا۔
شروع
میں یہ مسلح تحریک کے طور پر سامنے آئے اور عرصے تک قتل و غارت کا بازار
گرم رکھا۔ سنہ۳۱۳ھ میں قرامطہ کے خوف سے کسی نے حج نہیں کیا، اس قدر شدت
پسند، لڑاکے اور خبثاء تھے کہ ایک سال حج کے موقع پربیت اللہ شریف سے
حجراسود کواُٹھا کر لے گئے اوربیس برس تک حجراسود انکے قبضہ میں رہا۔
عباسی
خلیفہ نے انکی سرکوبی شروع کی اور مصر ، بحرین عراق وشام وغیرہ پر عرصے سے
چلے آنے والی انکی حکومتیں برباد ہوگئیں، اس کے بعد قرامطہ کے عقائد و
اعمال میں ایک خاص تبدیلی پیدا ہوئی، انہوں نے خفیہ طور پر اپنی انجمنیں
قائم کیں اوراُن خفیہ جماعتوں کے ذریعہ انہوں نے اپنی تبلیغ اوراپنی جماعت
کے ترقی دینے کا سلسلہ جاری کیا، جا بجا اپنے داعی مقرر کردئیے، ان داعیوں
کی جماعت اپنے رازوں کو بہت محفوظ رکھتی تھی زاہدوں اور پیروں کے لباس میں
یہ لوگ نظر آتے اور لوگوں کو اپنا مرید بناتے پھرتے تھے۔
مصر
کے عبیدی بادشاہ نے ان کی سر پرستی اور ہر قسم کی امداد کی، ان کے ذریعے
سلطنت اسلامیہ کی بربادی کے لئے عبیدیوں نے اسلامی ممالک میں قرامطہ کے
داعیوں کا ایک جال غیر محسوس طریقہ پر پھیلادیا تھا، چونکہ یہ لوگ ایک مٹی
ہوئی سلطنت کے سوگوار تھے،اس لئے موقعہ پاتے ہی یہی داعی یا پیراپنے رفیقوں
یعنی خاص مریدوں کے مدد سے رہزنوں اور ڈاکوؤں کے لباس میں بھی تبدیل
ہوجاتے تھے، چونکہ ان کی کماحقہ،سرکوبی ابتدا میں نہ ہوسکی اس لئے ان کی
قوت بہت بڑھ گئی تھی،مسلمان سرداروں کو چُھپ چُھپ کر قتل کرنا اُنہوں نے
اپنا خاص شیوہ بنالیا تھا،جس جگہ کوئی حاکم نہایت چست اورچوکس ہوتا وہاں یہ
بالکل خاموش اور روپوش رہتے،لیکن جس جگہ انتظام سلطنت کو کسی قدر کمزور
پاتے وہاں قتل وغارت کے ہنگاموں سے قیامت برپا کردیتے، یہ خفیہ طور پر اپنا
کام کرتے تھے اس لئے ان کو باطینہ کے نام سے مشہور ہوئے، بعد میں ان
باطینوں نے رفتہ رفتہ ترقی کرکے اصفہان کے قلعہ شاہ ورپر قبضہ کرلیا.
ان
کے جس لیڈر کو سب سے ذیادہ شہرت ملی وہ حسن بن صباح تھا ، حسن بن صباح کا
صحیح نام ونسب حسن بن علی بن احمد بن جعفر بن حسن بن صباح الحمیری تھا۔ اس
نے قلعہ الموت میں اپنی سلطنت قائم کررکھی تھی؛ اس کے پیروکار حشیشین
کہلاتے ، حشیش کا نشہ ان کی زندگی کا لازمہ تھا،
سلجوقیوں
کی خانہ جنگی اورضعف واختلال نے ان باطنیوں کی حکومت کو مستقل وپائدار
ہونے کا موقعہ دیا،جس کو بعد میں فدائیوں کی سلطنت ،سلطنتِ اسمعیلیہ،سلطنت
حشاشین وغیرہ ناموں سے یاد کیا گیا،حسن بن صباح جس طرح اس سلطنت وحکومت کا
بانی تھا، اسی طرح وہ اپنے فرقہ اورمذہب کا بھی بانی سمجھا گیا، اُس نے عام
باطنیوں کے برعکس بعض نئے طریقے اعمال وعبادات میں ایجاد کئے،اُس کے تمام
مریدین اُس کو سیدنا کہتے تھے، عام طور پر وہ شیخ الجبل کے نام سے یاد کیا
جاتا تھا، وہ ۳۵سال قلعہ الموت پر قابض و حکمراں رہا۔
اس
نے فدائیوں کا ایک گروہ تیار کیا ہوا تھا، جو اس کے اشارے پر جان دینا
اپنا مقصد زندگی سمجھتے تھے، حسن دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں، وزیروں، عالموں
کوحسن بن صباح قلعہ الموت میں بیٹھا ہوا اپنے فدائیوں کے ہاتھ سے قتل
کرادیتا تھا،اس طرح اُس کی دھاک دلوں پر بیٹھی ہوئی تھی اوربڑے بڑے بادشاہ
اپنے محلوں اور دارالحکومتوں میں اطمینان کے ساتھ نہیں سوسکتے تھے،
اسکے
فدائیوں کے ہاتھ سے جو لوگ قتل ہوئے اُن میں خواجہ نظام الملک طوسی ،وزیر
اعظم سلطان الپ ارسلان وملک شاہ سلجوقی،فخر الملک بن خواجہ نظام الملک ،
شمس تبریزی، مولونا رومی،نظام الملک معود بن علی وزیر خوارزم شاہ،سلطان
شہاب الدین غوری اور بعض عیسائی سلاطین یورپ خاص طور پر قابل تذکرہ ہیں،
سلطان صلاح الدین ایوبی اورحضرت امام فخر الدین رازی کو بھی ملاحدہ نے قتل
کی دھمکی دی تھی مگر وہ بچ گئے۔
انکی
حکومت سنہ۴۸۳ھ سے سنہ۶۵۵ھ تک پونے دوسوسال تک قائم رہی، پہلے جلال الدین
بن علاء الدین خوارزم شاہ نے ان پر چڑھائی کرکے ان کے زور وقوت کو توڑا
اورقلعہ الموت میں ان کو محصور کرکے تمام دوسرے قلعوں کو اُن سے چھین کر
