Thursday 10 December 2015

نزع رواں


پھر نزع کی حالت شروع ہوگئی۔ اور حضرت عائشہ ؓ نے آپﷺ کو اپنے اُوپر سہارا دے کر ٹیک لیا۔ ان کا بیان ہے کہ اللہ کی ایک نعمت مجھ پر یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے میرے گھر میں ، میری باری کے دن میرے لَبّے اور سینے کے درمیان وفات پائی۔ اور آپﷺ کی موت کے وقت اللہ نے میرا لعاب اور آپﷺ کا لعاب اکٹھا کردیا۔ ہوا یہ کہ عبد الرحمن بن ابی بکرؓ آپﷺ کے پاس تشریف لائے۔ ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ اور میں رسول اللہﷺ کو ٹیکے ہوئے تھی۔ میں نے دیکھا کہ آپﷺ مسواک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ میں سمجھ گئی کہ آپﷺ مسواک چاہتے ہیں۔ میں نے کہا : آپﷺ کے لیے لے لوں ؟ آپﷺ نے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں ! میں نے مسواک لے کر آپﷺ کو دی تو آپ کو کڑی محسوس ہوئی۔ میں نے کہا: اسے آپﷺ کے لیے نرم کردوں ؟ آپﷺ نے سر کے اشارے سے کہا ہاں ! میں نے• مسواک نرم کردی ، اور آپﷺ نے نہایت اچھی طرح مسواک کی۔ آپﷺ کے سامنے کٹورے میں پانی تھا۔ آپﷺ پانی میں دونوں ہاتھ ڈال کر چہرہ پونچھتے جاتے تھے۔ اور فرماتے جاتے تھے۔ لاإلہ إلا اللّٰہ،اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ موت کے لیے سختیاں ہیں۔( صحیح بخاری ۲/۶۴۰)
مسواک سے فارغ ہوتے ہی آپﷺ نے ہاتھ یا انگلی اٹھا ئی ، نگاہ چھت کی طرف بلند کی۔ اور دونو ں ہونٹوں پر کچھ حرکت ہوئی۔ حضرت عائشہ ؓ نے کان لگایا تو آپﷺ فرمارہے تھے : ''ان انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین کے ہمراہ جنہیں تو نے انعام سے نوازا۔ اے اللہ ! مجھے بخش دے ،۔مجھ پر رحم کر ، اور مجھے رفیق ِ اعلیٰ میں پہنچا دے۔ اے اللہ ! رفیق اعلیٰ ۔''(ایضاً صحیح بخاری باب مرض النبیﷺ وباب آخرما تکلم النبیﷺ ۲/۶۳۸ تا ۶۴۱) آخری فقرہ تین بار دہرایا ، اور اسی وقت ہاتھ جھک گیا۔ اور آپﷺ رفیق ِ اعلیٰ سے جا لاحق ہوئے۔ إناللّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔
یہ واقعہ ۱۲/ ربیع الاول ۱۱ھ یوم دوشنبہ کو چاشت کی شدت کے وقت پیش آیا۔ اس وقت نبیﷺ کی عمر تریسٹھ سال چار دن ہوچکی تھی۔
غمہائے بیکراں :
اس حادثہ ٔ دلفگار کی خبر فورا پھیل گئی ، اہل ِ مدینہ پر کوہ غم ٹوٹ پڑا۔ آفاق واطراف تاریک ہوگئے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ جس دن رسول اللہﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے اس سے بہتر اور تابناک دن میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اور جس دن رسول اللہﷺ نے وفات پائی اس سے زیادہ قبیح اور تاریک دن بھی میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ (دارمی ، مشکوٰۃ ۲/۵۴۷۔ انہی حضرت انسؓ سے ان الفاظ کے ساتھ بھی روایت ہے کہ جس دن رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے ہر چیز روشن ہوگئی۔ اور جس دن آپﷺ نے وفات پائی ہر چیز تاریک ہوگئی۔ اور ابھی ہم نے رسول اللہﷺ سے اپنے ہاتھ بھی نہ جھاڑے تھے ، بلکہ آپﷺ کے دفن ہی میں مشغول تھے کہ اپنے دلوں کو بدلا ہوا محسوس کیا۔ (جامع ترمذی ۵/۵۸۸، ۵۸۹ ))
آپﷺ کی وفات پر حضرت فاطمہ ؓ نے فرطِ غم سے فرمایا:
((یا أبتاہ ، أجاب رباً دعاہ ، یا أبتاہ، من جنۃ الفردوس مأواہ، یا أبتاہ، إلی جبریل ننعاہ ۔)) (صحیح بخاری باب مرض النبیﷺ ۲/۶۴۱)
''ہائے ابا جان ! جنہوں نے پروردگار کی پکار پر لبیک کہا۔ ہائے ابا جان ! جن کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے۔ ہائے اباجان! ہم جبریل علیہ السلام کو آپﷺ کے موت کی خبر دیتے ہیں۔''
مکمل تحریر >>

حیاتِ مبارکہ کا آخری دن


حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ دو شنبہ کے روز مسلمان نماز فجر میں مصروف تھے۔ اور ابو بکرؓ امامت فرمارہے تھے کہ اچانک رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کا پردہ ہٹایا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جو صفیں باندھے نماز میں مصروف تھے نظر ڈالی، پھر تبسم فرمایا۔ ادھر ابو بکرؓ اپنی ایڑ کے بل پیچھے ہٹے کہ صف میں جاملیں۔ انہوں نے سمجھا کہ رسول اللہﷺ نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ (کے اس اچانک ظہور سے ) مسلمان اس قدر خوش ہوئے کہ چاہتے تھے کہ نماز کے اندر ہی فتنے میں پڑجائیں۔ (یعنی آپﷺ کی مزاج پرسی کے لیے نماز توڑ دیں ) لیکن رسول اللہﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ اپنی نماز پوری کر لو، پھر حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ گرالیا۔( باب مرض النبیﷺ ۲/۲۴۰ مع فتح الباری ۲/۱۹۳ حدیث نمبر ۶۸۰، ۶۸۱،۷۵۴، ۱۲۰۵،۴۴۴۸)
اس کے بعد رسول اللہﷺ پر کسی دوسری نماز کا وقت نہیں آیا۔
دن چڑھے چاشت کے وقت آپﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کو بلا یا اور ان سے کچھ سر گوشی کی، وہ رونے لگیں تو آپﷺ نے انہیں پھر بلا یا اور کچھ سرگوشی کی تو وہ ہنسنے لگیں۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ بعد میں ہمارے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ (پہلی بار ) نبیﷺ نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپﷺ اسی مرض میں وفات پاجائیں گے۔ اس لیے میں روئی۔ پھر آپﷺ نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپ کے اہل و عیال میں سب سے پہلے میں آپﷺ کے پیچھے جاؤں گی۔ اس پر میں ہنسی۔( بخاری ۲/۶۳۸)
نبیﷺ نے حضرت فاطمہؓکو یہ بشارت بھی دی کہ آپ ساری خواتین ِ عالم کی سَیدہ (سردار ) ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گفتگو اور بشارت دینے کا یہ واقعہ حیات مبارکہ کے آخری دن نہیں بلکہ آخری ہفتے میں پیش آیا تھا۔ دیکھئے: رحمۃللعالین ۱/۲۸۲
اس وقت رسول اللہﷺ جس شدید کرب سے دوچار تھے اسے دیکھ کر حضرت فاطمہؓ بے ساختہ پکار اٹھیں۔ واکرب أباہ۔ ''ہائے ابّا جان کی تکلیف ۔''آپﷺ نے فرمایا : تمہارے ابّا پر آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں۔( صحیح بخاری ۲/۶۴۱)

آپﷺ نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بلا کر چُوما اور ان کے بارے میں خیر کی وصیت فرمائی۔ ازاوجِ مطہرات رضی اللہ عنہم کو بلایا اور انہیں وعظ ونصیحت کی۔
ادھر لمحہ بہ لمحہ تکلیف بڑھتی جارہی تھی اور اس زہر کا اثر بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھا جسے آپﷺ کو خیبر میں کھلایا گیا تھا۔ چنانچہ آپﷺ حضرت عائشہ ؓ سے فرماتے تھے : اے عائشہ ! خیبر میں جو کھانا میں نے کھالیا تھا اس کی تکلیف برابر محسوس کررہا ہوں۔ اس وقت مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس زہر کے اثرسے میری رگِ جاں کٹی جارہی ہے۔( صحیح بخاری ۲/۶۳۷)
ادھر چہرے پر آپﷺ نے ایک چادر ڈال رکھی تھی۔ جب سانس پھولنے لگتا تو اسے چہرے سے ہٹا دیتے۔ اسی حالت میں آپﷺ نے فرمایا : (اور یہ آپﷺ کا آخری کلام اور لوگوں کے لیے آپﷺ کی آخری وصیت تھی ) کہ یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا یا ... ان کے اس کام سے آپﷺ ڈرارہے تھے ... سرزمین عرب پر دو دین باقی نہ چھوڑ ے جائیں۔( صحیح بخاری مع فتح الباری ۱/۶۳۴ حدیث نمبر ۴۳۵، ۱۳۳۰، ۱۳۹۰، ۳۴۵۳، ۳۴۵۴،۴۴۴۱، ۴۴۴۳، ۴۴۴۴ ، ۵۸۱۵، ۵۸۱۶ ، طبقات ابن سعد ۲/۲۵۴)
آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی وصیت فرمائی۔ فرمایا :
((الصلاۃ الصلاۃ وما ملکت أیمانکم))
''نماز ، نماز ، اور تمہارے زیر ِ دست '' (یعنی لونڈی ، غلام )
آپﷺ نے یہ الفاظ کئی بار دہرائے۔( صحیح بخاری ۲/۶۳۷)
مکمل تحریر >>

وفات سے ٣ دن پہلے


حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو وفات سے تین دن پہلے سنا آپﷺ فرما رہے تھے:''یاد رکھو تم میں سے کسی کو موت نہیں آنی چاہیے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو۔''(طبقات ابن سعد ۲/۲۵۵ ، مسند ابی داود طیالسی ص ۲۴۶ حدیث نمبر ۱۷۷۹ ، مسند ابی یعلی۴/۱۹۳ حدیث نمبر ۲۲۹۰)

ایک دن یا دو دن پہلے:
سنیچر یا اتوار کو نبیﷺ نے اپنی طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی، چنانچہ دوآدمیوں کے درمیان چل کر ظہر کی نماز کے لیے تشریف لائے۔ اس وقت ابو بکرؓ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھا رہے تھے۔ وہ آپﷺ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔ آپﷺ نے اشارہ فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں۔ اور لانے والوں سے فرمایا کہ مجھے ان کے بازو میں بٹھا دو۔ چنانچہ آپﷺ کو ابوبکرؓ کے دائیں بٹھا دیا گیا۔ اس کے بعد ابو بکرؓ رسول اللہﷺ کی نماز کی اقتدا کرر ہے تھے۔اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تکبیر سنا رہے تھے۔ (صحیح بخاری ۱/۹۸، ۹۹ مع فتح الباری ۲/۱۹۵ ، ۲۳۸، ۲۳۹، حدیث نمبر ۶۸۳، ۷۱۲،۷۱۳)
ایک دن پہلے:
وفات سے ایک دن پہلے بروز اتوار نبیﷺ نے اپنے تمام غلاموں کو آزاد فرمادیا۔ پاس میں چھ یا سات دینار تھے انہیں صدقہ کردیا۔ 6اپنے ہتھیار مسلمانوںکو ہبہ فرمادیے۔ رات میں چراغ جلانے کے لیے حضرت عائشہ ؓ نے چراغ پڑوسی کے پاس بھیجا کہ اس میں اپنی کپی سے ذرا سا گھی ٹپکا دیں۔ (طبقات ابن سعد ۲/۲۳۹)آ پﷺ کی زِ رہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع (کوئی ۷۵ کلو ) جَو کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی۔صحیح بخاری حدیث نمبر ۲۰۶۸ ، ۲۰۹۶ ، ۲۲۰۰، ۲۲۵۱، ۲۲۵۲،۲۳۸۶، ۲۵۰۹،۲۵۱۳، ۲۹۱۶ ، ۴۱۶۷، مغازی کے آواخر میں ہے کہ رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی اور آپ کی زرہ رہن رکھی ہوئی تھی۔ مسند احمد میں ہے کہ آپﷺ کو اتنا نہ مل سکا کہ اس زرہ کو چھڑا سکیں
مکمل تحریر >>

