Sunday 25 January 2015

ًمحاز آرائی کی تیسری صورت: پہلوں کے واقعات اور افسانوں کا قرآن سے مقابلہ کرنا


مشرکین اپنے مذکورہ شبہات کو پھیلانے کے علاوہ ہر ممکن طریقے سے لوگوں کو قرآن کی سماعت سے دور رکھنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ چنانچہ وہ لوگوں کو ایسی جگہوں سے بھگا تے اور جب دیکھتے کہ نبیﷺ دعوت وتبلیغ کے لیے اٹھنا چاہتے ہیں یا نماز میں قرآن کی تلاوت فرما رہے ہیں تو شور کرتے اور تالیاں اور سیٹیاں بجاتے۔ جیسا کہ قرآن بتاتا ہے۔
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْ‌آنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ (۴۱: ۲۶) 
کفار نے کہا: یہ قرآن نہ سنو ، اور اس میں شور مچاؤ تاکہ تم غالب رہو۔
اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ تھا کہ نبیﷺ کو ان کے مجمعوں اور محفلوں کے اندر پہلی بار قرآن تلاوت کرنے کا موقع پانچویں سن نبوت کے اخیر میں مل سکا۔ وہ بھی اس طرح کہ آپ نے اچانک کھڑے ہوکر قرآن کی تلاوت شروع کردی اور پہلے سے کسی کو اس کا اندازہ نہ ہو سکا۔
نضر بن حارث قریش کے شیطانوں میں سے ایک شیطان تھا۔ وہ حیرہ گیا۔ وہاں بادشاہوں کے واقعات اور رستم واِسْفَنْدیار کے قصے سیکھے۔ پھر واپس آیا تو جب رسول اللہﷺ کسی جگہ بیٹھ کر اللہ کی باتیں کرتے اور اس کی گرفت سے لوگوں کو ڈراتے تو آپ کے بعد یہ شخص وہاں پہنچ جاتا اور کہتاکہ واللہ ! محمدکی باتیں مجھ سے بہتر نہیں، اس کے بعد وہ فارس کے بادشاہوں اور رُستم واسفندیار کے قصے سناتا پھر کہتا۔ آخر کس بنا پر محمد کی بات مجھ سے بہتر ہے۔( ملخص از ابن ہشام ۱/۲۹۹ ، ۳۰۰، ۳۵۸ )
ابن عباسؓ کی ایک روایت ہے کہ نضر نے ایک لونڈی خرید رکھی تھی جب وہ کسی آدمی کے متعلق سنتا کہ وہ نبیﷺ کی طرف مائل ہے تو اس کو اس لونڈی کے پاس لیجاکر کہتا کہ اسے کھلاؤ پلاؤ اور گانے سناؤ۔ یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم کو محمد بلاتے ہیں۔( الدر المنثور تفسیر سورۂ لقمان آیت ۶ (۵؍۳۷)) اسی کے بارے میں یہ ارشاد ِ الٰہی نازل ہوا:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِ‌ي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ (۳۱: ۶)
''کچھ لوگ ایسے ہیں جو کھیل کی بات خریدتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں۔''
جب قریش اپنی اس گفت وشنید میں ناکا م ہوگئے اور ابو طالب کو اس بات پر مطمئن نہ کرسکے کہ وہ رسول اللہﷺ کو روکیں ، اور انہیں دعوت الیٰ اللہ سے باز رکھیں توا نہوں نے ایک ایسا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جس پر چلنے سے وہ اب تک کتراتے رہے تھے اور جس کے انجام ونتائج کے خوف سے انہوں اب تک دو ر رہنا ہی مناسب سمجھا تھا اور وہ راستہ تھا رسول اللہﷺ کی ذات پر ظلم وجور کا راستہ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