ویران ومنہدم کردیا ، رہی سہی کسر ہلاکو خان نے آکر نکال دی۔
سلطنت
کے برباد ہونے کے بعد قرامطہ نے دوبارہ زاہدوں اور پیروں کا لباس اوڑھا
اور دور علاقوں ہندوستان وغیرہ کی طرف نقل مکانی کرگئے۔
اس
باطنیہ اسمٰعیلیہ فرقہ نے جہاں ایک طویل عرصے تک ملت اسلامیہ کو جانی و
مالی نقصان پہنچایا وہیں اپنے باطل نظریات کو بھی بالواسطہ طور پر عامۃ
المسلمین کے مختلف طبقات و عناصر میں پوری قوت کے ساتھ پیوست کرنے کی اپنی
شیطانی کوشش میں کوئی کسر نہ چھوڑی، چنانچہ انہوں نےمسلمانوں کے تہذیب،
تمدن، معیشت، سیاست، معاشرت، عبادات، تفسیر، احادیث، اسلامی علوم و فنون
غرض ہر شعبہ زندگی میں اپنا اثر ڈالا ۔
انہوں
نے اپنی عیاری اور معاندانہ سرگرمیوں سے اسلامی کتابوں میں جو گمراہ کن
تدسیس (اپنی باتوں کو دوسروں کی باتوں میں ملا کر چھپانا) کرنے کی کوشش کی،
اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو اس موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے ،
مگر ہم مضمون کو طوالت سے بچانے کے لیے آئندہ اقساط میں صرف چند بڑی
مثالوں پر اکتفا کریں گے۔
(جاری ہے)
قرآن
کی حفاظت کے لیے حضرات صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں یہ
سلسلہ رہا کہ ایک ہی شخص حافظ قرآن، مفسر قرآن اور علم قراء ت کا ماہر ہوتا
تھا۔ پھر جیسے جیسے صلاحیتوں میں کمزوری آتی گئی ویسے ویسے حفاظت قرآن کی
خدمت امت مسلمہ کے مختلف طبقوں میں تقسیم ہوتی گئی۔
چناں
چہ حضرات علمائے مفسرین نے قرآن کریم کے معانی ومطالب، تفسیر وتشریح او
رمراد خداوندی کی حفاظت فرمائی۔ حضرات قراء ومجودین نے اس کی مختلف قراءت ،
ادائیگی حروف او رمخارج وصفات کی حفاظت کی او رحضرات حفاظ نے اس کے الفاظ
کو اپنے سینوں میں محفوظ کرکے یہ خدمت انجام دی ۔
یوں
متن کی حفاظت، معنی ومفہوم کی حفاظت، زبان کی حفاظت، الفاظ و معانی کی عملی
صورت کی حفاظت، شانِ نزول کی حفاظت، سیرت نبوی کی حفاظت ، قرآن کے اولین
مخاطب کے حالات کی حفاظت ، تابعین کے حالات کی حفاظت وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن
کو قرآن کی حفاظت کی خاطر اللہ رب العزت نے حیرت انگیز انداز میں تحفظ
بخشا، اوراپنی کامل قدرت کا مظاہرہ کیا۔
دشمنان اسلام نے
اپنے تمام وسائل و طریقے استعمال کرنے کے بعد یہ جان لیا کہ اللہ کی اس
کتاب میں وہ لوگ کسی طرح کی لفظی تبدیلی نہیں کر سکتے ، پھر انہوں نے قران
کے فہم میں معنوی تحریف کا راستہ اپنایا اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب
رہے ، اور ہیں۔
باطنیہ نے قرآن کی باطنی تفسیر کو اپنے
پیروں ، جوگیوں کے ذریعے رواج دیا ، وہ یہ کہتے ہی قرآنی نصوص کے باطنی
معانی بھی ہیں جن کو ’مرشد‘ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس سے مقصود ان کا یہ
ہے کہ شریعت کو بالکلیہ معطل کردیا جائے“۔
تفسیر باطنی
دراصل ”تحریف الکلم عن مواضعہ“ کی ہی ایک صورت ہے یعنی کلمات کو ان کے اصل
مواضع سے ہٹا دینا اور یوں شرعی دلائل کو اپنی اصل حیثیت اور دلالت سے
محروم کر دینا۔
باطنیوں کی کچھ فاسد تاویلات ملاحظہ فرمائیں:
وورث
سلیمان داؤد (النحل: 16) ”سلیمان علیہ السلام نے داؤد علیہ السلام کی
وراثت پائی“ کہتے ہیں (سلیمان اور داؤد رمزیہ بیان ہوئے) مراد ہے امام علی
رضی اللہ تعالی عنہ کا نبی کا وارث بننا۔
” طہارت حاصل کرنے‘ سے مراد ہے ’امام معصوم‘ کی پیروی کے ماسوا ہر مذہب سے براءت کرلینا!
’تیمم‘ سے مراد ہے امام کے شہود تک رخصتیں اختیار کئے رکھنا!
’روزہ‘ یہ ہے کہ آدمی راز کو قابو کئے رہے!
’کعبہ‘ سے مراد ہیں: نبی اور بابِ کعبہ: علی رضی اللہ تعالی عنہ!
اسی طرح قرآن میں ’صفا‘ سے مراد ہیں: نبی اور مروہ سے: علی رضی اللہ تعالی عنہ۔
یوں آدمی کو نبی اور علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مابین سعی کرتے رہنا ہے!
’آتش نمرود‘ سے مراد ہے نمرود کا قہر وغضب، جس کی ابراہیم علیہ السلام نے پرواہ نہ کی!
عصائے موسی علیہ السلام سے مراد ہے موسی علیہ السلام کی قوتِ دلیل وحجت!