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی امامت


رسول اللہﷺ مرض کی شدت کے باوجود اس دن تک ، یعنی وفات سے چار دن پہلے (جمعرات ) تک تمام نمازیں خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔ اس روز بھی مغرب کی نماز آپﷺ ہی نے پڑھائی۔ اور اس میں سورۂ والمرسلات ِ عُرْفا پڑھی۔( صحیح بخاری عن ام الفضل ، باب مرض النبیﷺ ۲/۶۳۷)
لیکن عشاء کے وقت مرض کا ثقل اتنا بڑھ گیا کہ مسجدمیں جانے کی طاقت نہ رہی۔ نماز عشاء کے وقت دریافت فرمایا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا : نہیں آپﷺ کا انتظار ہے، یہ سن کر غسل فرمایا ، باہر نکل کھڑے ہوئے تو غش آگیا، افاقہ ہوا تو پھر نماز کے بارے میں دریافت فرمایا، کھڑے ہو ئے تو پھر غشی طاری ہوگئی، فرمایا : ابو بکرؓ سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں، حضرت عائشہؓ نے کہا … وہ بڑے نرم دل ہیں آپﷺ کی جگہ کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھا سکیں گے، روئیں گے اور لوگ کچھ سن نہ سکیں گے، بہتر ہے کہ آپﷺ عمرؓ کو حکم دیں، آپﷺ نے وہی حکم دُہرایا، حضرت عائشہؓ نے دوبارہ درخواست کی او ر حضرت حفصہؓ سے بھی کہلوایا، ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کا حکم آکر سنایا، حضرت ابو بکرؓنے اپنا حق حضرت عمرؓ کو منتقل کیا، دوسری روایت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ ؓ بن ربیعہ کو حکم دیا کہ باہر لوگوں سے کہہ دیں کہ نماز ادا کریں، وہ باہر نکلے تو حضرت عمرؓسامنے تھے، ان سے کہاکہ آپ نماز پڑھا دیں، روضتہ الاحباب کی روایت کی بموجب حضرت عمرؓ نے نماز شروع کر دی، حضور ﷺ نے پوچھا … کیا یہ عمرؓ کی آواز ہے ؟ جواب ملا : جی ہاں : ارشادفرمایا: اللہ اور مومنین اس کو پسند نہیں کریں گے، پھر سرِ مبارک کھڑکی سے باہر نکالا اور فرمایا! نہیں ، نہیں ابو بکرؓ کو چاہیے کہ وہ نماز پڑھائیں، حضرت عمرؓ مُصلّٰی سے پیچھے ہٹ گئے اور حضرت ابو بکرؓ نے پہلی نماز کی امامت فرمائی،
دوسرے روز مرض میں کچھ افاقہ ہوا تو ظہر کے وقت جب کہ حضرت ابو بکرؓ نے نماز شروع کر دی تھی آپﷺ حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ کے سہارے پاؤں گھسیٹتے مُصلّٰی تک پہنچے اور حضرت ابو بکرؓ کے بائیں پہلو میں بیٹھ گئے، حضرت ابو بکرؓ آنحضرتﷺ کی اقتدا کر رہے تھے اور باقی لوگ حضرت ابو بکرؓ کی، حضرت ابو بکرؓ بلند آواز سے تکبیر کہہ رہے تھے تا کہ لوگ سن لیں ، اس کے بعد حضرت ابو بکر ہی نماز پڑھاتے رہے اور آپﷺ کی وفات سے پہلے (۱۷) نمازیں پڑھائیں، کتاب " اصح السّیر" کی بموجب (۲۱) نمازیں پڑھائیں،
حضرت عبداللہ ؓ بن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے کسی امتی کے پیچھے نماز ادا نہیں کی بجز ایک بار پوری نماز حضرت ابو بکرؓ کی اقتدا میں اور ایک دفعہ سفر میں ایک رکعت حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کے پیچھے ،حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف کے پیچھے ایک رکعت فوت شدہ ادا کرنے کے بعد فرمایا :کسی نبی نے ایسا نہیں کیا ہے کہ اس نے اپنی امت کے ایک صالح فرد کے پیچھے نماز اداکی ہو۔
نبیﷺ کی حیات مبارکہ میں ان کی پڑھائی ہوئی نمازوں کی تعداد سترہ ہے۔ جمعرات کی عشاء ، دوشنبہ کی فجر اور بیچ کے تین دنوں کی پندرہ نمازیں۔( بخاری مع فتح الباری ۲/۱۹۳ ، حدیث نمبر ۶۸۱ ، مسلم : کتاب الصلاۃ ۱/۳۱۵ حدیث نمبر ۱۰۰ ، مسند احمد ۶/۲۲۹)
حضرت عائشہؓ نے نبیﷺ سے تین یا چار بار مراجعہ فرمایا کہ امامت کا کا م حضرت ابو بکرؓ کے بجائے کسی اور کو سونپ دیں۔ ان کا منشاء یہ تھا کہ لوگ ابو بکرؓ کے بارے میں بد شگون نہ ہوں۔( دیکھئے: بخاری مع فتح الباری ۷/۷۵۷ حدیث نمبر ۴۴۴۵ مسلم کتاب الصلاۃ ۱/۳۱ حدیث نمبر ۹۳، ۹۴) لیکن نبیﷺ نے ہر بار انکار فرمادیا۔ اور فرمایا : تم سب یوسف والیاں ہو، ابو بکرؓ کو حکم دو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے سلسلے میں جو عورتیں عزیز مصر کی بیوی کو ملامت کررہی تھیں وہ بظاہر تو اس کے فعل کے گھٹیا پن کا اظہار کررہی تھیں۔ لیکن یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر جب انہوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں تو معلوم ہوا کہ یہ خود بھی درپردہ ان پر فریفتہ ہیں۔ یعنی وہ زبان سے کچھ کہہ رہی تھیں۔ لیکن دل میں کچھ اور ہی بات تھی۔ یہی معاملہ یہاں بھی تھا۔ بظاہر تو رسول اللہﷺ سے کہا جارہا تھا کہ ابو بکر رقیق القلب ہیں۔ آپﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے۔ تو گریہ ٔ وزاری کے سبب قراء ت نہ کرسکیں گے یا سنا نہ سکیں گے۔ لیکن دل میں یہ بات تھی کہ اگر خدانخواستہ حضور اسی مرض میں رحلت فرماگئے تو ابوبکرؓ کے بارے میں نحوست اور بدشگونی کا خیال لوگوں کے دل میں جاگزیں ہوجائے گا۔ چونکہ حضرت عائشہ ؓ کی اس گذارش میں دیگر ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہم بھی شریک تھیں۔ اس لیے آپﷺ نے فرمایا: تم سب یوسف والیاں ہو، یعنی تمہارے بھی دل میں کچھ ہے اور زبان سے کچھ کہہ رہی ہو۔( صحیح بخاری ۱/۹۹)
مکمل تحریر >>

حدیثِ قرطاس


وفات سے چار دن پہلے جمعرات کو جب کہ آپﷺ سخت تکلیف سے دوچار تھے فرمایا : لاؤ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم لوگ کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ اس وقت گھر میں کئی آدمی تھے۔ جن میں حضرت عمرؓ بھی تھے۔ انہوں نے کہا : آپﷺ پر تکلیف کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن ہے۔ بس اللہ کی یہ کتاب تمہارے لیے کافی ہے۔ اس پر گھر کے اندر موجود لوگوں میں اختلاف پڑگیا اور وہ جھگڑ پڑے۔ کوئی کہہ رہا تھا :لاؤ رسول اللہﷺ لکھ دیں۔ اور کوئی وہی کہہ رہاتھا جو حضرت عمرؓ نے کہا تھا۔ اس طرح لوگوں نے جب زیادہ شوروشغب اور اختلاف کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔( متفق علیہ : صحیح بخاری ۱/۲۲، ۴۲۹ ، ۴۴۹،۲/۶۳۸)
یہ واقعہ جمعرات کے دن کاہے، اور حضور اکرمﷺ نے پیر کو انتقال فرمایا ، یعنی کہ اس واقعہ کے بعد آپﷺ چارروز تک حیات رہے، اگر آپﷺ چاہتے تو دوبارہ اس بات کا حکم دے سکتے تھے، یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حاضرین نے وصیت کا لکھوانا یاد دلایا ، آپﷺ نے فرمایا : مجھے چھوڑ دو ، میں اس وقت جس حالت میں ہوںوہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو، پھر آپﷺ نے تین وصیتیں فرمائیں:
(۱) یہود کو عرب سے باہر نکال دو،
(۲) وفود کی رہنمائی کرو اور انہیں زادِ راہ دو ،
(۳) تیسری بات راوی بھول گیا لیکن صحیح بخاری کی کتاب الوصایا میں حضرت عبداللہ ؓ بن ابی اوفی نے کہا کہ قرآن مجید کے متعلق وصیت فرمائی، آپﷺ نے یہ بھی وصیت فرمائی کہ’‘ میرے وارث نہ دینا ر تقسیم کریں اور نہ درہم ، ہم (انبیاء)اپنی بیویوں کے اخراجات اور اپنے عامل کی اجرت کے علاوہ جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے"
کچھ سرخ دینار کہیں سے آئے تھے ، صدقہ کے بعد سات یا آٹھ دینار حضرت عائشہؓ کے پاس تھے، بے ہوشی کے بعد جب آپﷺ کو ہوش آیا تو پوچھا … ان دینار کا کیا ہوا ؟ عرض کیا : رکھے ہیں، فرمایا : صدقہ کر دو، کیا تمہارا گمان یہ ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے پاس اس حالت میں جائیں کہ یہ سب کچھ ہو، اس روز تک کی تمام نمازیں آنحضرت ﷺ نے خود پڑھائیں ، نماز مغرب میں سورۂ والمرسلات کی تلاوت فرمائی، یہ آخری نماز تھی جو صحابہؓ نے آپﷺ کی امامت میں ادا کی،
مکمل تحریر >>

وفات سے پانچ دن پہلے


وفات سے پانچ دن پہلے روز چہار شنبہ (بدھ) کو جسم کی حرارت میں مزید شدت آگئی۔ جس کی وجہ سے تکلیف بھی بڑھ گئی۔ اور غَشی طاری ہوگئی۔ آ پﷺ نے فرمایا : مجھ پر مختلف کنوؤں کے سات مشکیز ے بہاؤ تاکہ میں لوگوں کے پاس جاکر وصیت کرسکوں۔ اس کی تکمیل کرتے ہوئے آپﷺ کوایک لگن میں بٹھا دیا گیا۔ اور آپﷺ کے اوپر اتنا پانی ڈالا گیا کہ آپ ''بس۔'' ''بس '' کہنے لگے۔
اس وقت آپﷺ نے کچھ تخفیف محسوس کی۔ اور مسجد میں تشریف لے گئے - سر پر پٹی معیالی بندھی ہوئی تھی - منبر پر فروکش ہوئے اور بیٹھ کر خطبہ دیا۔ یہ آخری بیٹھک تھی جو آپﷺ بیٹھے تھے۔ آپﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا کی۔ پھر فر مایا: لوگو! میرے پاس آجاؤ۔ لوگ آپﷺ کے قریب آگئے۔ پھر آپﷺ نے جو فرمایا اس میں یہ فرمایا: ''یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنایا۔'' ایک روایت میں ہے کہ ''یہود ونصاریٰ پر اللہ کی مار کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنایا ۔''(صحیح بخاری ۱/۶۲ مؤطا امام مالک ص ۳۶۰)
آپﷺ نے یہ بھی فرمایا : ''تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے۔''(موطا امام مالک ص ۶۵)
پھر آپﷺ نے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کیا اور فرمایا: ''میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مار اہو تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے ، وہ بدلہ لے لے۔ اور کسی کی آبرو پر بٹہ لگایا ہوتو یہ میری آبرو حاضر ہے، وہ بدلہ لے لے۔''
اس کے بعد آپﷺ منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ ظہر کی نمازپڑھائی، اور پھر منبر پر تشریف لے گئے۔ اور عداوت وغیرہ سے متعلق اپنی پچھلی باتیں دہرائیں۔ ایک شخص نے کہا : آپ کے ذمہ میرے تین درہم باقی ہیں۔ آپﷺ نے فضل بن عباس سے فرمایا : انہیں ادا کردو۔ اس کے بعد انصار کے بارے میں وصیت فرمائی۔ فرمایا :
'' میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ میرے قلب و جگر ہیں۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی۔ مگر ان کے حقوق باقی رہ گئے ہیں۔ لہٰذا ان کے نیکوکار سے قبول کرنا۔ اور ان کے بد کار سے درگذر کرنا۔'' ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : '' لوگ بڑھتے جائیں گے اور انصار گھٹتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ کھانے میں نمک کی طرح ہوجائیں گے۔ لہٰذا تمہارا جو آدمی کسی نفع اور نقصان پہنچانے والے کام کا والی ہو تو وہ ان کے نیکوکاروں سے قبول کرے اور ان کے بدکاروں سے درگذر کرے۔''(صحیح بخاری ۱/۵۳۶)
اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: '' ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ یاتو دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو کچھ چاہے اللہ اسے دے د ے ، یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کرلیا۔''ابو سعید خدریؓ کا بیان ہے کہ یہ بات سن کر ابو بکرؓ رونے لگے۔ اور فرمایا : ہم اپنے ماں باپ سمیت آپ پر قربان۔ اس پر ہمیں تعجب ہوا۔ لوگوں نے کہا : اس بڈھے کو دیکھو ! رسول اللہﷺ تو ایک بندے کے بارے میں یہ بتارہے ہیں کہ اللہ نے اسے اختیار دیا کہ دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو چاہے اللہ اسے دے دے یا وہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے۔ اور یہ بڈھا کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ پر قربان۔ ( لیکن چند دن بعد واضح ہوا کہ) جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہﷺ تھے۔ اور ابو بکرؓ ہم میں سب سے زیادہ صاحب علم تھے۔( متفق علیہ : مشکوٰۃ ۲/۵۴۶، ۵۵۴)
پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : مجھ پر اپنی رفاقت اور مال میں سب سے زیادہ صاحب احسان ابو بکرؓ ہیں۔ اور اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو خلیل بناتا تو ابو بکرؓ کو خلیل بناتا لیکن (ان کے ساتھ) اسلام کی اخوت و محبت ( کا تعلق ) ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ باقی نہ چھوڑا جائے بلکہ اسے لازما ًبند کردیا جائے، سوائے ابوبکرؓ کے دروازے کے۔( صحیح بخاری ۱/۵۱۶)
مکمل تحریر >>

حیاتِ طیبہ کا آخری باب


جب دعوت دین مکمل ہوگئی اور عرب کی نکیل اسلام کے ہاتھ میں آگئی تو رسول اللہﷺ کے جذبات واحساسات ، احوال وظروف اور گفتارو کردار سے ایسی علامات نمودار ہونا شروع ہوئیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ اب آپﷺ اس حیات مستعار کو اور اس جہان فانی کے باشندگان کو الوداع کہنے والے ہیں۔ مثلا ً:
آپﷺ نے رمضان ۱۰ ھ میں بیس دن اعتکاف فرمایا جبکہ ہمیشہ دس ہی دن اعتکاف فرمایاکرتے تھے، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اس سال دو مرتبہ قرآن کا دَور کرایا جبکہ ہر سال ایک ہی مرتبہ دَور کرایا کرتے تھے۔ آپﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا : مجھے معلوم نہیں غالبا میں اس سال کے بعد اپنے اس مقام پر تم لوگوں سے کبھی نہ مل سکوں گا۔ جمرئہ عقبہ کے پاس فرمایا : مجھ سے اپنے حج کے اعمال سیکھ لو۔ کیونکہ میں اس سال کے بعد غالبا ًحج نہ کرسکوں گا۔ آپﷺ پر ایام تشریق کے وسط میں سورۂ نصر نازل ہوئی۔ اور اس سے آپﷺ نے سمجھ لیا کہ اب دنیا سے روانگی کا وقت آن پہنچا ہے۔ اور یہ موت کی اطلاع ہے۔
اوائل صفر ۱۱ ھ میں آپﷺ دامنِ اُحد میں تشریف لے گئے۔ اور شہداء کے لیے اس طرح دعا فرمائی گویا زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہے ہیں۔ پھر واپس آکر منبر پر فروکش ہوئے۔ اور فرمایا : میں تمہارا میر کارواں ہوں۔ اور تم پر گواہ ہوں۔ واللہ! میں اس وقت اپنا حوض ( حوضِ کوثر ) دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ اور واللہ! مجھے یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کروگے۔ بلکہ اندیشہ اس کا ہے کہ دنیا کے بارے میں تنافس کروگے۔ (متفق علیہ۔ صحیح بخاری ۲/۵۸۵، فتح الباری ۳/۲۴۸ حدیث نمبر ۱۳۴۴،۳۵۹۶، ۴۰۴۲، ۴۰۸۵،۶۴۲۶،۶۵۹۰)
ایک روز نصف رات کو آپﷺ بقیع تشریف لے گئے۔ اور اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت کی۔ فرمایا : اے قبر والو ! تم پر سلام ! لوگ جس حال میں ہیں اس کے مقابل تمہیں وہ حال مبارک ہو جس میں تم ہو۔ فتنے تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ایک کے پیچھے ایک چلے آرہے ہیں۔ اور بعد والا پہلے سے زیادہ برا ہے۔ اس کے بعد یہ کہہ کر اہل قبور کو بشارت دی کہ ہم بھی تم سے آملنے والے ہیں۔

۲۹ صفر ۱۱ ھ روز دوشنبہ کو رسول اللہﷺ ایک جنازے میں بقیع تشریف لے گئے۔ واپسی پر راستے ہی میں درد ِ سر شروع ہوگیا۔ اور حرارت اتنی تیز ہوگئی کہ سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی۔ یہ آپﷺ کے مرض الموت کا آغاز تھا۔ آپﷺ نے اسی حالت مرض میں گیارہ دن نماز پڑھائی۔ مرض کی کل مدت ۱۳ یا ۱۴ دن تھی۔

