جنگ فجا ر:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے بیسویں سال عکاظ کے بازار میں قریش وکنانہ...اور قیس عیلان کے درمیان ماہ ذی قعدہ میں ایک جنگ پیش آئی جو جنگ فجار کے نام سے معروف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ براض نامی بنو کنانہ کے ایک شخص نے قیس عیلان کے تین آدمیوں کو قتل کردیا تھا۔ اس کی خبر عکاظ پہنچی تو فریقین بھڑک اٹھے اور لڑ پڑے۔ اس جنگ میں قریش اور کنانہ کا کمانڈر حرب بن امیہ تھا۔ کیونکہ وہ اپنے سن وشرف کی وجہ سے قریش وکنانہ کے نزدیک بڑا مرتبہ رکھتا تھا۔ پہلے پہر کنانہ پر قیس کا پلہ بھاری تھا لیکن دوپہر ہوتے ہوتے قیس پر کنانہ کا پلہ بھاری ہوا چاہتا تھا کہ اتنے میں صلح کی آواز اٹھی اور یہ تجویز آئی کہ فریقین کے مقتولین گن لیے جائیں۔ جدھر زیادہ ہوں ان کو زائد کی دیت دے دی جائے، چنانچہ اسی پر صلح ہوگئی۔ جنگ ختم کردی گئی اورجو شر وعداوت پیدا ہوگئی تھی اسے نیست ونابود کر دیا گیا۔ اسے حرب فجار اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں حرام مہینے کی حرمت چاک کی گئی۔ اس جنگ میں رسول اللہﷺ بھی تشریف لے گئے تھے اور اپنے چچاؤں کو تیر تھماتے تھے۔
(ابن ہشام ۱/۱۸۴ تا ۱۸۶ ، المنمق فی اخبار قریش ص ۱۶۴-۱۸۵۔ کامل ابن اثیر ۱/۴۶۸ -۴۷۲ عموما ًمؤرخین نے کہا ہے کہ یہ شوال میں پیش آئی تھی، مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ شوال کا مہینہ حرام کا مہینہ نہیں اور عکاظ حرم سے باہر ہے۔ تو پھر حرمت کون سی چاک ہوئی۔ علاوہ ازیں عکاظ کا بازار ذی قعدہ کے شروع سے لگتا تھا۔)
حلف الفضول:
اس جنگ کے بعد اسی حرمت والے مہینے ذی قعدہ میں حلف الفضول پیش آئی۔ چند قبائل قریش ، یعنی بنی ہاشم ، بنی مُطّلب ، بنی اَسَدَ بن عبد العزیٰ بنی زہرہ بن کلاب اور بنی تَیم بن مُرّہ نے اس کا اہتمام کیا۔ یہ لوگ عبداللہ بن جُدْعان تیمی کے مکان پر جمع ہوئے... وہ سن وشرف میں ممتاز تھا ...اور آپس میں عہد وپیمان کیا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا۔ خواہ مکے کا رہنے والا ہو یا کہیں اور کا ، یہ سب اس کی مدد اور حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اس اجتماع میں رسول اللہﷺ بھی تشریف فرما تھے اور بعد میں شرفِ رسالت سے مشرف ہونے کے بعد فرمایا کرتے تھے۔ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عوض سُرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر (دور) اسلام میں اس عہد وپیمان کے لیے مجھے بلا یا جاتا تو میں لبیک کہتا۔ (ابن ہشام ۱/۱۳۳ ، ۱۳۵ ، مختصر السیرہ شیخ عبد اللہ ص ۳۰ ، ۳۱۔)
اس معاہدے کی روح عصبیت کی تہہ سے اٹھنے والی جاہلی حمیت کے منافی تھی۔ اس معاہدے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ آیا اور عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا لیکن اس کا حق روک لیا۔ اس نے حلیف قبائل عبد الدار ، مخزوم ، جمح ، سہم اور عَدِی سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔ اس کے بعد اس نے جَبَلِ ابو قُبَیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے۔ جن میں اپنی داستانِ مظلومیت بیان کی تھی۔ اس پر زبیر بن عبد المطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار ومدد گار کیوں ہے ؟ ان کی کوشش سے اوپر ذکر کیے ہوئے قبائل جمع ہوگئے ، پہلے معاہدہ طے کیا اور پھر عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلایا۔ (طبقات ابن سعد ۱/۱۲۶-۱۲۸ نسب قریش للزبیر ی ص ۲۹۱)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