یہ
ہیں چند مثالیں ان خرافات کی جو باطنی تفسیر کے تحت کی جاتی ہیں اور جو نہ
عقل کی رو سے قابل قبول ہیں اور نہ نقل کی رو سے۔ یہ حقیقت میں قرآن اور
سنت کو ایک شدید انارکی سے دوچار کردینے کی ایک کوشش تھی کہ شریعت کے الفاظ
کو کوئی جو معنی چاہے پہنا لے اور یہ کہ شریعت کے کسی لفظ کا کسی دن کچھ
بھی مطلب نکل آئے! شریعت گویا معاذ اللہ ایک مہمل کلام ہے۔ کچھ بھی بول کر
کچھ بھی مراد لی جا سکتی ہے اس کے لئے کوئی بھی قاعدہ ضابطہ نہیں! مزید یہ
کہ لوگ ایک دوسرے کا سر پھوڑتے پھریں اور ہر آدمی یہ دعویٰ کرے کہ ’دوسرے‘
قرآن کامطلب ہی نہیں سمجھ پائے!
آج کے دور میں قرآن میں
تحریف کا ایک طریقہ رائج کیا گیا ہے وہ یہ کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے اپنی
عقل ، رائے ، منطق اور فلسفہ کا استعمال ۔اُمت مسلمہ کے ہر کس و ناکس کو
بظاہر قران کا محب اور قران پر عمل پیرا ہونے کےزعم میں مبتلا کرکے یہ کج
روی سجھائی گئی ہے کہ احادیث کو چھوڑ کر اپنی سوچ و فکر کی بنا پر قرآن کو
سمجھے اور سمجھائے ، چنانچہ آج ہم ایسے کئی لوگوں کو دیکھتے ہیں جو قران
کریم میں مذکور اللہ تبارک و تعالی کے الفاظ مبارک میں سے چند ایک کے بھی
لفظی و لغوی معانی نہیں جانتے چہ جائیکہ ان کے احکام اور اللہ کی مراد
جانتے ہوں' وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی احادیث مبارکہ
کو رد کرتے ہیں ، اور قران کی معنوی تحریف کرتے ہیں ۔
(جاری ہے)
باطنیہ
نے قرآن کے بعد د احادیث میں تدسیس کے لیے بھی کوششیں کیں ، چنانچہ ملا
علی قاری کے ایک قول کے مطابق باطنیہ نے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے
فضائل میں تین لاکھ کے قریب روایات گھڑ کے پھیلائی ہیں۔ کچھ گھڑی گئی
روایتوں کی مثالیں پیش خدمت ہیں جنہیں قرامطہ نے ذخیرہ احادیث میں داخل
کرنے کی کوشش کی اور علما نے انکی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔
روایت "انا مدینۃ العلم" یا " انا دادالحکمۃ وعلی بابھا" :۔
قرامطہ
اور ان کے ہم خیالوں نے اس قدر جسارت کی کہ اپنے مزعوماتِ باطلہ احادیث
نبوی کے لباس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیے ، منجملہ ان کے یہ
حدیث ہے جو ترمذ ی میں بھی موجود ہے۔
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أنا دار الحكمة وعلي بابها " . رواه الترمذي
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : میں حکمت ودانائی کا گھر ہوں اورعلی اس گھر کا دروازہ ہیں ''
مشہور محدت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ اپنے مکتوب میں صفحہ ۷۵، ۱۷۹،۱۸۰ پر تحریر فرماتے ہیں۔
"
یہ روایت نہ تو صحیحین میں ہے اور نہ روایت کا ذکر کرنیوالے اس کی تصحیح
فرماتے ہیں۔ تر مذی نے بھی روایت کے بعد کلام کیا ہے کہ بعض علما نے یہ
حدیث شریک تابعی سے روایت کی ہے مگر علمائے حدیث اس کو ثقات میں سے نہیں
پہچانتے۔ سوائے شریک کے علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے موضوعات میں اس کے
جملہ طرق پر یقین کے ساتھ باطل ہونے کا حکم دیا ہے ۔ ایک جماعت محدثین کی
اس کے موضوع ہونے کی قائل ہے۔امام الجرح والتعدیل یحیی بن معین رحمہ اللہ
صاف فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سرے سے کوئی اصل نہیں ہے۔ طاہر پٹنی نے بھی
اس کی صحت کا انکار کیا ہے۔ ۔ ۔ امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری بھی
روایت کی صحت کو تسلیم نہیں فرماتے"۔
( مکتوبات شیخ الاسلام حصہ اول، اردو بک سٹال لاہور) ( حاشیہ از مولانا نجم الدین صاحب اصلاحی مرتب مکتوبات شیخ الاسلام) ۔
ناد علی کی روایت :۔
قرامطہ
کے سلسلے میں یہ روایت بہت مقبول ہے اور کم علم صوفیا کے ہاں بھی نقل ہوتی
آرہی ہے ۔ جب جنگ احد میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوگئے اور جسم سے
خون بہنے لگا تو جبریل نے آکر آپ سے کہا کہ نادِ علیاَ والی دعا پڑھو یعنی
علی کو پکارو، جب آپ نےیہ دعا پڑھی تو علی رضی اللہ عنہ فورا آپ کی مدد کے
لئے آئے اور کفار کو قتل کرکے آپ کو اور تمام مسلمانوں کو قتل ہونے سے بچا
لیا۔
( درویشوں کا بیکتاشی سلسلہ مصنفہ ڈاکٹر برج صفحہ ۱۳۸)
اہل
علم جانتے ہیں کہ حضور نے ایسی کوئی دعا نہیں پڑھی اور نہ تاریخ یا سیرت
کی کسی کتاب میں یہ دعا مرقوم ہے، پھر بھی یہ روایت اہل سنت کی کتابوں میں
راہ پاگئی اور ایک سنی صوفی سید مظفر علی شاہ چشتی نے اپنی کتاب جواہر غیبی
میں اسے ذکر کیا۔
اس کے علاوہ
بھی بہت سی گھڑی ہوئی احادیث ہے جن کی ہمارے علما نے تحقیق کے بعد نشاندہی
کی ہے لیکن یہ روایات پھر بھی اس تحقیق سے لا علم لوگوں کی تحریرات میں نقل
ہوتی آرہی ہیں۔
حدیث چونکہ وحی کی ایک قسم تھی اس لیے
اللہ نے اس کی حفاظت کا بھی ایک نظام بنایا ۔جھوٹی احادیث وضع کرنے کا
سلسلہ صحابہ کے دور سے سبائیوں نے شروع کردیا تھا اس لیے اہل علم صحابہ
کرام نے روایت کو قبول کرنے کے لئے تحقیق کو لازم قرار دیا اور حدیث کے
قبول کرنے کا ایک معیار مقرر کیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف
من گھڑت بات منسوب نہ ہوجائے۔ بعد میں باقاعدہ علم حدیث میں اسناد و متن
کی تحقیق کے اصول مرتب ہوئے اور اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کا باقائدہ
ایک فن وجود میں آیا جس سے چودہ سوسال بعد بھی ہر حدیث کی سند اور متن کی
تحقیق با آسانی ہوجاتی ہے۔
خلیفہ ہارون الرشید کے دربار
میں ایک زندیق کو قتل کے لیے لایا گیا ، وہ کہنے لگا کہ تم مجھے تو قتل
کردوں گے لیکن ان ایک ہزار حدیثوں کا کیا کرو گے جو میں نے وضع کرکے چالو
کردی ہیں، ہارون الرشید نے فورا جواب دیا :
اے دشمن خدا !