رسول اللہﷺ کی طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی جارہی تھی۔ اس دوران آپﷺ ازواج مطہرات سے پوچھتے رہتے تھے کہ میں کل کہاں رہوں گا ؟ میں کل کہاں رہوں گا ؟ اس سوال سے آپﷺ کا جو مقصود تھا ازواج مطہرات اسے سمجھ گئیں۔ چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی کہ آپﷺ جہاں چاہیں رہیں۔ اس کے بعد آپﷺ حضرت عائشہ ؓ کے مکان میں منتقل ہوگئے۔ منتقلی کے وقت حضرت فضل بن عباس اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے درمیان ٹیک لگا کر چل رہے تھے۔ سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اور پائوں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ اس کیفیت کے ساتھ آپ حضرت عائشہ کے مکان میں تشریف لائے۔ اور پھر حیات ِمبارکہ کا آخری ہفتہ وہیں گذارا۔
حضرت عائشہ ؓ معوذات اور رسول اللہﷺ سے حفظ کی ہوئی دعائیں پڑھ کر آپﷺ پر دم کرتی رہتی تھیں۔ اور برکت کی امید میں آپﷺ کا ہاتھ آپﷺ کے جسم مبارک پر پھیرتی رہتی تھیں۔
مکمل تحریر >>

آخری فوجی مہم - سریہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ


رومن امپائر کی کبریائی کو گوارا نہ تھا کہ وہ اسلام اور اہل اسلام کے زندہ رہنے کا حق تسلیم کرے۔ اسی لیے اس کے قلمرو میں رہنے والا کوئی شخص اسلام کا حلقۂ بگوش ہوجاتا تو اس کے جان کی خیر نہ رہتی، جیسا کہ معان کے رومی گورنر حضرت فروہ بن عمرو جذامیؓ کے ساتھ پیش آچکا تھا۔
اس جرأت بے محابا اور اس غرور بے جا کے پیش نظر رسول اللہﷺ نے صفر ۱۱ ھ میں ایک بڑے لشکر کی تیاری شروع فرمائی اور حضرت اسامہ بن زید بن حارثہؓ کو اس کاسپہ سالار مقرر فرماتے ہوئے حکم دیا کہ بلقاء کا علاقہ اور داروم کی فلسطینی سر زمین سواروں کے ذریعہ روند آئو۔ اس کارروائی کا مقصد یہ تھا کہ رومیوں کو خوف زدہ کرتے ہوئے ان کی حدود پر واقع عرب قبائل کا اعتماد بحال کیا جائے۔ اور کسی کو یہ تصور کرنے کی گنجائش نہ دی جائے کہ کلیسا کے تشدد پر کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔ اور اسلام قبول کرنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اپنی موت کو دعوت دی جارہی ہے۔
اس موقع پر کچھ لوگوں نے سپہ سالار کی نو عمری کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا۔ اور اس مہم کے اندر شمولیت میں تاخیر کی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ ان کی سپہ سالاری پر طعنہ زنی کر رہے ہو تو ان سے پہلے ان کے والد کی سپہ سالاری پر طعنہ زنی کرچکے ہو۔ حالانکہ وہ اللہ کی قسم ! سپہ سالاری کے اہل تھے۔ اور میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے تھے۔ اور یہ بھی ان کے بعد میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے ہیں۔( صحیح بخاری :باب بعث النبیﷺ اُسامۃ ۲/۶۱۲)
بہر حال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت اسامہ ؓ کے گردا گرد جمع ہوکر ان کے لشکر میں شامل ہوگئے۔ اور لشکر روانہ ہوکر مدینہ سے تین میل دور مقام جرف میں خیمہ زن بھی ہوگیا لیکن رسول اللہﷺ کی بیماری کے متعلق تشویشناک خبروں کے سبب آگے نہ بڑھ سکا بلکہ اللہ کے فیصلے کے انتظار میں وہیں ٹھہرنے پر مجبور ہوگیا۔ اور اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ یہ لشکر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت کی پہلی فوجی مہم قرار پائے۔( ایضا صحیح بخاری ، وابن ہشام ۲/۶۰۶ ، ۶۵۰)
مکمل تحریر >>

آخری وحی


حضرت عبداللہ ؓ بن عمر سے روایت ہے کہ سورۂ نصر ایام تشریق کے وسط میں منٰی کے مقام پر نازل ہوئی، اس کے بعد حضور ﷺ نے اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوکر وہ مشہور خطبہ ارشاد فرمایا جس کے اختتام پر لوگوں کی شہادت پر اللہ کو گواہ بنایا، جس وقت یہ سورت نازل ہوئی تو بعض صحابہؓ یہ سمجھ گئے کہ اب نبی ﷺ کا آخری وقت آگیا ہے ، اس سے چند دن قبل ہی سورۂ مائدہ کی آیت ۳ نازل ہوچکی تھی جس میں فرمایا گیا:
" (ترجمہ ) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا "
( سورۂ مائدہ : ۳ )
تکمیل دین کی آیت کا نزول اس بات کا اشارہ تھا کہ کارِ نبوت اختتام کو پہنچ چکا ہے ، چنانچہ مزاج دانِ رسول حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ مضطرب ہوگئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے ، حضرت عبداللہؓ بن عمر کی روایت ہے کہ سورۂ نصر مکمل نازل ہونے والی آخری سورت ہے جس طرح سورۂ فاتحہ مکمل نازل ہونے والی پہلی سورت تھی حالانکہ اس سےپہلے سورہ ٔ اقراء اور سورۂ مدثر کی چند آیات نازل ہوچکی تھیں ، تکمیل دین کی آیت کے نزول کے بعد حضور اکرم ﷺ اس دنیا میں کل (۸۰) دن رہے،
سورۂ نصر کا ایک نام سورۃ التوریع بھی ہے ( کسی کو رخصت کرنے کو توریع کہا جاتا ہے ) اس کے بعد آیت کلالہ (جو سورۂ نساء کی آخری سورت ہے ) نازل ہوئی جب کہ حضورﷺ کے اس دنیا کے قیام کے پچاس دن باقی رہ گئے تھے، حضرت براءؓ بن عازب نے اسے سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت بیان کیا ہے ، حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارک کے ابھی ۳۵ دن باقی تھے کہ سورۂ توبہ کی آیات ۱۲۸ اور ۱۲۹نازل ہوئیں جنھیں حضرت ابیؓ بن کعب سب سے آخر نازل ہونے والی آیت کہتے ہیں :
(ترجمہ ) " تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گذرتی ہے ‘ جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں، ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں(۱۲۸ ) پھر اگر وہ رو گردانی کریں تو آپﷺ کہہ دیجئے کہ میرے لئے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں نے اسی پربھروسہ کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے
( سورۂ توبہ: ۱۲۹ )
حضرت عبداللہؓ بن عباس کا قول ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۸۱ قرآن میں نازل ہونے والی آخری آیت ہے ،
(ترجمہ ) " اور اس دن سے ڈرو جبکہ تم اللہ کے حضورلوٹ جاؤگے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ،
( سورۂ بقرہ ۲۸۱ )
حضرت سعیدؓ بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ اس اس آیت کے نزول کے (۹) دن بعد حضورﷺ کی وفات ہوئی، حضرت عبداللہؓ بن عباس سے روایت ہے کہ جب سورۂ نصر نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے میری وفات کی خبر دے دی گئی ہے ، اس سورۃ کے نزول کے بعد آپﷺ ہر نماز کے بعد دعا فرماتے :
" سبحٰنک اللھم و بحمدک اللھم اغفرلی" حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہیں کہ آخری زمانہ میں آپﷺ اُٹھتے بیٹھتے " سبحان اللہ و بحمدہ " پڑھا کرتے تھے، حضرت عبداللہؓ بن عباس فرماتے ہیں کہ سورۂ نصر کے نزول کے بعد آنحضرت ﷺ آخرت کے لئے ریاضت میں حد درجہ مشغول ہوگئے ، حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ عبادت میں اتنا مجاہدہ فرمایا کہ پاؤں متورم ہوگئے تھے،
حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے وصال سے ایک مہینہ پہلے چند خاص صحابہؓ کو حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں طلب فرمایا ، جب سب حاضر ہوئے تو آپﷺ اشکبار ہوئے ، یہ کیفیت دیکھ کر سب پر گریہ کی حالت طاری ہوگئی ، آپﷺ نے فرمایا :" میں تم کو تقویٰ اور اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں ‘تم کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور اپنا خلیفہ مقرر کرتا ہوں ، تم کو اللہ کے عذاب سے ڈ راتا ہوں ، میں نذیر مبین ہوں ، تم کو ہر گز تکبر نہیں کرنا چاہیے ، اللہ تعالیٰ نے تم کو امر فرمایا ہے کہ " یہ دارِ آخرت ہم انہیں کو دیں گے جو زمین میں نہ تکبر کرتے ہیں اور نہ فساد مچاتے ہیں اور انجام کار متقیوں کے لئے ہے اور دوزخ متکبرین کا ٹھکانہ ہے، " ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپﷺ کو بھی موت آئے گی ؟ فرمایا: جدائی کا وقت قریب ہے، عرض کیا آپﷺ کو غسل کون دے گا ؟ فرمایا ! میرے اہل بیت کے مرد جو میرے قریبی عزیز ہیں ، عرض کیا:آپﷺ کو کن کپڑوں میں کفنائیں ؟فرمایا:جواب میں جو میرے جسم پر ہو یا چاہو تو مصری ‘ یا یمنی حُلہ یا سفید کپڑے میں ،
پوچھا … کیا ہم آپﷺ پر نماز پڑھیں ؟ اس کے بعد سب پر گریہ طاری ہوگیا ، فرمایا! صبر کرو، اللہ تعالیٰ تم کو اپنے نبی کی جانب سے خیر عطا فرمائے گا ،
ارشاد ہوا: " کفن میں لپیٹ کر قبر کے کنارے رکھ دو ، تھوڑی دیر کے لئے وہاں سے ہٹ جاؤ تاکہ سب سے پہلے جبرئیل ؑ نماز پڑھیں ‘ پھر میکائیل ؑ پھر اسرافیل ؑ پھر ملک الموت تمام فرشتو ں کے ساتھ ، پھر تمام لوگ گروہ در گروہ ، ابتداء میرے اہل بیت کریں پھر اہل بیت کی عورتیں اس کے بعد تمام اصحاب ، نوحہ و فریاد سے مجھے اذیت نہ دینا ، میرا سلام ان لوگو ں تک پہنچا دینا جو غائب ہیں ، جو میرے دین کی پیروی کر ے اور میری سنت کی اتباع کرے قیامت تک میرا ان پر سلام ہو " ، عرض کیا :
یا رسول اللہ ! آپﷺ کو قبر میں کون اُتارے گا ؟ فرمایا: میرے اہل بیت تمام فرشتوں کے ساتھ جنھیں تم دیکھ نہ سکو گے مگر وہ تمہیں دیکھتے ہوں گے،
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کوئی نبی دنیا سے رخصت ہی نہیں ہوتا جب تک جنت میں اپنا گھر نہ دیکھ لے ، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے ، حضرت عائشہؓ یہ بھی کہتی ہیں کہ میں نے آپﷺ کو فرماتے سنا ، " میں نے رفیق اعلیٰ کو اختیار کیا " ، حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد آپﷺ نے محرم اور صفر کے مہینوں میں مدینہ ہی میں قیام فرمایا ،
مکمل تحریر >>

حدیثِ نخع


یہ وفد محرم ۱۱ ہجری میں آیا تھا جس میں (۲۰۰ ) افراد تھے ،اس وفد کو حضرت رملہ ؓ بنت حارث کے مکان میں ٹھہرایا گیا تھا جو حضرت معاذؓ بن عفرا کی زوجہ تھیں اور بنی نجار کی صحا بیہ تھیں ، اس وفد کے لوگوں نے حضرت معاذ بن جبل کے ہاتھ پر یمن میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا، یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے والا آخری وفد تھا، یہ لوگ یمن کے مذحج قبیلہ کی شاخ تھے،
اس وفد کے ایک شخض زرارہؓ بن عمرو نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میں نے راستہ میں عجیب خواب دیکھے، فرمایا: بیان کر و ، عرض کیا میں نے قبیلہ میں ایک گدھی چھوڑ رکھی ہے ، اس نے سیاہ اور سرخ رنگ کا بچہ جنا ہے، فرمایا: کیا تمہاری کوئی لونڈی حاملہ تھی ؟ کہا : ہاں ، ارشاد ہوا : اس نے لڑکا جنا ہے تو تیرا ہی ہے ، عرض کیا: اور اس کا رنگ ایسا کیوں ہے ؟ فرمایا : قریب آجاؤ ، آہستہ سے پوچھا ، کیا تمہیں برص ہے جسے چھپاتے ہو ؟ عرض کیا:اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اس کا کسی کو علم نہیں ، فرمایا:اسی کا اثر ہے،
ایک اور خواب کا ذکر کرتے ہوئے کہا ، میں نے زمین سے آگ نکلتے دیکھی پھر وہ آگ میرے اور میرے بیٹے عمرو کے درمیان حائل ہوگئی، تعبیر میں فرمایا : یہ وہ فتنہ ہے جو آخر میں ظاہر ہوگا، پوچھا … فتنہ کیا ہے ؟ ارشاد ہوا: لوگ اپنے امام کو قتل کر دیں گے ، آپس میں خونریزی ہوگی ، خون پانی کی طرح ارزاں ہوجائے گا ، اگر تم مر گئے تو تمہارا بیٹا اسے دیکھے گا اور اگر وہ مر گیا تو تم اس فتنہ کو دیکھو گے ، عرض کیا : دعا فرمائیے کہ میں اس زمانہ کو نہ پاؤں ، آپﷺ نے دعا فرمائی ، چند دنوں بعد وہ انتقال کر گئے ، ان کا بیٹا زندہ رہا ، بعد میں جب امیر المومنین حضرت عثمان ؓبن عفان کی شہادت کا فتنہ برپا ہوا تو حضرت زرارہؓ کا بیٹا بیعت توڑ کر باغیوں کے ساتھ تھا.
(سیرت احمد مجتبیٰ)
مکمل تحریر >>