تو ابو اسحق فزاری اور ابن مبارک سے بچ کر کہا ں جاسکتا ہے وہ ان کو چھلنی
کی طرح چھان کر ایک ایک حروف نکال پھینکیں گے۔(
(جاری ہے)
قرامطہ
نے قرآن و حدیث کے بعد تاریخ اسلام کو خصوصی طور پر تدسیس وتحریف کا ہدف
بنایا اور اسکا خاص مقصد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ کی تنقیص و توہین
وتحقیر تھی۔ سیرۃ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ مولفہ سید
سلیمان ندوی رحمہ اللہ سے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ مولانا لکھتے ہیں :۔
"
بعض شیعہ مورخوں نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کچھ سپاہیوں کے
ساتھ ایک سپید خچر پر سوار ہوکر اما م حسن رضی اللہ عنہ کے جنازے کو روکنے
کے لیے نکلیں، یہ روایت تاریخ طبری کے ایک پرانے(نسخے) فارسی ترجمے میں، جو
ہندوستان میں بھی چھپ گیا ہے، میں نظر سے گذری، لیکن جب اصل متن عربی
مطبوعہ یورپ کی طرف رجوع کیا تو جلد ہفتم کا ایک ایک لفظ پڑھنے کے بعد بھی
یہ واقعہ نہ ملا، طبری کے اس فارسی ترجمہ میں درحقیقت بہت سے حذف و اضافے
ہیں "۔
اسی طرح تاریخ میں سینکڑوں روایات گھڑی ہوئی موجود
ہیں، کچھ کے متعلق ہم پہلے بھی تحقیق پیش کرچکے ۔ تاریخ کا موضوع تھا ہی
ایسا کہ اس میں ہر بات میں اپنی پسند نا پسند اور سمجھ بوجھ کو بیان کرنے
کی پوری آزادی تھی اس لیے اس میں تمام رطب ویابس اور صحیح وسقیم چیزیں جمع
کی جاتی رہیں ‘ہر کسی نے اپنی سمجھ کے مطابق تاریخ کو بیان کیا۔ چنانچہ صحت
کا جو معیار ”حدیث“ میں قائم رکھا گیا ‘ تاریخ میں وہ معیار قائم نہیں رہ
سکا‘ نہ اسے قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے‘ اس لئے حضرات محدثین نےمتنازعہ
واقعات کی روایات کی صحت کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردیا ہے‘ حافظ عراقی
فرماتے ہیں: (علم تاریخ وسیر صحیح اور منکر سب کو جمع کرلیتا ہے)۔
ولیعلم الطالب ان السیر
یجمع ما قد صح وما قد انکرا
اب
جو شخص کسی خاص مدعا کو ثابت کرنے کے لئے تاریخی مواد کو کھنگال کر تاریخی
روایات سے استدلال کرنا چاہتا ہے اسے عقل وشرع کے تمام تقاضوں کو نظر
انداز کرتے ہوئے صرف یہ دیکھ لینا کافی نہیں ہے کہ یہ روایت فلاں فلاں
تاریخ میں لکھی ہے‘ بلکہ جس طرح وہ یہ سوچتا ہے کہ یہ روایت اس کے مقصد
ومدعا کے لئے مفید ہے یا نہیں؟ اسی طرح اسے اس پر بھی غور کرلینا چاہئے کہ
کیا یہ روایت شریعت یا عقل سے متصادم تو نہیں؟
قرآنِ
کریم کی نصوصِ قطعیہ‘ احادیثِ ثابتہ اور اہل حق کا اجماع صحابہ کی عیب چینی
کی ممانعت پر متفق ہیں‘ ان قطعیات کے مقابلہ میں تاریخی قصہ کہانیوں کا
سرے سے کوئی وزن ہی نہیں‘ رسول اللہ کا یہ ارشاد یاد رکھیں۔
”اذا رایتم الذین یسبون اصحابی فقولوا لعنة اللہ علی شرکم“ (ترمذی)
ترجمہ:”
جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہہ رہے ہوں تو ان
سے کہنا کہ تمہارے اس شر اور فتنہ پروری پر اللہ کی لعنت ہو۔
( ترمذی، مشکوٰۃ)
امام عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ الیواقیت والجواہر صفحہ ۷ میں لکھتے ہیں
"
باطنیہ ، ملاحطہ اور زنداقہ نے سب سے پہلے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
پھر امام غزالی رحمہ اللہ کی تصانیف میں اپنی طرف سے تدسیس کی ، نیز اس
فرقہ باطنیہ نے ایک کتاب جس میں اپنے عقائد کی تبلیغ کی تھی، میری زندگی
میں میری طرف منسوب کردی اور میری انتہائی کوشش کے باوجود یہ کتاب تین سال
تک متداول رہی"
(الیواقیت والجواہر صفحہ ۷)
حضرت فرید الدین عطار نیشاپوری رحمہ اللہ سےمنسوب کتابیں :۔
شیخ
عطار سنی عالم اور سلسلہ کبیرویہ سے متعلق تھے اور شیخ نجم الدین کبری کے
متعقد تھے، ان سے بائیس کتابیں منسوب ہیں حالانکہ وہ صرف دس کتابوں کے مصنف
تھے۔ ان سے منسوب کتابوں میں بڑی کتابین جواہرالذات، حلاج نامہ، لسان
الغیب وغیرہ ہیں ، ان کتابوں میں مصنف نے جگہ جگہ اظہار تشیع کیا ہے۔ مشہور
ایرانی محقق پروفیسر سعید نفیسی نے بھی فرید الدین عطار کی زندگی اور
کتابوں پر تحقیق " جستجو دراحوال و آثار ِفریدالدین عطار نیشاپوری" میں پیش
کی ہے۔ہم نسخہ جواہر الذات سے دو شعر پیش کرتے ہیں جن سے پوری کتاب کا
اندازہ ہوجائے گا اور یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ شعر شیخ فریدالدین عطار
نیشاپوری رحمہ اللہ اپنے قلم سے ہرگز نہیں لکھ سکتے تھے۔