حدیثِ جبریل


حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد ایک دن آنحضرتﷺ صحابہؓ کرام کے درمیان مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے ، حضرت عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ اچانک ایک اجنبی حاضر ہوا ، اس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بے حد سیاہ تھے ، لباس سے خوشبو کی مہک آرہی تھی ، اجنبی ہونے کے باوجود اس پر سفر کے کچھ آثار نہ تھے ، ہم میں سے کوئی اس نووارد کو جانتا نہیں تھا، وہ آپﷺ کے قریب نہایت ادب سے دو زانو ہوکر بیٹھ گیا اور گھٹنے حضورﷺکے گھٹنوں سے ملا دئیے ،اس شخص نے دریافت کیا … ائے محمدﷺ ! اسلام کیا ہے ؟
حضور ﷺنے فرمایا :
اسلام یہ ہے کہ تم شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی اِلہٰ نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کر و ، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر حج بیت اللہ کی استطاعت ہے تو حج کرو، نووارد نے جواب سن کر کہا ، آپﷺ نے سچ کہا ،اس نے پھر پوچھا … مجھے بتلائیے کہ ایمان کیا ہے ؟
فرمایا :
ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو ‘ اس کے فرشتوں کو ‘ اس کی کتاب کو ‘ اس کے رسولوں اور یوم آخر یعنی قیامت کو حق جانو اور حق مانو اور ہر خیر و شر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو ، یہ سن کر بھی اس نے کہا کہ آپﷺ نے سچ کہا،
حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ یہ شخص سوال بھی کرتا ہے اور خود ہی اس کی تصدیق کرتا ہے، پھر اس نے پوچھا … احسان کس چیز کا نام ہے ؟
فرمایا : احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت ایسی دل لگاکر کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہوسکے تو یہ خیال رہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ،اس نے سوال کیا … قیامت کب آئے گی ؟فرمایا : جس سے یہ بات پوچھی جا رہی ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ، عرض کیا: تو مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے ، فرمایا : میں تمہیں اس کی علامتیں بتائے دیتا ہوں ،
(۱) جب لونڈی اپنے آقا اور مالک کو جنے گی
(۲) تم دیکھو گے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور تن پر کپڑا نہیں جو تہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنائیں گے اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے،
صحیح بخاری کے بموجب قیامت غیب کی ان پانچ باتوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، پھر آنحضرت ﷺ نے سورۂ لقمان کی آیت نمبر ۳۴ تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے :
" اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور وہی (حاملہ کے ) پیٹ کی چیز وں جانتا ہے (نر ہے یا مادہ ) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کس سر زمین میں اُسے موت آئے گی، بے شک اللہ ہی جاننے والا ہے، خبر دار ہے "
(سورۂ لقمان : ۳۴ )
پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! اس کو پھر لے آؤ ، لوگوں نے جاکر دیکھا تو وہاں کسی کو نہ پایا ،
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ اس واقعہ کو کچھ عرصہ بیت گیا، ایک دن حضورﷺ نے فرمایا: ائے عمر… کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ شخص جو سوالات کر رہا تھا کون تھا ؟
حضرت عمرؓ نے عرض کیا : اللہ اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ، فرمایا:وہ جبرئیل ؑ تھے تمہاری مجلس میں اس لئے آئے تھے کہ تمہیں تمہارا دین سکھائیں ،یہ بہت مشہور حدیث ہے جو عام طور پر حدیث جبرئیل ؑ کے نام سے مشہور ہے ، اسے " اُم الاحادیث " بھی کہا جاتا ہے ، اسے حیات طیبہ کی ۲۳ سالہ جد وجہد کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے ، یہ واقعہ تکمیل دین کی آیت کے نزول کے بعد اس وقت ہوا جبکہ اس دنیا میں آپﷺ کی عمر مبارک میں صرف تین دن باقی رہ گئے تھے،
حضور ﷺنے فرمایا کہ میں جبرئیل کو ہر شکل میں پہچان لیتا ہوں لیکن اس دفعہ نہ پہچان سکا کیونکہ وہ ایک بدو سائل کے بھیس میں آئے تھے، امین وحی نہیں بلکہ ملائکہ کے نمائندہ بن کر آئے تھے، میں نے انھیں افق اور سدرۃالمنتہیٰ پر ہیت اصلی میں بھی دیکھا، یہ موقع عینی مخلوق کی نمائندگی کا تھا لہٰذا پردہ بعد میں اٹھا ، دین مکمل ہوگیا ، اب قیامت تک اس میں نہ کوئی کمی ہوسکتی ہے اور نہ بیشی ، زمین وآسمان کی مخلوق نے گواہی دی.
(سیرت احمد مجتبیٰ)
مکمل تحریر >>

طوافِ وداع


بوقت سحر بیدار ہو کر سواری پر طواف وداع کے لئے مسجدحرام میں تشریف لے گئے، طواف کے بعد ملتزم پر وقوف فرمایا(ملتزم ‘ حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان ہے )یہاں سے چاہ زم زم پر جا کر خود اپنے دست مبارک سے ڈول کھینچا اور قبلہ رو ہو کر پانی نوش فرمایا اور بچاہوا پانی کنویں میں ڈال دیا، حضورﷺ کے اسی عمل کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے زم زم کو چشمہ بقا بنا دیا، آپﷺ نے دس دن مکہ میں قیام فرمایا اور قصر نمازیں ادا کیں ، سلام کے بعد ارشاد فرماتے، مکہ والے سنو ! اپنی نمازیں پوری کرو، ہم تومسافر ہیں ،
طواف وداع کے بعد آپﷺ مغموم ‘ آب دیدہ اور حزن و ملال سے مغلوب تھے ، مکہ سے واپسی کے وقت کدا( اسفل) والا راستہ اختیار فرمایا ، یہ سمِت اس راستہ کے بالکل مخالف تھی جس سے مکہ میں داخل ہوئے تھے، کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہی سنت تھی کہ بیت اللہ کی تعظیم کی خاطر علو ( بلندی)کی طرف سے مکہ میں داخل ہوتے او ر اسفل ( نشیب) والے راستہ سے باہر نکلتے، ابن حزم کے قول کے مطابق اسی پر عمل فرماتے ہوئے آپﷺ معہ صحابہ ؓ ۱۴ ذی الحجہ بروز بدھ سورج نکلنے سے پہلے مکہ سے روانہ ہوگئے، مقام ذی طویٰ میں پڑاؤ کیا اور وہیں رات گزاری اور صبح کو مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوگئے،
راستہ میں ایک مقام خم آیا جو حجفہ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے ، یہاں ایک تالاب ہے ، عربی میں تالاب کو غدیر کہتے ہیں ، اور اس لئے اس کا نام عام روایتوں میں غدیر خُم آتا ہے، یہاں آپﷺ نے نماز ظہر کے بعد صحابہؓ کو جمع کر کے ایک مختصر خطبہ ارشاد فرمایا
" حمد ثنا کے بعد ، ائے لوگو ! میں بھی بشر ہوں، ممکن ہے کہ خدا کا فرشتہ جلد آجائے اور مجھے ( موت) قبول کرنا پڑے، میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑتاہوں ، ایک اللہ کی کتاب جس کے اندر ہدایت اور روشنی ہے، اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑے رہو ، دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں خدا کو یاد دلاتا ہوں ،آخری جملہ کو آپ ﷺنے تین دفعہ مکرر فرمایا، یہ صحیح مسلم (مناقب حضرت علیؓ ) کی روایت ہے، نسائی، مسند احمد وغیرہ میں کچھ فقرے بھی ہیں جن میں حضرت علیؓ کی منقبت ظاہر کی گئی ہے ، ان روایتوں میں ایک فقرہ اکثر مشترک ہے،
" جس کو میں محبوب ہوں علیؓ بھی اس کو محبوب ہونا چاہیے ، الٰہی جو علیؓ سے محبت رکھے اس سے تو بھی محبت رکھ اور جو علیؓ سے عداوت رکھے تو بھی عداوت رکھ"
احادیث میں خاص یہ تصریح نہیں کہ ان الفاظ کے کہنے کی ضرورت کیا پیش آئی ؟ بخاری میں ہے کہ اسی زمانہ میں حضرت علیؓ یمن بھیجے گئے تھے، جہاں سے واپس آکر حج میں شامل ہوئے تھے، قیام یمن کے زمانہ میں حضرت بریدہؓ اسلمی کو حضرت علیؓ سے کچھ شکایت ہوگئی تھی، جو حضرت بریدہؓ کا قصور فہم تھا، چونکہ یہ بات لوگوں میں پھیل گئی تھی اس لئے آنحضرت ﷺ نے بطور خاص حضرت علیؓ کا ذکر کر کے فرمایا:" علیؓ کو اس سے زیادہ کا حق تھا"
(سیرت النبی جلد اول )
مدینہ کے قریب پہنچ کر ذولحلیفہ میں قیام فرمایا ، معرس جو مدینہ سے چھ میل دور پر ہے اس راستہ کو اختیار فرمایا اور مدینہ منورہ میں داخل ہوئے، ثنیہ یا مقام قد قدپر پہنچے تو زبان مبارک پر یہ دعا تھی:
" خدا بزرگ و برتر ہے ‘ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ‘ کوئی اس کا شریک نہیں ‘ بس اسی کی سلطنت ہے ، اس کے لئے مدح و ستائش ہے ، وہ ہر بات پر قادر ہے ، ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں ، سجدہ کرنے والے ہیں ، اپنے رب کی ثنا کرنے والے ہیں ، اللہ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا، اس نے اپنے بندہ کی مدد کی اور اس نے تمام لشکروں کو تنہا شکست دی"
مکمل تحریر >>

طوافِ افاضہ


زوال آفتاب سے پہلے مکہ مکرمہ کے لئے راونہ ہوئے ، قصویٰ ہی پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف فرمایا، حضرت اُسامہؓؓ آ پ ﷺ کے پیچھے اونٹنی پر بیٹھے ہوئے تھے ، حجر اسود کو اپنے ہاتھ سے چھوتے اور اس کا بوسہ لیتے، طواف کے بعد آپﷺ سبیل پر تشریف لائے ، حضرت عباسؓ نے اپنے بیٹے فضل سے کہا کہ اپنی والدہ سے پانی مانگ لاؤ، حضور ﷺ نے فرمایا: اسی میں سے پلادو، عرض کیا: اس میں لوگ ہاتھ ڈالتے ہیں ، فرمایا: اسی میں سے پلادو ، پانی پلانے کے بعد حضرت عباسؓ نے کھجور کا شربت پیش کیا ، آپﷺ نے نوش فرمایا اور کچھ بچا کر اسامہ ؓ کو عطا فرمایا،
وہاں سے آپﷺ چاہ زم زم پر تشریف لائے، چاہ زمزم سے حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت خاندان عبدالمطلب سے متعلق تھی، چنانچہ اس وقت اس خاندان کے لوگ پانی نکال کر لو گوں کو پلارہے تھے، آپﷺ نے فرمایا : " یا بنی مطلب ،اگرمجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ مجھ کو ایسا کرتے دیکھ کر اور لوگ بھی تمہارے ہاتھ سے ڈول چھین کر خود اپنے ہاتھ سے پانی نکال کر پئیں گے تو میں خود جا کر اپنے ہاتھ سے پانی نکال کر پیتا، " حضرت عباس ؓ نے ڈول میں پانی نکال کر پیش کیا ، آپﷺ نے قبلہ رخ ہو کر کھڑے کھڑے پانی پیا، حضرت عباسؓ نے سقایہ کی خدمت ( یعنی پانی پلانے کی خدمت) کی خاطر ۱۱ ۱۲ اور ۱۳ ذی الحجہ کی راتوں میں منیٰ کی بجائے مکہ میں رہنے کی اجازت طلب کی، آپﷺ نے اجازت دے دی،
یہاں سے آپ منیٰ تشریف لے گئے اور وہیں نماز ظہر ادا فرمائی، ۱۱ ۱۲ ذی الحجہ کو تینوں جمروں پر کنکریاں ماریں ، جمرۂ اولیٰ پر کنکریاں مارتے ہوئے اللہ اکبر کہا، آگے بڑھ کر قبلہ رو ہو کر بڑی دیر تک دعا مانگی، اتنی دیر کہ ایک آدمی اس میں سورۂ بقرہ پڑھ لے، جمرۂ وسطیٰ پر بھی ایسا ہی کیا ، جمرۂ عقبہ پر کنکریاں ماریں لیکن ٹھہرے نہیں واپس چلے آئے، ان ایام تشریق کے وسط میں ( یعنی ۱۱ ۱۲ اور ۱۳ ذی الحجہ) سورۂ نصر ( جسے سورۂ فتح بھی کہتے ہیں)کا نزول ہوا، ایام تشریق میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا کہ یہ کھانے پینے اور ذکر کے دن ہیں، آخری روززوال کے وقت رمی فرمائی اور منیٰ سے محصب روانہ ہوئے ، مکہ کے باہر ایک مکان جہاں سنگریزے بہت ہیں قیام فرمایا، مکہ کا نام ابطح اور بطحا اسی لئے ہے کہ یہاں سنگریزے بہت تھے،حجتہ الوداع کے موقع پر خانہ کعبہ پر دھاری دار کپڑے کا غلاف چڑھایا گیاتھا،
دعا کے مقامات:
حجتہ الوداع کے موقع پر حضور اکرم ﷺ نے ٹھہر کر دعا مانگی تھی، وہ مقامات حسب ذیل ہیں: -
(۱) صفا کی پہاڑی
(۲) مروہ کی پہاڑی
(۳) عرفہ
(۴) مزدلفہ
(۵) جمرۂ اولیٰ
(۶) جمرۂ وسطیٰ
آپﷺ نے ارشاد فرمایا : حج یوم عرفہ ہے اور بہترین دعا عرفہ کی دعا ہے ،
پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا : " انشاء اللہ کل ہم خیف بنی کنانہ میں منزل کریں گے، محصب اور ابطح بھی اس کے نام ہیں، یہ وہی گھاٹی تھی جو شعب بنی ہاشم یا شعب ابی طالب کے نام سے مشہور تھی اور جہاں تین سال تک حضور اکرمﷺ معہ خاندان محصور رہے تھے، یہاں حضور ﷺ کے غلام ابو رافع نے پہلے ہی سے خیمے نصب کر دئیے تھے، وہاں رات کو کچھ دیر آرام فرمایا،
مکمل تحریر >>

جانوروں کی قربانی


آپﷺ کے ساتھ قربانی کے سو اونٹ تھے ، کچھ تو آپﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے ذبح کئے اور باقی حضرت علیؓ کے سپرد کر دئے کہ وہ ذبح کریں اور حکم دیاکہ ہر اونٹ سے گوشت کا پارچہ لے کر شوربا پکایا جائے ، پکنے کے بعد اسے حضرت علیؓ کے ساتھ تناول فرمایا، حکم دیا کہ کھالیں اور گوشت لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے یہاں تک کہ قصاب کی مزدوری بھی اس سے ادا نہ کی جائے بلکہ الگ سے دی جائے، حضرت جابرؓ بن عبداللہ کی روایت کے مطابق ازواج مطہرات کی جانب سے ایک گائے ذبح فرمائی، ایک اور روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ کی جانب سے ایک اونٹ یا بھیڑ کی قربانی کا ذکر ہے ، ابن سعد نے لکھا ہے کہ آپﷺ نے چتکبرے اور سینگ والے دو مینڈھوں کی قربانی کی اور کچھ بکریاں قربانی کے لئے صحابہ میں تقسیم فرمائیں،
حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ ۶۳ مدینہ نحر فرمائے ، بظاہر ان میں تضاد معلوم ہوتا ہے؛ لیکن حضرت عروہ ؓ بن حارث کندی کے بیان سے بات صاف ہوجاتی ہے کہ آپ ﷺ نے تنہا سات اونٹ نحر فرمائے ، اس کے بعد حضرت علی ؓ بھی شامل ہوگئے ، اوپر سے حضور ﷺ حریہ چلاتے اور نیچے سے حضرت علی ؓ ، دونوں نے مل کر ۵۶ اونٹ نحر کئے ، اس طرح ۶۳ اونٹ نحر کرنے کی عام روایات درست ہیں ، اس میں ایک لطیف اشارہ آپ ﷺ کی عمر سے اونٹوں کی مطابقت ہے یعنی ہر سال کے بدلے ایک اونٹ باقی ۳۷ اونٹ حضرت علی ؓ نے نحر کئے
( سیرت احمد مجتبیٰ)
سال گزشتہ یعنی ۹ ہجری میں قحط سالی کی وجہ سے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ ذخیرہ کرنے کی ممانعت تھی تا کہ محتاجوں کو ملے لیکن اس سال آپﷺ نے فرمایا: " کھاؤ ، کھلاؤ اور ذخیرہ کرو، " قربانی سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے عمر بن عبداللہ کو بلوایا ور سر کے بال منڈوائے اور فرط محبت سے کچھ بال خود اپنے دست مبارک سے ابو طلحہؓ انصاری اور ان کی بیوی اُم سلیم اور بعض لوگوں کو جو پاس بیٹھے ہوئے تھے عنایت فرمائے اور باقی ابو طلحہؓ نے اپنے ہاتھ سے تمام لوگوں میں ایک ایک دو دو کر کے تقسیم کر دئیے،
(سیر ت النبی ، شبلی نعمانی)
مکمل تحریر >>

١٠ دی الحجہ کا خطبہ


حضورﷺ کے الفاظ حضرت ربیعہؓ بن امیہ بن خلف بلند آواز سے دُہراتے تھے چاروں طرف مکبر موجود تھے، آپﷺ نے فرمایا :ابراہیم ؑ خلیل اللہ کے طریق عبادت(حج) کا موسم اپنی جگہ سے ہٹ گیا تھا، اس کا سبب یہ ہے کہ اس زمانہ میں کسی قسم کی خونریزی جائز نہیں تھی اس لئے عربوں کے خوں آشام جذبات حیلۂ جنگ کے لئے اس کو کبھی گھٹا اور کبھی بڑھا دیتے تھے، آج وہ دن آیا کہ اس اجتماع عظیم کے اشہر حرم کی تعین کر دی جائے، آپ نے فرمایا ، سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں چار مہینے قابل احترام ہیں، تین تو متواترمہینے ہیں یعنی ذیقعدہ ، ذی الحجہ، اور محرم اور چوتھا رجب کا مہینہ جمادی الثانی اور شعبان کے بیچ میں ہے،
دنیا میں عدل و انصاف اور جور و ستم کا محور صرف تین چیزیں ہیں، جان، مال اور آبرو ، آنحضرتﷺ گزشتہ خطبہ میں گو ان کے متعلق ارشاد فرماچکے تھے لیکن عرب کے صدیوں کے زنگ کو دور کرنے کے لئے مکرر تاکید کی ضرورت تھی، آپﷺ نے اس کے لئے عجیب بلیغ انداز اختیار فرمایا، لوگوں سے مخاطب ہو کر پوچھا … کچھ معلوم ہے کہ آج کونسا دن ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ خدا اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے، آپﷺ دیر تک خاموش رہے ، لوگ سمجھے کہ شاید آپﷺ اس دن کا کوئی اور نام رکھیں گے، دیر تک سکوت اختیار فرمایا اور پھرکہا ! کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا: ہاں بے شک ہے، پھر ارشاد ہوا : یہ کونسا مہینہ ہے؟ لوگوں نے پھر اسی طریقہ سے جواب دیا ، آپ ﷺ نے دیر تک سکوت اختیار کیا اور پھر فرمایا: کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں بے شک ہے ، پھر پوچھا : یہ کونسا شہر ہے؟ لوگوں نے بدستور جواب دیا، آپﷺ نے دیر تک سکوت کے بعد فرمایا : کیا یہ بلدۃ الحرام نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں بے شک ہے ، تب لوگوں کے دل میں یہ خیال پوری طرح جا گزیں ہو چکا کہ آج کا دن بھی ‘ مہینہ بھی اور خود شہر بھی محترم ہے یعنی اس دن اور اس مقام میں خوں ریزی جائز نہیں ، تب فرمایا :
" تو تمہارا خون ، تمہارا مال اور تمہاری آبرو ( تاقیامت) اس طرح محترم ہے جس طرح یہ دن اس مہینہ میں اور شہر میں محترم ہے، " قوموں کی بربادی ہمیشہ آپس کے جنگ و جدال اور باہمی خوں ریزیوں کا نتیجہ رہی ہے ، وہ پیغمبر جو ایک لازوال قومیت کا بانی بن کر آیا تھا اس نے اپنے پیروؤں سے بہ آواز بلند کہا :
" ہاں میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ خود ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو ، تم کو خدا کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس کرے گا " ظلم و ستم کا ایک عالمگیر پہلو یہ تھا کہ اگر خاندان میں کسی شخص سے کوئی گناہ سرزد ہوتا تو اس خاندان کاہر شخص ا س جرم کا قانونی مجرم سمجھا جاتا تھااور اکثر اصلی مجرم کے روپوش ہونے یا فرار ہو جانے کی صورت میں بادشاہ کا اس خاندان میں سے جس پر قابو چلتا تھا اس کو سزا دیتا تھا، باپ کے جرم میں بیٹے کوسولی دی جاتی تھی اور بیٹے کے جرم کا خمیازہ باپ کو بھگتنا پڑتا تھا ، یہ سخت ظالمانہ قانون تھا جو مدت سے دنیا میں نافذ تھا، اگر چہ قرآن مجید نے اس ظلم کی ہمیشہ بیخ کنی کر دی تھی ؛لیکن خاتم النبینﷺ نے اسے یاد دلاتے ہوئے فرمایا :
" ہاں مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے ، باپ کے جرم کا ذمہ دار بیٹا نہیں اور بیٹے کے جرم کا جواب دہ باپ نہیں"
عرب کی بد امنی اور نظام ملک کی بے ترتیبی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ ہر شخص اپنی خداوندی کا آپ مدعی تھا اور دوسرے کی ماتحتی او فرمانبرداری کو اپنے لئے ننگ و عار جانتا تھا، آپﷺ نے ارشاد فرمایا : " اگر کوئی حبشی بریدہ غلام بھی تمہارا امیر ہواور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو"
ریگستان عرب کا ذرہ ذرہ اس وقت اسلام کے نور سے منور ہو چکا تھا اور خانہ کعبہ ہمیشہ کے لئے ملت ِابراہیم کا مرکز بن چکا تھا اور فتنہ پرداز قوتیں پامال ہو چکی تھیں، آپ ﷺ نے فرمایا :
(سیرت النبی جلد اول)
" ہاں شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا تھا کہ اب تمہارے اس شہر میں اس کی پرستش قیامت تک نہ کی جائے گی، لیکن البتہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس کی پیروی کروگے اور وہ اس پر خوش ہو گا"
سب سے آخر میں آپﷺ نے اسلام کے فرض اولین یاد دلائے:
" اپنے پرودگار کو پوجو ، پانچوں وقت کی نماز پڑھو، ماہ رمضان کے روزے رکھو اور میرے احکام کی اطاعت کرو، خدا کی جنت میں داخل ہو جاؤگے "
یہ فرما کر آپﷺ نے مجمع کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : " کیوں میں نے پیغام خداوندی سنادیا" سب بول اٹھے ، بے شک بے شک آپﷺ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچادیا، آپﷺ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف جھکا کر تین بار فرمایا : " ائے اللہ تو بھی گواہ رہیو ، گواہ رہیو ، گواہ رہیو"
خطبہ سے فار غ ہو کر حضور اکرم ﷺ نے ظہر اور عصر کی نمازیں دو دو رکعت یکے بعد دیگرے ادا فرمائیں، نماز کے بعد دامن کوہ میں تشر یف لانے اور عجز وانکسار کے ساتھ دعا میں مصروف ہو گئے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :
الیوم اکمَلتُ لَکُم دینکُم وَ اتمَمْتُ عَلیکُم نعمتی وَ رَضِیت ُ لَکُم الا سلَامَ دِیناًط
( سورہ المائدہ :۳)
(ترجمہ ) " آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کومکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے اسلام کا دین ہونا پسند کیا "
اس آیت کو سن کر حضرت عمرؓ بے اختیار رونے لگے، لوگوں نے پوچھا ، آپ کیوں روتے ہیں؟ فرمایا ! اس لئے کہ کمال کے بعد زوال ہی ہوتا ہے،مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ تکمیل دین اور اتمام نعمت کی آیت سن کر رونے والے حضرت ابو بکر ؓ صدیق تھے اس لئے کہ یار غار کی فراست نے بھانپ لیا تھا کہ اب خاتم الانبیاء کے دنیا سے رخصت ہونے کے دن قریب ہیں،
حضورﷺ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار کے مجمع سے ارشاد فرمایا:حاضر کو چاہیے کہ وہ غائب کویہ بات پہنچا دے اس لئے کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ پہنچانے والا کسی ایسے شخص کو پہنچا دیتا ہے جو اس سے زیادہ اس کو محفوظ کرنے والا ہوتا ہے ،
خطبہ کے وقت آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ نحر ( قربانی) ‘ ر می جمار ( کنکریاں مارنے) حلق ( بال منڈوانے) میں تقدیم و تاخیر ہو جائے تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا ! لا حرج، لا حرج، کوئی مضائقہ نہیں، خطبہ کے اختتام پر آپﷺ نے تمام مسلمانوں کو الوداع کہا،اس کے بعد آپﷺ قربان گاہ کی طرف تشریف لے گئے اور فرمایا کہ قربانی کے لئے منیٰ کی کچھ تخصیص نہیں ہے، بلکہ منیٰ اور مکہ کی ایک ایک گلی میں قربانی ہو سکتی ہے ،
( سیرت النبی جد اول)
مکمل تحریر >>

عرفات روانگی


آنحضرت ﷺ قصویٰ پر سوار ہو کر عرفات تشریف لے گئے ، اونٹنی کا پیٹ صخرات ( چٹانوں) کی طرف کیا، پیدل چلنے والوں کا راستہ اپنے سامنے رکھا ، جبل المشاۃ کے سامنے قبلہ رو ہو کر کھڑے ہوئے ، عرفہ کے دن زیادہ سے زیادہ دعائیں مانگیں، امت کی مغفرت کی دعا کے جو اب میں فرمایا گیا کہ سوائے ظالم کے جس سے مظلوم کا انتقام لیا جائے گا ، عرض کیا ! ائے اللہ ! تو مالک ہے ، تو چاہے تو مظلوم کا جنت میں درجہ بلند کر دے او ر ظالم کو معاف فرما دے، یہ دعا اس وقت قبول نہیں ہوئی یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا، نجد والوں کے استفسار پر منادی کرائی گئی کہ حج عرفات کے قیام کا نام ہے ، جو شخص طلوع فجر سے قبل مزدلفہ پہنچ گیا وہ حج پا گیا، حضرت اسامہؓ بن زید کو اپنے پیچھے سوار کر لیا اور مزدلفہ کی طرف چل پڑے، دائیں ہاتھ سے لوگوں کو اشارہ فرماتے کہ آرام اور سکون سے چلو، آپﷺ ناقہ کی زمام کھینچے ہوئے تھے یہاں تک کہ اس کی گردن کجاوے میں آ کر لگتی تھی، اثنائے راہ میں ایک جگہ اتر کر طہارت سے فارغ ہوئے پھر وضوکئے، حضرت اسامہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ :نماز کا وقت تنگ ہو رہا ہے، فرمایا : آگے جا کر پڑھیں گے، مزدلفہ پہنچ کر پھر وضو کیا اور ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نمازجمع کر کے عشاء کے وقت ادا فرمائی، یہ " جمع تاخیر" کہلاتی ہے، دونوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی گئی البتہ برابر لبیک کہتے رہے، نماز سے فارغ ہو کر آپﷺ لیٹ گئے اور صبح تک آرام فرمایا، بیچ میں روزانہ دستور کے مطابق تہجد کے لئے بھی بیدار نہیں ہوئے ، محدثین نے لکھا ہے کہ یہی ایک شب ہے جس میں آپﷺ نے نماز تہجد ادا نہیں فرمائی ، سویرے اٹھ کر با جماعت نماز پڑھی ، فرمایا : پورا مزدلفہ وقوف کا مقام ہے سوائے بطن محسر کے ،۱۰ ذی الحجہ کی رات مزدلفہ میں گزاری، صبح کی نماز کے بعد مظلوم و ظالم کے بارے میں اپنی دعاء دُہرائی، کچھ دیر بعدچہرے پر تبسّم کے آثار نمودار ہوئے، حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ نے پوچھا … یا رسول ا للہ : اللہ آپﷺ کو ہمیشہ مسکراتا رکھے ، اس تبسّم کا سبب کیا ہے؟ فرمایا ! ابلیس کو اب یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی ہے تو وہ روتے ہوئے اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگا، اس کی یہ کیفیت دیکھ کر مجھے ہنسی آئی، حضرت سودہؓ اور اہل بیت کے کمزور افراد کو رات ہی میں منیٰ جانے کی اجازت دے دی، ان میں حضرت عبداللہؓ بن عباس بھی تھے،قریش مزدلفہ سے اس وقت کوچ کرتے تھے جب آفتاب پورا نکل آتا تھا اور آس پاس کے پہاڑیوں کی چوٹیوں پر دھوپ چمکنے لگتی تھی، اس وقت بہ آواز بلند کہتے تھے، " کوہ شبیر ! دھوپ سے چمک جاؤ" آنحضرت ﷺ نے اس رسم کے ابطال کے لئے سورج نکلنے سے پہلے یہاں سے کوچ فرمایا، یہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ اور سنیچر کا دن تھا ، ( سیرت النبی جلد اول )آپ قصویٰ پر سوار ہوکر مشعر حرام آئے جو مزدلفہ میں ایک ٹیلہ ہے، یہاں خو ب روشنی پھیلنے تک قبلہ رو ہو کر تسبیح ، تہلیل ، تکبیر اور دعاؤں میں مشغول رہے، طلوع آفتاب کے بعد مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہوئے، حضرت عائشہؓ ساتھ تھیں ، آپ ﷺ کے برادر عم زاد حضرت فضلؓ بن عباس ناقہ پر سوار تھے، لوگ داہنے بائیں حج کے مسائل دریافت کرنے کے لئے آرہے تھے، آپﷺ جواب دیتے تھے اور زور زور سے مناسک حج کی تعلیم دیتے جاتے تھے،
( صحیح بخاری بحوالہ سیرت النبی جلد اول)
اس قدر ہجوم تھاکہ حضرت عائشہؓ نے کہا:کاش حضرت سودہؓ کی طرح میں بھی اجازت لے کر منیٰ چلی جاتی، حضور ﷺ لوگوں کو تلقین فرما رہے تھے کہ سکون سے چلو، کبھی کوڑے سے اشارہ فرماتے ہوئے کہتے ، ائے لوگو ! اطمینان اختیار کرو ، اونٹوں کو دوڑانا کوئی اچھی بات نہیں، قبیلہ غثم کی ایک خوبصورت نے قریب آکر پوچھا کہ حج ایسے موقع پر فرض ہوا ہے کہ میرا باپ ضعیف ہے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ فرمایا: ہاں ، حضرت فضلؓ بن عباس اس عورت کو اور وہ انہیں دیکھنے لگے، حضور ﷺ نے فضلؓ کا منہ دوسری طرف پھیر دیا، حضرت اسامہؓ کہتے ہیں کہ میں عرفہ سے مزدلفہ تک اور فضلؓ بن عباس مزدلفہ سے منیٰ تک حضور ﷺ کے پیچھے اونٹنی پر بیٹھے رہے، وادیٔ محسّر میں آئے تو رمی جمار کے لئے چنے سے بڑے اور چھوٹے بیرسے کم کسی قدر کم کنکریاں جمع کرنے کا حکم ہوا، لوگوں نے تعمیل کی، وادیٔ محسّر میں جو اصحاب فیل پر اللہ کے غضب کی جگہ ہے اونٹنی کو تیزی سے دوڑایا ، حضرت عبداللہ ؓ بن عباس نے آپ ﷺ کے لئے بھی کنکریاں چنیں ، پھر آپﷺاونٹنی کو دوڑاتے درمیانی راستہ سے جمرۂ کبریٰ کی طرف چلے اسے جمرۂ عقبہ اور جمرۂ اولیٰ بھی کہتے ہیں، نزدیک جا کر ایک درخت کے نیچے رک گئے، اس وقت آپﷺ وادی کے نشیب میں تھے، آپﷺ کی بائیں جانب منیٰ داہنی طرف مکہ تھا، آپﷺ نے قصویٰ ہی پر سے ہر بار اللہ اکبر کہہ کر کنکریاں جمرۂ کبریٰ پر ماریں ، یہ رمی جمار آپﷺ نے آفتاب طلوع ہونے کے بعد فرمایا اور تلبیہ موقوف کیا،
چاشت کا وقت تھا ، اونٹنی پر بیٹھ کر فرمایا : مجھ سے مناسک حج سیکھ لو ، مجھے معلوم نہیں کہ اس حج کے بعد دوسرا حج کر سکوں گا کہ نہیں، یہاں سے منیٰ کے لئے روانہ ہوئے ، حضرت اسامہؓ ساتھ بیٹھے دھوپ سے بچنے کے لئے چادر تانے ہوئے تھے، حضر ت بلالؓ قصویٰ کی مہار تھامے ہوئے تھے، داہنے بائیں‘ آگے پیچھے تقریباً ایک لاکھ مسلمانوں کا مجمع تھا، مہاجرین قبلہ کے داہنے ‘ انصار بائیں اور بیچ میں عام مسلمانوں کی صفیں تھیں، آپﷺ نے نظر اٹھا کر اس عظیم الشان مجمع کی طرف دیکھاتوفرائض نبوت کے (۲۳) سالہ نتائج نگاہوں کے سامنے تھے، زمین سے آسمان تک قبول و اعتراف حق کا نور ضو فشاں تھا، دیوان قضا میں انبیاء سابق کے فرائض تبلیغ کے کارناموں پر ختم رسالت کی مہر ثبت ہو رہی تھی اوردنیا اپنی تخلیق کے لاکھوں برس بعد دین فطرت کی تکمیل کا مژدہ کائنات کے ذرہ ذرہ کی زبان سے سن رہی تھی، اسی عالم میں قصویٰ پر سوار ہو کر افصح العرب و العجم نے خطبہ دیا ۔
مکمل تحریر >>