محمد راشناس ایں جا خدا تو وگرنہ اوفتی اندر بلا تو
علی بامصطفی ہردو خدا یند کہ دم دم راز برمامی کشانید
ان شعروں کے مضمون سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے کہنے والا عبد اللہ ابن سبا کا مخلص پیرو اور باطنیہ یا قرامطہ سے تعلق رکھتا تھا۔
امام غزالی سے منسوب ایک کتاب :۔
مولانا
سعید احمد جلالپوری شہید جو کہ روزنامہ جنگ کے اقرا صفحہ پر اسلامی سوالات
کا جواب دیتے تھےْ کو ایک ڈاکٹر صاحب نے اپنے سوالہ نامہ میں یہ تحریر
بھیجی جس میں شیعی موقف کو امام غزالی رحمہ الله عليہ کی کتاب کے ذریعے ان
سے منسوب کیا گیا تھا کہ امام غزالی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”سر العالمین“ کے
صفحہ :۹ پر لکھتے ہیں کہ:
” غدیر خم میں حضرت رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے ”من کنت مولاہ“ فرمانے کے بعد اور اس موقع پر مبارک
باد دینے کے بعد جب لوگوں پر خلافت کی ہوأ و ہوس غالب آگئی تو انہوں نے
غدیر خم کی تمام باتیں بھلادیں۔“
اس پر مولانا سعید احمد
جلالپوری رحمہ اللہ نے ایک تحقیقی، تفصیلی و وقیع علمی مقالہ لکھا جو
ماہنامہ بینات میں چھپا۔ مولانا نے تحقیق کے لئے اکابر متأخرین اور اربابِ
تحقیق کی کتابوں کی طرف رجوع کیا تو پتا چلا کہ غدیر خم میں خلافت ِعلی رضى
الله عنہ (بلافصل) سے متعلق امام غزالی رحمہ اللہ کی جانب منسوب یہ
کتاب”سر العالمین“ سرے سے امام صاحب کی ہے ہی نہیں اور روافض نے خود لکھ کر
بعد میں ان سے منسوب کی۔یہ بات امام صاحب پر جھوٹ اور بہتانِ عظیم ہے اور
امام رحمہ اللہ کی دوسری کتابیں اس تحریر کے موقف کو بری طرح رد کرتیں ہیں۔
مولانا نے اس سلسلہ میں مسند الہندحضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی شہرئہ
آفاق تصنیف ”تحفہ اثنا عشریہ“ کا حوالہ بھی دیا ۔شاہ صاحب لکھتے ہیں :۔
"روافض
کوئی کتاب لکھ کر اس کو اکابر اہل سنت کی طرف منسوب کردیتے ہیں، اور اس
میں حضرات صحابہ کرام کے خلاف مطاعن اور مذہب اہل سنت کے بطلان کو درج کرتے
ہیں اور اس کے خطبہ یا دیباچہ میں اپنے بھید اور راز کے چھپانے اور امانت
کی حفاظت کی وصیت کرتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ اس کتاب میں لکھا ہے، یہی ہمارا
دلی اور پوشیدہ عقیدہ ہے، اور ہم نے اپنی دوسری کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے
وہ محض پردہ داری اور زمانہ سازی تھا، جیسا کہ کتاب ”سرالعالمین“ خود سے
لکھ کر انہوں نے اس کی نسبت حضرت امام غزالی رحمہ اللہ کی طرف کردی ہے،
علیٰ ہذا القیاس انہوں بھی بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں اور ان پر اکابر اہل
سنت اور قابل اعتماد بزرگوں کا نام لکھ دیا ہے، ظاہر ہے کہ ایسے افراد بہت
کم ہیں جو کسی بزرگ کے کلام سے واقف و آشنا ہوں اور اس کے مذاق سخن یا اس
کے اور دوسروں کے کلام میں فرق وامتیاز کرسکتے ہوں، لہٰذا ناچار سیدھے سادے
لوگ ان کے اس مکر سے متاثر ہوتے ہیں اور بہت سے حیران و پریشان ہوتے
ہیں․․․․ بلکہ بہت سے لوگ اس کو ایک مستند بزرگ یا اہل سنت کے امام کا کلام
سمجھ کر اس کو اپناکر اپنا ایمان و عقیدہ غارت کر تے ہیں․․․․۔“ (تحفہ اثنا
عشریہ فارسی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی متوفیٰ ۱۲۳۹ھ)
مولانا جلالپوری شہید کا وہ مقالہ جامعہ العلوم الااسلامیہ، بنوری ٹاؤں ، کراچی کی سائیٹ پریہاںملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
http://banuri.edu.pk/ur/node/971
جاری ہے
اکابر اولیا اور صوفیاء کے ملفوظات میں تدسیس کی کوششیں :
جس
زمانہ میں قرامطہ نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں شروع کیں، مسلمانوں میں تصوف کا
آغاز ہوچکا تھا اور مختلف سلسلے قائم ہوچکے تھے۔قرامطہ نے تقیہ کرتے ہوئے "
جیسا دیس ویسا بھیس" کے اصول پر عمل کیا اور صوفیوں کے حلقوں میں مقبولیت
حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو صوفی ظاہر کیا اور تصوف کے لباس میں صوفیوں کو
گمراہ کرنا شروع کیا اور اسلامی تصوف میں غیر اسلامی عقائد کی اس طرح
آمیزش کی کہ اسلامی اور غیر اسلامی تصوف میں امتیاز عوام کے لیے ناممکن
ہوگیا۔
رومی کے ملفوظات میں الحاق :۔
رومی کے ملفوظات فیہ مافیہ سے صفحہ نمبر ۹۹ پر یہ رومی سے منسوب روایت ، پڑھیے سر دھنیے :
"
ایک شب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ کسی غزوے سے واپس آئے