٨ دی الحجہ


8ذی الحجہ ۱۰ ہجری بروزاتوار یوم ترویہ کوسب نے مقام ابطح میں احرام باندھا اور تلبیہ کہتے ہو ئے مکہ سے منیٰ کی طرف روانہ ہوئے ، منیٰ میں ظہر ، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں، ۹ ذی الحجہ کو حضور ﷺ نے عرفہ کی رات منیٰ میں بسر فرمائی، نماز فجر وہیں ادا کی، سورج نکلا تو عرفات روانہ ہوئے ،
قریش کا معمول تھا کہ بجائے عرفات کے معشر حرام ( جو مزدلفہ میں واقع تھا) ٹھہرتے کیونکہ وہ حدود حرم میں واقع تھا، انہوں نے خیال کیا کہ آپﷺ بھی وہیں ٹھہریں گے؛ لیکن آپﷺ نے میدان عرفات میں مقام نمرہ پر نصب شدہ کمبل کے خیمہ میں قیام فرمایا، زوال کے بعد اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہو کر عرفہ کے مقام بطن وادی میں تشریف لائے اور بعد حمد و ثناء خطبہ ارشاد فرمایا :
لوگو : میری بات غور سے سنو ، میرا خیال ہے کہ اس سال کے بعد اس جگہ پر تم سے نہ مل سکو ں اور نہ شاید اس سال کے بعد آئندہ حج کر سکوں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب لوگ آدمؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ مٹی سے پیدا کئے گئے تھے، زمانہ جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے روندی گئی ہیں، زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف ہیں، میں اس سلسلہ میں سب سے پہلے اپنے ہی خاندان کا ایک خون جو کہ ربیعہ بن الحارث کے بیٹے کا ہے معاف کرتا ہوں، دورِ جاہلیت کا ہر سود معاف ہے اور اپنے عم محترم عباس بن عبدالمطلب کا سود معاف کرتا ہوں، ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں، تمہار ے غلام ! جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ، لوگو : تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں اور اسی طرح تم پر تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں، ( آج تک عورتیں ایک جائیداد منقولہ تھیں جو قمار بازی اور داؤں پر چڑھا دی جا سکتی تھیں، آج پہلا دن ہے کہ یہ گروہ مظلوم، یہ صنف نازک ، یہ جوہر نازک قدر دانی کا تاج پہنتا ہے )تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کو تمہارے بستر پر نہ بیٹھنے دیں جسے تم پسند نہ کرتے ہو اور ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ کھلی بے حیائی کا کوئی کام نہ کریں لیکن اگر وہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ اجازت دی ہے کہ ان کے سونے کی جگہ اپنے سے الگ کر دو، ( اگر اس سے بھی باز نہ آئیں تو ) پھر تمہیں اجازت ہے کہ انہیں ایسی ہلکی مار مارو جس سے بدن پر نشان نہ پڑیں اور اگر وہ اپنی نازیبا حرکتوں سے باز آجائیں تو حسب دستور ان کا کھانا اور کپڑا تمہارے ذمہ ہے ،
خبر دار ! کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیرکسی کو کچھ دے ، عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے سے ہمیشہ پابند رہو کیوں کہ وہ تمہاری زیر نگرانی ہیں اور اس حیثیت سے نہیں کہ اپنے معاملات خود چلا سکیں ، عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو، تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمات کے ذریعہ ان کو اپنے لئے جائز اور حلا ل کیا ہے ،
لوگو ! اللہ تعالیٰ نے میراث کا قانون نافد کر کے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے ، اس لئے اب کسی وارث کے حق میں کوئی وصیت جائز و نافذ نہیں، لڑکا اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا ہو، زنا کار کے لئے پتھر ہے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ، قرض ادا کیا جانا چاہئے ، عاریت واپس ہونی چاہئے ، عطیہ کا بدلہ دیا جانا چاہئے ، ضامن تاوان کا ذمہ دار ہوگا ،(سیرت طیبہ ) خبر دار: جرم کرنے والا خود اپنے جرم کا ذمہ دار ہے ، باپ کے جرم کا ذمہ دار بیٹا نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ نہیں،
خبر دار :
میر ے بعدگمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو،جس شخص کے پاس کسی کی امانت ہو اس پر لازم ہے کہ وہ امانت والے کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے لوٹا دے، اگر کوئی نکٹا اور سیاہ فام حبشی غلام بھی تمہارا امیر بنا دیا جائے اور وہ کتاب اللہ ( قرآن مجید) کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو تم پر اس کی اطاعت لازم ہے،
ائے لوگو :
مذہب میں غلو اور مبالغہ سے بچو کیونکہ تم سے پہلے بہت سی قومیں مذہب میں غلو کے سبب برباد ہو گئیں،
ائے لوگو ! اب شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ اس سرزمین پر اس کی پرستش کی جائے گی لیکن طہارت کے سوا دوسرے معاملات میں اپنے پست افعال کے ذریعہ اس کی فرمانبرداری کی گئی تو وہ اس پر بھی راضی رہے گا، تم اپنے دین کو اس کے شر سے بچا کر رکھنا،خبر دار ! اپنے رب کی عبادت کرتے رہو، پنچ وقتہ نمازوں کی پابندی کرو، رمضان کے روزے رکھو، اپنے اموال کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرتے رہو، اپنے رب کے گھر ( بیت اللہ) کا طواف کرو، اپنے امراء کے حکم کی پیروی کرو، اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے،
ائے لوگو :
نسی کفر کی زیادتی کا سبب ہے، اس کے ذریعہ کفار گمراہ ہوتے ہیں، وہ ایک سال حرام مہینوں کو حلال کرلیتے اور دوسرے سال انہی کو حرام قرار دے لیتے تھے تا کہ اس طرح حرام مہینوں کی گنتی پوری کریں لیکن اب زمانہ اپنی اس ابتدائی حالت پر لوٹ آیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا، اللہ کے نزدیک سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں، تین مہینے مسلسل ہیں( ذی قعدہ ، ذی الحجہ، محرم )اور ایک ماہ رجب ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان واقع ہے ،
خطبہ ختم ہوا ، آپﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ اذان دیں، اقامت کے بعد دو رکعت نماز ظہر ادا فرمائی، قرأت آہستہ پڑھی حالانکہ وہ جمعہ کا دن تھا، مسافر ہونے کی وجہ سے جمعہ نہیں پڑھا ، دوسری اقامت پر عصر بھی قصر کر کے پڑھی، یہ جمع " تقدیم " کہلاتی ہے، پھر آپﷺ نے " ائے معاشر المسلمین" کہہ کر فرمایا کہ تین باتیں سینہ کو پاک رکھتی ہیں ، ایک اعمال میں اخلاص ، دوسرے مسلمان بھائیوں کی خیر خواہی اور تیسری بات جماعت المسلمین کا اتحاد ، کچھ لوگ لبیک اور کچھ اللہ اکبر کہتے رہے، عرفہ کا دن تکبیراور تلبیہ پر ختم ہوا،
(سیرت احمد مجتبیٰ)
آنحضرت ﷺ ے فرمایا : لوگو ! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے لہٰذا حج کرو ، کسی نے پوچھا، کیا ہر سال حج کریں؟ آپﷺ نے خاموشی اختیار کی، اس شخص نے تین بار یہی سوال دُہرایا، کچھ دیر توقف کر کے فرمایا : اگر میں ہاں کہدیتا تو حج ہر سال فرض ہو جاتا اور تم ادا نہ کر پاتے، میں جب تمہیں چھوڑے رکھوں تو تم بھی مجھے چھوڑ دیا کرو ، تم سے پہلے والے اسی لئے ہلاک ہو گئے کہ انھوں نے انبیاء سے بہ کثرت سوال کئے اور پھر ان سے اختلاف کیا،ایک شخص نے پوچھا … مَحرم کونسے کپڑے پہنے ، فرمایا : محرم قمیص پہنے نہ عمامہ باندھے، ٹوپی پہنے نہ موزے ، جوتیاں میسر نہ ہوں تو موزے کاٹ کر ٹخنوں کے نیچے کر لے، تہہ بند نہ ہو تو پائجامہ پہن سکتا ہے، زعفران یا ورس سے رنگا کر کپڑا نہ پہنے، قبیلہ جہینیہ کی ایک عورت نے پوچھا … میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن فوت ہو گئی، کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ فرمایا : ہاں ، اگر اس پرقرض ہوتا تو کیا تم ادا نہ کرتیں؟ اللہ اپنے حق کی ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے،
حضرت میمونہؓ اور اُم الفضل ؓ نے دودھ کا ایک پیالہ بھیجا ، آپﷺ نے اونٹ پر بیٹھے بیٹھے پی لیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ روزے سے نہیں ہیں، فرمایا : میں نے یہاں وقوف کیا ہے لیکن عرفات سارا جائے وقوف ہے سوائے بطن عرفہ کے، عرفات میں ایک شخص اونٹ سے گرا اور اونٹ نے کچل کر ہلاک کر دیا، آپﷺ نے فرمایا: اسے بیری کے پتوں میں ابلے پانی سے غسل دو، احرام ہی کا کفن دو ، نہ خوشبو لگاؤ نہ سر ڈھانپو ، بے شک اللہ اس کو قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھائے گا،۔
مکمل تحریر >>

طواف و سعی


آنحضرت ﷺ نے وضو فرماکر احرام کی چادر کو بغل سے نکالا، حجر اسود کو بوسہ دیا، طواف شروع کیا تو تین چکر دوڑکے ساتھ اور چار چکر معمولی رفتار کے ساتھ مکمل فرمائے ، ہر چکر میں حجر اسود کا استلام (بوسہ دینا ) کیا اور رکن یمانی کوچھوا ، حجر اسود کے استلام کے سلسلہ میں یہ روایت ہے کہ جب آپﷺ حجر اسود کے سامنے آئے تو محجن ( ایک عصا جس کا سر ٹیڑھا تھا ) سے اشارہ فرمائے اور محجن کے سر کو بوسہ دئیے، کبھی ہاتھ سے چھو کر ہاتھ کو بوسہ دیتے ، کبھی لبِ مبارک کو سنگ اسود پر رکھ کر بوسہ دیتے ، اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ بیماری کی وجہ سے طواف نہ کرسکتی تھیں ، فرمایا تم سوار ہوکر لوگوں کے پیچھے طواف کرو،جب آپﷺ مقام ابراہیم پر تشریف لائے تو سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۵ پڑھی:
(ترجمہ) " مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ "
( سورۂ بقرہ : ۱۲۵ )
مقام ابراہیم پر آپﷺ نے دو رکعت نماز ادا فرمائی ، پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ احد کی تلاوت فرمائی ، نماز کے بعد حجر اسود کو بوسہ دیا ، کوہ صفا کی جانب واقع دروازہ باب بنی مخزوم سے باہر تشریف لے گئے اور سورۂ بقرہ کی آیت ۱۵۸تلاوت فرمائی.
(ترجمہ ) " بے شک صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں"
( سورۂ بقرہ : ۱۵۸ )
ارشاد فرمایا:
ہم طواف اسی پہاڑ ی سے شروع کرتے ہیں ، صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر بیت اللہ کی طرف رخ کیا اور اللہ تعالیٰ کی توحید و کبریائی بیان فرمائی، پھر دعا مانگی اور یہ عمل تین بار دُھرایا ، صفا سے مروہ کی طرف سعی شروع کی ، ابن سعد کا بیان ہے کہ آپﷺ نے سواری پر سعی کی لیکن قسطلانی نے لکھا ہے کہ آپﷺ نے پہلے پیدل سعی فرمائی اور جب ہجوم بڑھ گیا تو اونٹنی پر سوار ہوگئے ، مروہ کی پہاڑیوں پر پہنچ کر وہی عمل کیا جو صفا پر کیا تھا،
ساتویں چکر پر مروہ پر پہنچ کر آپﷺ نے فرمایا :
جس شخص کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو اب وہ احرام کھول دے ، حضرت سراقہؓ بن جعشم نے کھڑے ہوکر عرض کیا ، یہ( حج تمتع ) ہمیشہ کے لئے ہے یا اسی سال کے لئے ، آپﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کرتے ہوئے دو مرتبہ فرمایا ، قیامت تک کے لئے عمرہ ایام حج میں داخل ہوگیا، حج تمتع کرنے والوں میں جن کو قربانی کا جانور میسر نہ ہو ان کے لئے ہدایت فرمائی کہ وہ ایام حج میں تین روزے رکھیں اور باقی سات روزے اپنے گھر وں کو جاکر رکھیں ، ایام جاہلیت میں حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا گناہ سمجھا جاتاتھا ، ذی الحجہ کے مہینہ میں عمرہ کرنے کا حکم دیا تو بہت لوگوں کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی ،
سعی ختم ہونے کے بعد مروہ سے اتر کر آپﷺ نے مکہ کے باہر چار دن یعنی اتوار ، پیر ، منگل اور چہارشنبہ قیام فرمایا، اسی دوران نماز یں قصرکر کے ادا فرمائیں،
زمانہ قدیم سے حج کے موسم میں مکہ کے قریب عکاظ ، مجنّہ اور ذرالمجاز میں بازار لگا کرتے تھے اور خوب تجارت ہوتی تھی، صحابہ ؓ کرام نے ان دنوں تجارت کو گناہ سمجھا تو اللہ تعالیٰ نے اس غلط فہمی کو دور فرمایا اور سورۂ بقرہ کی آیت ۱۹۸ نازل ہوئی :
( ترجمہ) "اگر موسم حج میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو ( یعنی تجارت)تو تم پر کوئی گناہ نہیں"
مکمل تحریر >>

مکہ میں داخلہ


پیدل لوگوں کی سہولت کی خاطر یہ سفر (۹) دن میں طئے ہوا ، حضورﷺ کی اونٹنی پر ایک بوسیدہ پالان جس کے نیچے چادر تھی جس کی قیمت چاردرہم سے زیادہ نہ تھی، حضورﷺ کا اور حضرت ابو بکرؓ کا سامان ایک ہی اونٹ پر تھا جو حضرت ابو بکرؓ کے غلام کے پاس تھا، مقام عرج پر غلام نے کہا کہ اونٹ گم ہوگیا، یہ سن کر حضرت ابو بکر ؓ اسے مارنے لگے تو حضور ﷺ نے مسکرا کر فرمایا: ’ ’ اس محرم کو دیکھو یہ کیا کر رہا ہے ؟
اونٹ کے گم ہونے کی اطلاع قبیلہ بنی اسلم کے لوگوں کو ملی تو چھوارے اور روغن لائے ، آپﷺ نے حضرت ابو بکرؓ کو یاد کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طیب غذا فراہم کردی ہے، سب نے سیر ہوکر کھایا ، حضرت صفوانؓ بن معطل جو اس قافلہ کے مقدمہ پر مامور تھے حاضر ہوئے اور پوچھا : کیا آپﷺ کی کوئی چیز گم ہوگئی ہے ؟ فرمایا: ہاں یہ سامان والا اونٹ ، عرض کیا کہ وہ مل گیا ہے ، حضرت ابو بکرؓ نے جاکر دیکھا تو تمام سامان موجود تھا بجز ایک پیالے کے، غلام نے کہا کہ وہ میرے پاس ہے،
ابطح کے مقام پر حضور ﷺ نے چمڑے کے سُرخ خیمہ میں آرام فرمایا ، حضرت بلالؓ نے ایک نیزہ بطور سترہ گاڑ دیا، حضور ﷺ خیمہ سے بر آمد ہوئے، آپﷺ نے سرخ لباس زیب تن کر رکھا تھا، تہہ بند اونچا تھا اور پنڈلیاں نظر آرہی تھیں پہلے ظہر اور عصر کی قصر نماز پڑھائی اور وہاں سے روانہ ہوئے،
مکہ کے قریب ذی طویٰ میں زاہر کے چشموں میں پاس گھاٹیوں میں رات کو آرام فرمایا، دوسرے روز یعنی ۴ ذی الحجہ کو فجر کی نماز کے بعد غُسل فرمایا اور ثنیتہ الصلبا کی بلند گھاٹی سے جسے کدا اور حجون بھی کہتے ہیں دن کے وقت مکہ میں داخل ہوکر باب بنی شیبہ پر پہنچے ، فتح مکہ کے روز بھی آپﷺ اس راستہ سے داخل ہوئے تھے، بنی عبدا لمطلب کے بچے استقبال کے لئے دوڑتے ہوئے آئے تو آپﷺ نے ایک بچے کو اونٹ کے آگے اور ایک بچہ کو اونٹ کے پیچھے بٹھا لیا ، جب آپﷺ کی نظر کعبۃ اللہ پر پڑی تو دونوں ہاتھ بلند کر کے فرمایا:
" ائے اللہ ! اس گھر کی تشریف و تعظیم ، تکریم و ہییت میں اضافہ فرما،جو شخص اس گھر کو شرف و عظمت دے اور اس کا حج و عمرہ کرے تواس تشریف ، تکریم و تعظیم اور نیکی میں اضافہ فرما "
اس کے بعد اعلان کیا گیا کہ جس شخض نے عمرہ کا احرام باندھا ہو اورہدی (قربانی کا جانور) نہ لایا ہو اسے چاہیے کہ عمرہ کر کے احرام کھول دے اور جس کے ساتھ ھدی ہو وہ جانور کے ذبح ہونے تک احرام نہ کھولے ، جس نے صرف حج کا احرام باندھا ہو وہ اس کو عمرہ میں تبدیل کرے ، قربانی کے سلسلہ میں حکم ہوا کہ اونٹ اور گائے میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں ،
اس موقع پر حضور اکرم ﷺ نے عمرہ کا طریقہ بیان فرمایاکہ پہلے کعبہ کا طواف کریں ، پھر صفاو مروہ کے درمیان سعی کریں ، جن لوگوں کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں ہے وہ بال منڈوائیں یا کتر وائیں اور احرام کھول دیں ، اب ان پر احرام کی پابندی نہ ہوگی ، ۸ذی الحجہ یوم ترویہ کو حج تمتع کا احرام باندھیں ، جن کے ساتھ ھدی (قربانی کا جانور ) ہے وہ احرام نہ کھولیں ، ان پر پابندیاں رہیں گی،
مکمل تحریر >>

مدینہ سے روانگی


ابن سعد نے لکھا کہ ۲۵ ذیقعدہ بروز شنبہ آپﷺ روانہ ہوئے . حافظ ابن حجرl نے اس کی بہت عمدہ تحقیق کی ہے۔ اور بعض روایات میں جو یہ آیا ہے کہ ذیقعدہ کے پانچ دن باقی تھے ، تب آپ روانہ ہوئے اس کی تصحیح بھی کی ہے۔ دیکھئے فتح الباری ۸/۱۰۴
تمام ازواج مطہرات ساتھ تھیں ، مدینہ میں حضرت ابو دجانہؓ ساعدی کو اور بروایت دیگر حضرت سباؓع بن عرفطہ غفاری کو نائب مقرر فرمایا، بالو ں میں کنگھی کی۔ تیل لگایا۔ تہبند پہنا ، چادر اوڑھی ، قربانی کے جانوروں کو قَلادَہ پہنایا۔ اور ظہر کے بعد کوچ فرمایا۔ اور عصر سے پہلے ذو الحلیفہ پہنچ گئے۔ وہاں عصر کی نماز دورکعت پڑھی۔ اور رات بھر خیمہ زن رہے۔ صبح ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : رات میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والے نے آکر کہا : اس مبارک وادی میں نماز پڑھو۔ اور کہو: حج میں عمرہ ہے۔( اسے بخاری نے حضرت عمرؓ سے روایت کیا ہے۔ ۱/۲۰۷)
پھر ظہر کی نمازسے پہلے آپﷺ نے اِحْرام کے لیے غسل فرمایا۔ اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے آپﷺ کے جسمِ اطہر اور سرَ مبارک میں اپنے ہاتھ سے ذَرِیْرَہ اور مُشک آمیز خوشبو لگائی۔ خوشبو کی چمک آپﷺ کی مانگ اور داڑھی میں دکھائی پڑتی تھی۔ مگر آپﷺ نے یہ خوشبو دھوئی نہیں۔ بلکہ برقرار رکھی، پھر اپنا تہبند پہنا، چادر اوڑھی اور دورکعت ظہر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھتے ہوئے صدائے لَبَّیک بلند کی۔ پھر باہر تشریف لائے۔ قَصْوَاء اُونٹنی پر سوار ہوئے۔ اور دوبارہ صدائے لبیک بلند کی۔ اس کے بعد اُونٹنی پر سوار کھلے میدان میں تشریف لے گئے تو وہاں بھی لبَّیک پُکار ا۔
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ احرام باندھنے کے بعد حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ قربانی کا جانور ساتھ لائے ہیں وہ حج اور عمرہ دونوں کی نیت کر لیں اور احرام اس وقت تک نہ کھولیں جب تک یہ دونوں کام انجام نہ دیں، مسعودی نے اونٹوں کی تعداد (۶۰) لکھی ہے ، قربانی کے جانور حضرت ناجیہ ؓ بن جندب کے حوالے کئے گئے ،
ازواج مطہرات میں (۹) بیویاں اور صاحبزادی حضرت بی بی فاطمہؓ ساتھ تھیں ، اثنائے سفر میں حضرت ابو بکرؓ کی زوجہ اسماءؓ بنت عمیس کے ہاں ذو الحلیفہ میں لڑکا تولد ہوا جس کا نام محمد بن ابو بکر رکھا گیا، مکہ سے ۶ تا ۱۲ میل کے دوران مقام سرف پر پہنچے تو حضرت عائشہؓ حائضہ تھیں ، انھوں نے روتے ہوئے حضور ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اب میں عمرہ کرسکوں گی یا نہیں ، آپﷺ نے فرمایا یہ تو آدم ؑ کی تمام بیٹیوں پر لازم ہے اس لئے وہ سارے کا م کرو جو ہر حاجی کرتا ہے بجز طواف کے ، سر کھول کر بالوں میں کنگھی کرو اور عمرہ کو رہنے دو ، حج کی نیت سے احرام باندھ لو ، جب حج سے فارغ ہو چکیں تو حضرت عائشہؓ کو ان کے بھائی عبدا لرحمن کے ساتھ تنعیم ( مکہ کی میقات ) پر عمرہ کا احرام باندھنے بھیجا ، حضور ﷺ نے فرمایا ، یہ عمرہ اس کے بدلہ میں ہے جو تم نے حیض کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا،
حضور ﷺ نے مکہ جانے کے لئے وہ راستہ اختیار فرمایاجس میں شجرہ نام کا مقام آتا ہے ، مسجد شجرہ میں آپﷺ نے نماز ادا فرمائی ، فتح مکہ کے سفر میں آپﷺ نے جن جن مقامات پر نمازیں ادا فرمائی تھیں وہاں مساجد تعمیر کر لی گئی تھیں ، آپﷺ نے وہاں نمازیں پڑھیں ، اس موقع پر چاروں طرف آدمی ہی آدمی دکھائی دے رہے تھے،
حضرت عقبہؓ بن عامر کی بہن نے پیدل حج کی نذر مانی تھی ، انھوں نے آپﷺ سے پوچھا تو فرمایا: پیدل بھی چلو اور سوار بھی ہو جاؤ ، ایک بوڑھے شخص نے بھی پیدل حج کی نذر مانی تھی اور وہ اپنے دو بیٹوں کے درمیان سہارے سے چل رہا تھا ، جب حضور ﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا :اس سے کہو کہ سوار ہوجائے ،اللہ تعالیٰ اس کی مشقت سے بے نیاز ہے،
مکمل تحریر >>

حجة الوداع


دعوت وتبلیغ کاکام پورا ہوگیا۔ اور اللہ کی الوہیت کے اثبات ، اس کے ماسوا کی الوہیت کی نفی اور محمد رسول اللہﷺ کی رسالت کی بنیاد پر ایک نئے معاشرے کی تعمیر وتشکیل عمل میں آگئی۔ اب گویا غیبی ہاتف آپ کے قلب وشعور کو یہ احساس دلارہا تھا کہ دنیا میں آپﷺ کے قیام کا زمانہ اختتام کے قریب ہے ، چنانچہ آپﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو ۱۰ ھ میں یمن کا گورنر بنا کر روانہ فرمایا تو رخصت کرتے ہوئے منجملہ اور باتوں کے فرمایا : اے معاذ! غالباً تم مجھ سے میرے اس سال کے بعد نہ مل سکو گے۔ بلکہ غالباً میری اس مسجد اورمیری اس قبر کے پاس سے گذرو گے۔ اور حضرت معاذؓ یہ سن کر رسول اللہﷺ کی جدائی کے غم سے رونے لگے۔
درحقیقت اللہ چاہتا تھا کہ اپنے پیغمبرﷺ کو اس دعوت کے ثمرات دکھلادے جس کی راہ میں آپﷺ نے بیس برس سے زیادہ عرصہ تک طرح طرح کی مشکلات اور مشقتیں برداشت کی تھیں۔ اور اس کی صورت یہ ہو کہ آپﷺ حج کے موقع پر اطرافِ مکہ میں قبائلِ عرب کے افراد و نمائندگان کے ساتھ جمع ہوں۔ پھر وہ آپﷺ سے دین کے احکام وشرائع حاصل کریں۔ اور آپﷺ ان سے یہ شہادت لیں کہ آپﷺ نے امانت ادا کردی۔ پیغام ِ رب کی تبلیغ فرمادی۔ اور امّت کی خیر خواہی کا حق ادا فرمادیا۔ اس مَشیّتِ ایزدی کے مطابق نبیﷺ نے جب اس تاریخی حجِ مبرور کے لیے اپنے ارادے کا اعلان فرمایا۔ تو مسلمانانِ عرب جوق درجوق پہنچنا شروع ہوگئے۔ ہر ایک کی آرزو تھی کہ وہ رسول اللہﷺ کے نقش ِ پاکو اپنے لیے نشان ِ راہ بنائے۔ اور آپﷺ کی اقتدا کرے۔ یہ بات صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے۔ دیکھئے باب حجۃ النبیﷺ ۱/۳۹۴۔
تاریخ نے اس یاد گار حج کو چار ناموں سے موسوم کیا ہے ، حجۃ البلاغ ، حجۃ الاسلام ، حجۃ الوداع، اور حجۃ الاتمام و الکمال ، اسے حجتہ الوداع کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ حضور ﷺنے صاف صاف فرمایادیا تھا:
" مجھ سے مناسک حج سیکھ لو ، میں آئندہ سال شاید حج نہ کرسکوں ، دوسری وجہ یہ ہے کہ آپﷺ لوگوں سے رخصت ہوگئے یا انہیں رخصت کر دیا ، اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے کوئی حج نہیں کیا اور (۹۱) دن بعد سفر آخرت فرمایا، حجتہ البلاغ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس خطاب میں قولاً اور مناسک میں فعلاً شریعت عوام الناس تک پہنچا دی گئی اور انھوں نے بہ یک زبان اس کی شہادت دی، اس حج کو حجتہ الاسلام اس لئے کہا گیا کہ اسلام کے تمام دائمی قوانین کی تشریح فرما دی، حج فرض ہونے کے بعد یہ آپﷺ کا پہلا اور آخری حج تھا ، حجتہ الاتمام والکمال اس لئے کہا گیا کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے تکمیل دین کی آیت نازل فرمائی، حضرت عبدا للہؓ بن عباس اسے حجتہ الوداع کی بہ نسبت حجتہ الاسلام کہنا زیادہ پسند کرتے تھے،
آپﷺ کے ارادۂ حج کی اطلاع پر بے شمار لوگ مدینہ میں جمع ہوگئے ، بعض مقامات پر چیچک کی وباء نے لوگوں کو شرکت سے محروم رکھا، کچھ قبائل کے لوگ راستہ میں شامل ہوگئے اور یمن کے لوگوں نے مکہ آکر شمولیت اختیار کرلی، حجتہ الوداع میں شرکاء کی تعداد کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں یعنی (۹۰) ہزار ‘ ایک لاکھ چودہ ہزار اور ایک لاکھ چوبیس ہزار، زرقانی نے ایک لاکھ تیس ہزار لکھی ہے؛ لیکن عام طور پر ایک لاکھ چودہ ہزار کہا جاتا ہے ،