تو آپ نے فرمایا :ببانگ دہل اعلان کردو کہ آج کی رات ہم ثہر کے دروازے کے
پاس بسر کریں گے اور کل صبح شہر میں داخل ہوں گے، یہ سن کر صحابہ نے سبب
دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ تم اجنبی لوگوں کو اپنی
بیویوں کے ساتھ مباثرت میں مشغول پاؤ اور یہ دیکھ کر تمہیں بہت صدمہ ہوگا
اور ایک ہنگامہ برپا ہوجائے گا، لیکن ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کے ارشاد پر عمل نہ کیا اور گھر چلا گیا، چنانچہ اس نے اپنی بیوی کو ایک
غیر مرد کے ساتھ مشغول پایا"۔
اس لغوروایت پر تنقید کرنے
کو دل نہیں چاہتا تا ہم دل پر جبر کرکے اتنا لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ
روایت کسی سبائی کے اسی خبث باطنی کا مظہر ہےجو وہ صحابہ رضوان اللہ کے
بارے میں کرتے آرہے ہیں ۔ غور کریں اس خبیث سبائی نے ایک تیر سے کتنے شکار
کیے ہیں۔
1 - حضور کو علم غیب سے معلوم ہوچکا تھا کہ
صحابہ کی بیویا ں نعوذ بااللہ زنا کروارہی ہیں لیکن آپ نے جان بوجھ کر چشم
پوشی کی، اور اس زنا کو روکنے سے صحابہ کو منع کیا۔ نعوذباللہ
2 - بعض صحابہ حضور کے نافرمان تھے ، حضور کے منع کرنے کے باجود نہیں سنی اور گھر چلے گئے۔ نعوذباللہ
3 - صحابہ کی بیویاں زنا کار تھیں۔ نعوذباللہ
کیا مولانا روم یہ روایت بیان کرسکتے ہیں ؟
امام شعرانی کی تصنیف الطبقات الکبری :۔
اس کتاب کے اردو ترجمہ صفحہ 468 پر روایت ہے :
بضمن
ظاہروباطن عارف۔ علی ابن ابی طالب اسی طرح اٹھائے گئے ہیں جس طرح عیسی اور
عیسی کی طرح عنقریب نازل ہوں گے۔ میں کہتا ہوں کہ سید علی خواص بھی اس کے
قائل تھے ۔ چنانچہ میں نے ان کو کہتے سنا کہ نوح نے کشتی میں سے ایک تختہ
علی کے نام اٹھا کر رکھا، وہ تختہ محفوظ رہا، چنانچہ علی اسی تختہ پر
اٹھائے گئے۔
اس روایت کا مضمون بتا رہا ہےکہ یہ کسی ایسے
شخص کی گھڑی ہوئی ہے جو حضرت علی رضی اللہ کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا
عقیدہ رکھتا تھا اور تاریخ وتحقیق سے ثابت ہے کہ یہ عقیدہ امام شعرانی کا
بالکل نہیں بلکہ یہ سب سے پہلے عبداللہ ابن سبا نے شائع کیا تھا۔
رباعی ازخواجہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ :۔
قرامطہ
نے فصوص الحکم، فتوحات مکیہ، مثنوی مولانا روم، احیا ءالعلوم اور دوسری
بہت سی کتابوں میں عبارتیں اور اشعار داخل کیے اور بہت سی کتابیں خود لکھ
کر بعض سنی بزرگوں کے نام منسوب کیں، بہت سی رباعیات مختلف صوفیوں سے منسوب
کردیں ، مثلا یہ مشہور رباعی خواجہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ سے منسوب
کی جو آج تک سنی اور کتابوں میں بھی نقل ہوتی چلی آرہی ہے۔
شاہ است حسین بادشاہ ہست حسین دین است حسین دیں پناہ ہست حسین
سردادنداو دست در دست یزید حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین
جاری ہے
شیخ محی الدین ابن عربی کی فتوحات مکیہ :۔
شیخ
جیسا کہ فتوحات مکیہ کے مطالعے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ نہایت راسخ العقیدہ
اور متبع شریعت بزرگ تھے، اسی کتاب کی پہلی فصل میں انہوں نے اپنا عقیدہ
بیان کیا ہے اسے غور سے پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عقائد نسفی کی شرح پڑھ
رہے ہیں۔ انکی تصانیف میں بھی سبائیہ قرامطہ نے تدسیس کی ۔ چنانچہ امام
شعرانی اپنی تصنیف الیواقیت والجواہر صفحہ 7 پر لکھتے ہیں :
"
انکی تصنیف میں جو عبارتیں ظاہر شریعت سے متعارض(ٹکرانے والی) ہیں وہ سب
مدسوس(گھسائی ہوئی) ہیں۔ مجھے اس حقیقت سے ابو طاہر المغربی نے آگاہ کیا جو
اس وقت مکہ معظمہ میں مقیم تھے۔ انہوں نے مجھے فتوحات کا وہ نسخہ دکھایا
جس کا مقابلہ انہوں نے قونیہ میں شیخ اکبر کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے سے
کیا تھا، اس نسخے میں وہ فقرے نہیں تھے جو میرے نسخے میں تھے اور میں نے ان
فقروں کی صحت پر شک کیا تھا جب میں فتوحات کا اختصار کررہا تھا۔"
پھر
لکھتے ہیں کہ زناوقہ نے امام احمد بن حنبل کے مرض الموت کے زمانے میں ایک
کتاب جس میں اپنے باطنی عقائد بیان کیے تھے، پوشیدہ طور پر ( ان کا شاگرد
بن کر) ان کے سرہانے تکیے کے نیچے رکھ دی تھی اور اگر امام مرحوم کے تلامذہ
ان کے عقائد سے بخوبی واقف نہ ہوتے تو جو کچھ انہوں نے تکیے کے نیچے
پایاتھا اسکی وجہ سے وہ لوگ بہت بڑے فتنے میں مبتلا ہوجاتے۔
دیوان شمس تبریز :۔
قرامطہ
نے بہت سے اشعار مولانا رومی کی کتابوں میں داخل کئے، دیوان شمس تبریز میں
داخل کی گئی ایک پوری غزل سے چند اشعار پیش کرتا ہوں۔
ہم اول و ہم آخر وہم ظاہر وباطن
ہم موعد و ہم وعدہ و موعود علی بود
جبریل کہ آمد زبرِ خالقِ بیچوں
درپیش محمد شدوتابود علی بود
اور
اے رہنمائے مومناں، اللہ مولا علی
اے عیب پوش و غیب دان اللہ مولانا علی
فارسی
سمجھنے والے باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ مولان روم جیسا سنی عالم یہ مصرے
نہیں لکھ سکتا۔ کیونکہ یہ اشعار تو واضح شیعہ ذہن کی عکاسی کررہے ہیں اور
نص قرآنی کے خلاف ہیں جیسا کہ پہلے شعر کےپہلے مصرع میں قرآنی آیت میں
مذکور اللہ کی صفات " ہو الاول والاخر والظاہر والباطن" کو علی رضی اللہ
عنہ کے لیے ثابت کیا گیا ہے۔ دیوان شمس تبریز پر جلا ل ہمائی نے جو مقدمہ
لکھا اس میں ان اشعار کو الحاقی قرار دیا۔
سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا رحمہ اللہ کے ملفوظات:۔
سلطان
المشائخ نے اپنے مرشد شیخ فرید الدین گنج شکر کے ملفوظات کو راحتہ القلوب
کے نام سے مرتب کیا تھا، اس کے صفحہ ۸۵ سے ایک واقعہ نقل کرتا ہوں :
"
ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم باجمیع صحابہ کبار بیٹھے ہوئے تھے، حضرت
معاویہ رضی اللہ عنہ یزید پلید کو اپنے کاندھے پر بٹھائے سامنے سے گذرے،
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور کہا سبحان اللہ، ایک دوزخی ایک جنتی کے
کاندھے پر سوار ہو کرجارہا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن کر کہا،
یارسول اللہ یہ تو معاویہ کا بیٹا ہے۔ دوزخی کجا است ؟ حضور نے فرمایا: یا
علی یہ یزید بدبخت وہ ہے جو حسن حسین اور میری تمام آل کو شہید کرے گا۔ یہ
سن کر علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے تلوار نیام سے نکالی کہ 'ایشاں را
بُکُشَد 'مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مانع ہوئے کہ اے علی ایسا مت کر کہ
اللہ کی تقدیر یہی فیصلہ کرچکی ہے، یہ سن کر علی رونے لگے۔"
حقیقت
یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بلاشک وشبہ گیارہ ہجری میں
ہوگئی تھی جبکہ یزید کی ولادت حضور کی وفات کے پندرہ سال بعد ۲۶ ہجری میں
ہوئی تھی، ثابت ہوا کہ یہ افسانہ سراسر جھوٹا ہے اور کسی سبائی نے یہ لغو
اور من گھڑت داستان نظام الدین اولیاء کے ملفوظات میں شامل کردی ہے۔
قرامطہ ہندوستان میں :
جب
یہ لوگ ہندوستان آئے تو انہوں نے ہندو صوفیوں اور جوگیوں اور پیروں کے طور
طریقے اختیار کیے اور ہندوؤں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وشنو کے دسویں
اوتار کے روپ میں پیش کیا۔ عوام میں ہر دلعزیزی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے
اپنے ناموں سے پہلے " پیر" کے لقب کا اضافہ کیا۔
پیر
صدرالدین نے گجرات اور پیر شمس الدین نے ملتان میں تصوف کے پردے میں اپنے
عقائد کی تبلیغ کی۔ اس بات کی تصدیق ڈاکٹر جے این ہالسٹر کی تالیف " شیعان
ہند" سے بھی بخوبی ہوسکتی ہے۔ مولف اسی کتاب کے صفحہ ۳۳۳ پر لکھتے ہیں۔
"
اسمعیلی سیدوں کا قافلہ قاہرہ سے چل کر سبزوار آیا۔ پیر شمس الدین سبزواری
یہیں سے ملتان آیا تھا، اور اس نے صوفیوں کے لباس میں اسمعیلیت کی تبلیغ
کی۔ بعض لوگوں نے شمس الدین سبزواری کو غلطی سے شمس تبریز سمجھ لیاہے جو
جلال الدین رومی کے مرشد تھے، جبکہ یہ ملتان کا پیر شمس الدین اسمعیلیہ
نزاری فرقہ کا داعی تھا"
(شیعان ہندصفحہ ۳۳۳)
سوال :
یہاں
یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ قرامطہ ، باطنیہ، روافض کو اسکی جرات کیسے
ہوتی تھی کہ وہ اپنی باتیں ان بزرگوں کی کتابوں میں ملا دیا کرتے تھے
جواب
:در اصل تمام صوفی سلسلے اور انکے افراد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نہایت
مکرم اور لائق توقیر سمجھتے ہیں اور تین سلسلے تو حضرت علی رضی اللہ پر ختم
ہوتے ہیں۔ صوفی شعرا نے جہا ں خلفائے ثلاثہ کی منقبت میں زور قلم صرف کیا
ہے وہاں علی رضی اللہ عنہ کی منقبت میں بھی اپنی عقیدت کا مظاہر ہ کیا
ہے،اس لیے روافض اور قرامطہ کو مبالغہ آمیز اور شرکیہ اشعار کو شامل کرنے
میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔باطنیہ، قرامطہ اور اسمعیلیہ حضرات نے تصوف
کا لبادہ اوڑھ کر اپنے عقائد مسلمانوں میں شائع کردیے ، بعد میں آنے والے
صوفیوں نے اسلاف پر تنقید کو سو ادب سمجھا اس لیے قرامطہ کے عقائد کو من
وعن تسلیم کرلیا اور رفتہ رفتہ ان باطنیہ کے ہم عقیدہ بن گئے۔، یہ انہی
روایات کا کرشمہ ہے کہ آج چودھویں صدی ہجری میں حیدرآباد دکن ، بریلی،
دہلی، اجمیر، داتا دربار، پاک پتن، ملتان، اچ، سیہون اور تمام بڑے بڑے
مزارات سبائیت اور باطنیت کے فروغ و شیوع کے مرکز بن گئے ہیں۔
اسلامی
تصوف جو دین اسلام کی روح اور جان ہے، میں غیر اسلامی عقائد کی آمیزش سے
نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف جدید تعلیم یافتہ طبقہ نفس تصوف ہی سے بدظن ہوگیا
دوسری طرف خود یہ اسلامی تصوف اپنی ساری افادیت کھو بیٹھا بلکہ جہلا کے حق
میں تو افیون بن گیا اور اہل خانقاہ کے حق میں بے عملی کا بہانہ بن گیا ۔
یہ
اسی آمیزش کا نتیجہ ہے کہ وہ خانقائیں جہاں مسلمانوں کو ایزد پرستی کا درس
دیا جاتا تھا ان کی روحانی اصلاح ہوتی تھی آج شخصیت پرستی بلکہ قبر پرستی
کا مرکز بنی ہوئی ہیں اور جہاں ہر طرف اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے
جلوے نظر آتے تھے آج وہ خانقاہیں قوالی کی محفلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں بلکہ
شرک و بدعت کا مرکز بن گئیں شاید اقبال نے اسی حالت کو دیکھ کر فرمایا تھا
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
اس
غیر اسلامی نظریات کی آمیز ش سے تصوف کو نقصان ضرور پہنچا ، لیکن اسلامی
تصوف بالکل ختم نہیں ہوا۔ علمائے حق کےتصوف کے ایسے مراکز اب بھی موجو د
ہیں جہاں صوفیا بالکل اسلامی طریقہ پر لوگوں کو اصلاح فرمارہے ہیں۔
ان
چند مثالوں سے یہ دکھلانا مقصود تھا کہ زمانہ قدیم سے روافض اور اہل تشیع
کی یہی عیاری، مکاری اوررَوِشِ بد رہی ہے کہ وہ اپنے فاسد و باطل عقائد اور
نظریات کی ترویج کی خاطر اپنی جانب سے کوئی کتاب لکھ کر اہل سنت کے کسی
نامی گرامی بزرگ، بڑے عالم دین اورمحقق کی وفات کے بعد اس کی طرف نسبت کرکے
شائع کردیتے ہیں اور سیدھے سادے مسلمانوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ اہل سنت
کا فلاں بڑا عالم اور محقق بھی وہی عقیدہ رکھتا تھا جو ہمارا ہے۔اللہ ہمارے
علما کو جزائے خیر دے انہوں نے ہر دور میں انکے حملوں کو ناکام بنا کر امت
کو گمراہی سے بچایا ہے۔
تجویز :
ان
مثالوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس مکاری کے ساتھ باطل فرقوں نے
ہماری دینی کتابوں میں اپنے گمراہ نظریات کو داخل کیا اور مشہور علمائے امت
کی کتابوں میں انکی زندگی میں ملاوٹ کی بھی جرات کرگئے ، موجودہ دور میں
ایسا کرنا مزید آسان ہوگیا ہے۔ ان کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ کسی پرانے عالم
کی کتاب کو اٹھا کر اس میں جگہ جگہ اپنے نظریات کو داخل کرکے خوبصورت کور
اور پرنٹ میں چھاپ کر مارکیٹ میں دے دیں۔۔!!
حقیقت میں
کئی ایسےگمنام کتب خانے موجود بھی ہیں جو کہ مختلف اسلامی موضوعات پرعلما
کی کتابیں چھاپ رہے ہیں، انکی کتابیں اصل پبلشر کے مقابلے میں ذیادہ جاذب
نظر ، کوالٹی پیپر لیکن کم قیمت پر دستیاب ہوتیں ہیں۔ اب ان اسلامی کتابوں
میں باطل نظریات کی آمیزش کے شر سے وہی قاری بچ سکتا ہے جس کا مستند
علماءکے ساتھ تعلق ہو۔
ممتاز عالم دین مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”
مطالعہ کووسیع کیجیے اور اس کے لیے اساتدہ سے ، خاص طور پر مربی اصلاح سے
اور ان اساتذہ سے جن سے آپ کا رابطہ ہے ، ان سے مشورہ لیجیے۔“ مولانا ندوی
مزید فرماتے ہیں :
یہ ایک پل صراط ہے، اس پر سبک روی اور
بہت احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمررضی اللہ
جیسے عظیم شخص کو حضور صلی الله علیہ وسلم نے توریت جیسی عظیم المرتبت
آسمانی کتاب کے مطالعہ سے منع فرما دیا تھا۔
5 comments:
بہت عمدہ تحریر - اللہ آپ کو جزائے خیر دے - آمین
jzakAllah Khaira bahut umda kawish hay islami tareekh ka mustanad zakheera shaya karnay ki bahut zrorat hay
اسماعیلیہ و باطنیہ پر بات کرتے کرتے اہل تشیع کی طرف رخ موڑ کر جھوٹ سچ اکٹھا کر دیا مصنف نے جو کہ ایک علمی خیانت اور تعصب کا مظاہرہ ہے۔خدا ایسے گمراہ کرنے والے لکھاریوں سے بچاۓ
اس تحریر کو لکھنے والے کا نام ؟؟؟
اس تحریر کو لکھنے والے کا نام ؟؟؟
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