مکمل تحریر >>

دعوت کی کامیابی اور اثرات


اب ہم رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام کے تذکرہ تک پہنچ رہے ہیں۔ لیکن اس تذکرہ کے لیے رہوا ر قلم کوآگے بڑھانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ذرا ٹھہر کر آپﷺ کے اس جلیل الشان عمل پر ایک اجمالی نظر ڈالیں ، جو آپ کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ اور جس کی بناء پر آپﷺ کو تمام نبیوں اور پیغمبروں میں یہ امتیازی مقام حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سر پر اوّلین وآخرین کی سیادت کا تاج رکھ دیا۔
آپﷺ سے کہا گیا کہ
يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ﴿١﴾ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٢﴾ (۷۳: ۱،۲)
''اے چادر پوش ! رات میں کھڑا ہو مگر تھوڑ ا''
اور
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ‌ ﴿١﴾ قُمْ فَأَنذِرْ‌ ﴿٢﴾ (۷۴: ۱، ۲)
''اے کمبل پوش ! اٹھ اور لوگوں کو سنگین انجام سے ڈرا دے۔''
پھر کیا تھا؟ آپﷺ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور اپنے کاندھے پر اس روئے زمین کی سب سے بڑی امانت کا بار ِ گراں اٹھائے مسلسل کھڑے رہے۔ یعنی ساری انسانیت کابوجھ ، سارے عقیدے کا بوجھ ، اورمختلف میدان میں جنگ وجہاد اور تگ وتاز کا بوجھ۔
آپ نے اس انسانی ضمیر کے میدان میں جنگ وجہاد اورتگ وتاز کا بوجھ اٹھایا جو جاہلیت کے اوہام و تصورات کے اندر غرق تھا۔ جسے زمین اور اس کی گونا گوں کشش کے بار نے بوجھل کر رکھا تھا۔ جو شہوات کی بیڑیوں اور پھندوں میں جکڑا ہوا تھا۔ اور جب اس ضمیر کو اپنے بعض صحابہ کی صورت میں جاہلیت اور حیات ِ ارضی کے تہہ در تہہ بوجھ سے آزاد کر لیا تو ایک دوسرے میدان میں ایک دوسرا معرکہ ، بلکہ معرکوں پر معرکے شروع کردیے۔ یعنی دعوت ِ الٰہی کے وہ دشمن جو دعوت اور اس پر ایمان لانے والوں کے خلاف ٹوٹے پڑ رہے تھے ، اور اس پاکیزہ پودے کو پنپنے ، مٹی کے اندر جڑ پکڑنے ، فضا میں شاخیں لہرانے ، اور پھلنے پھولنے سے پہلے اس کی نمود گاہ ہی میں مارڈالنا چاہتے تھے۔ ان دشمنان ِ دعوت کے ساتھ آپ نے پیہم معرکہ آرائیاں شروع کیں۔ اور ابھی آپﷺ جزیرۃ العرب کے معرکوں سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ رُوم نے اس نئی امّت کو دبوچنے کے لیے اس کی سرحدوں پر تیاریاں شروع کردیں۔
پھر ان تمام کارروائیوں کے دوران ابھی پہلا معرکہ ... یعنی ضمیر کا معرکہ ... ختم نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ یہ دائمی معرکہ ہے۔ اس میں شیطان سے مقابلہ ہے۔ اور وہ انسانی ضمیر کی گہرائیوں میں گھس کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔ اور ایک لحظہ کے لیے ڈھیلا نہیں پڑتا۔ محمدﷺ دعوت الی اللہ کے کام میں جمے ہوئے تھے۔ اور متفرق میدان کے پیہم معرکوں میں مصروف تھے۔ دنیا آپﷺ کے قدموں پر ڈھیر تھی۔ مگر آپﷺ تنگی وترشی سے گذر بسر کررہے تھے۔ اہل ِ ایمان آپﷺ کے گرداگرد امن وراحت کا سایہ پھیلا رہے تھے۔ مگر آپﷺ جہد ومشقت اپنائے ہوئے تھے۔ مسلسل اور کڑی محنت سے سابقہ تھا۔ مگر ان سب پر آپﷺ نے صبر جمیل اختیار کررکھا تھا۔ رات میں قیام فرماتے تھے۔ اپنے رب کی عبادت کرتے تھے۔ اس کے قرآن کی ٹھہر ٹھہر کر قراء ت کرتے تھے۔ اور ساری دنیا سے کٹ کر اس کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے، جیساکہ آپﷺ کو حکم دیا گیا تھا۔ (سید قطب فی ظلال القرآن ۲۹/۱۶۸، ۱۶۹)
اس طرح آپﷺ نے مسلسل اور پیہم معرکہ آرائی میں بیس برس سے اوپر گذار دیے۔ اور اس دوران آپﷺ کو کوئی ایک معاملہ دوسرے معاملے سے غافل نہ کرسکا۔ یہاں تک کہ اسلامی دعوت اتنے بڑے پیمانے پر کامیاب ہوئی کہ عقلیں حیران رہ گئیں۔ سارا جزیرۃ العرب آپﷺ کے تابع فرمان ہوگیا۔ اس کے افق سے جاہلیت کا غبار چھٹ گیا۔ بیمار عقلیں تندرست ہوگئیں۔ یہاں تک کہ بتوں کو چھوڑ بلکہ توڑ دیا گیا۔ اور توحید کی آوازوں سے فضا گونجنے لگی۔ اور ایمانِ جدید سے حیات پائے ہوئے صحرا کا شبستانِ وجود اذانوں سے لرز نے لگا۔ اور اس کی پہنائیوں کو اللہ اکبر کی صدائیں چیر نے لگیں۔ قراء ،قرآن مجید کی آیتیں تلاوت کرتے اور اللہ کے احکام قائم کرتے ہوئے شمال وجنوب میں پھیل گئے۔
بکھری ہوئی قومیں اور قبیلے ایک ہوگئے۔ انسان ، بندوں کی بندگی سے نکل کر اللہ کی بندگی میں داخل ہوگیا۔ اب نہ کوئی قاہر ہے نہ مقہور ، نہ مالک ہے نہ مملوک ، نہ حاکم ہے نہ محکوم ، نہ ظالم ہے نہ مظلوم ، بلکہ سارے لوگ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور اللہ کے احکام بجالاتے ہیں۔ اللہ نے ان سے جاہلیت کا غرور ونخوت اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کردیا ہے۔ اب عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر ، گورے کو کالے پر ، کالے کو گورے پر کوئی برتری نہیں۔ برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ ورنہ سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے تھے۔
غرض اس دعوت کی بدولت عربی وحدت ، انسانی وحدت ، اور اجتماعی عدل وجود میں آگیا۔ نوعِ انسانی کو دنیاوی مسائل اور اخروی معاملات میں سعادت کی راہ مل گئی۔ بالفاظ دیگر زمانے کی رفتار بدل گئی ، روئے زمین متغیر ہوگیا۔ تاریخ کادھارا مڑ گیا، اور سوچنے کے انداز بدل گئے۔
اس دعوت سے پہلے دنیا پر جاہلیت کی کار فرمائی تھی۔ اس کا ضمیر متعفن تھا اور روح بدبو کررہی تھی۔ قدریں اور پیمانے مُختل تھے۔ ظلم اور غلامی کا دَور دورہ تھا۔ فَاجرانہ خوش حالی اور تباہ کن محرومی کی موج نے دنیا کو تہ وبالا کر رکھا تھا۔ اس پر کفر وگمراہی کے تاریک اور دبیز پردے پڑے ہوئے تھے۔ حالانکہ آسمانی مذاہب واَدْیان موجود تھے۔ مگر ان میں تحریف نے جگہ پالی تھی۔ اور ضُعف سرایت کر گیا تھا۔ اس کی گرفت ختم ہوچکی تھی اور وہ محض بے جان وبے روح قسم کے جامد رسم ورواج کا مجموعہ بن کر رہ گئے تھے۔
جب اس دعوت نے انسانی زندگی پر اپنا اثر دکھایا تو روح ِ انسان کو وہم و خرافات ، بندگی وغلامی ، فساد وتعفن اور گندگی وانار کی سے نجات دلائی۔ اور معاشرہ ٔ انسانی کو ظلم وطغیانی ، پراگندگی وبر بادی ، طبقاتی امتیازات ، حکام کے استبداد اور کاہنوں کے رسوا کن تسلط سے چھٹکار ادلایا۔ اور دنیا کو عفّت ونظافت ، ایجادات وتعمیر ، آزادی وتجدّد ، معرفت ویقین ، وثوق وایمان ، عدالت وکرامت اور عمل کی بنیادوں پر زندگی کی بالید گی ، حیات کی ترقی ، اور حقدار کی حق رسائی کے لیے تعمیر کیا۔ (سید قطب درمقدمہ ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین ص ۱۴)
ان تبدیلیوں کی بدولت جزیرۃ العرب نے ایک ایسی بابرکت اٹھان کا مشاہدہ کیا۔ جس کی نظیر انسانی وجود کے کسی دور میں نہیں دیکھی گئی۔ اور اس جزیرے کی تاریخ اپنی عمر کے ان یگانہ ٔ روز گار ایام میں اس طرح جگمگائی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں جگمگائی تھی۔
مکمل تحریر >>

وفود کی ایمانی حالت


اس طرح ۹ ھ اور ۱۰ ھ میں پے در پے وفود آئے۔ اہلِ سیر نے یمن ، اَزْد، قَضَاعہ کے بنی سعد ہذیْم ، بنی عامر بن قیس ، بنی اسد ، بہرا ، خولان ، محارب، بنی حارث بن کعب ، غامد ، بنی منتفق ، سلامان ، بنی عبس ، مزینہ، مراد، زبید،کندہ ، ذی مرہ ، غسان ، بنی عیش اور نخع کے وفود کا تذکرہ کیا ہے۔ نخع کا وفد آخری وفد تھا محرم ۱۱ ھ کے وسط میں آیا تھا او ر دوسو آدمیوں پر مشتمل تھا۔ باقی بیشتر وفود کی آمد ۹ ھ اور ۱۰ ھ میں ہوئی تھی۔ صرف بعض وفود ۱۱ ھ تک متاخر ہوئے تھے۔
ان وفود کے پے بہ پے آمد سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت اسلامی دعوت کو کس قدر فروغ اور قبولِ عام حاصل ہوچکا تھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اہلِ عرب مدینہ کو کتنی قدر اور تعظیم کی نگاہ سے دیکھتے تھے حتیٰ کہ اس کے سامنے سپر انداز ہونے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں سمجھتے تھے۔ درحقیقت مدینہ جزیرۃ العرب کا دار الحکومت بن چکا تھا۔ اور کسی کے لیے اس سے صرف نظر ممکن نہ تھا۔
البتہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان سب لوگوں کے دلوں میں دین اسلام اثر کر چکا تھا۔ کیونکہ ان میں ابھی بہت سے ایسے اکھڑ بدو تھے جو محض اپنے سرداروں کی متابعت میں مسلمان ہوگئے تھے ورنہ ان میں قتل وغارت گری کا جو رجحان جڑ پکڑ چکا تھا اس سے وہ پاک صاف نہیں ہوئے تھے۔ اور ابھی اسلامی تعلیمات نے انہیں پورے طور پر مہذب نہیں بنایا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم ، سورۂ توبہ میں ان کے بعض افراد کے اوصاف یوں بیان کیے گئے ہیں :
الْأَعْرَ‌ابُ أَشَدُّ كُفْرً‌ا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ‌ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَ‌سُولِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٩٧﴾ وَمِنَ الْأَعْرَ‌ابِ مَن يَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ مَغْرَ‌مًا وَيَتَرَ‌بَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ‌ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَ‌ةُ السَّوْءِ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٩٨﴾ (۹: ۹۷، ۹۸)
''اعراب (بدّو ) کفرونفاق میں زیادہ سخت ہیں۔ اور اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو کچھ نازل کیا ہے اس کے حدود کو نہ جانیں اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور بعض اعراب جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں۔ اور تم پر گردشوں کا انتظار کرتے ہیں۔ انہی پر بُری گردش ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔''
جبکہ کچھ دوسرے افراد کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے :
وَمِنَ الْأَعْرَ‌ابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُ‌بَاتٍ عِندَ اللَّـهِ وَصَلَوَاتِ الرَّ‌سُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْ‌بَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّـهُ فِي رَ‌حْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ (۹: ۹۹)
''اور بعض اعراب اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ، اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کی قربت اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ان کے لیے قربت کا ذریعہ ہے۔ عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ بیشک اللہ غفور رحیم ہے۔ ''
جہاں تک مکہ ، مدینہ ، ثقیف ، یمن اور بحرین کے بہت سے شہری باشندوں کا تعلق ہے ، تو ان کے اندر اسلام پختہ تھا۔ اور انہی میں سے کبارصحابہ اور سادات مسلمین ہوئے۔
(محاضرات خضری ۱/۱۴۴)
مکمل تحریر >>

وفد بنی حنیفہ


یہ وفد ۹ ھ میں مدینہ آیا۔ اس میں مسیلمہ کذاب سمیت سترہ آدمی تھے۔( فتح الباری ۸/ ۸۷)مسیلمہ کا سلسلہ ٔ نسب یہ ہے ، مسیلمہ بن ثمامہ بن کبیر بن حبیب بن حارث - یہ وفد ایک انصاری صحابی کے مکان پر اترا۔ پھر خدمت نبوی میں حاضر ہوکر حلقۂ بگوش اسلام ہوا۔ البتہ مسیلمہ کذاب کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ تمام روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اکڑ ، تکبر اور امارت کی ہوس کا اظہار کیا۔ اور وفد کے باقی ارکان کے ساتھ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہوا۔ نبیﷺ نے پہلے تو قولاً اور فعلاً اچھے اور شریفانہ برتائو کے ذریعہ اس کی دلجوئی کرنی چاہی، لیکن جب دیکھا کہ اس شخص پر اس برتائو کا کوئی مفید اثر نہیں پڑا تو آپﷺ نے اپنی فراست سے تاڑ لیا کہ اس کے اندر شر ہے۔
اس سے قبل نبیﷺ یہ خواب دیکھ چکے تھے کہ آپﷺ کے پاس روئے زمین کے خزانے لاکر رکھ دیے گئے ہیں۔ اور اس میں سے سونے کے دوکنگن آپ کے ہاتھ میں آپڑے ہیں۔ آپ کو یہ دونوں بہت گراں اور رنج دہ محسوس ہوئے۔ چنانچہ آپﷺ کو وحی کی گئی کہ ان دونوںکو پھونک دیجیے۔ آپﷺ نے پھونک دیا تو وہ دونوں اڑ گئے۔ اس کی تعبیر آپﷺ نے فرمائی کہ آپﷺ کے بعد دوکذاب (پر لے درجے کے جھوٹے ) نکلیں گے۔ چنانچہ جب مسیلمہ کذاب نے اکڑ اور انکار کا اظہار کیا ۔ وہ کہتا تھا کہ اگر محمد نے کاروبارِ حکومت کو اپنے بعد میرے حوالے کرنا طے کیا ، تو میں ان کی پیروی کروں گا ۔تو رسول اللہﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی ، اور آپﷺ کے ہمراہ آپ کے خطیب حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ تھے۔ مسیلمہ اپنے ساتھیوں کے درمیان موجود تھا۔ آپ ا س کے سر پر جاکر کھڑے ہوئے اور گفتگو فرمائی۔ اس نے کہا : اگر آپ چاہیں تو ہم حکومت کے معاملے میں آپ کو آزاد چھوڑ دیں۔ لیکن اپنے بعد اس کو ہمارے لیے طے فرمادیں۔ آپﷺ نے (کھجور کی شاخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )فرمایا : اگر تم مجھ سے یہ ٹکڑ ا چاہو گے تو تمہیں یہ بھی نہ دوں گا۔ اور تم اپنے بارے میں اللہ کے مقرر کیے ہوئے فیصلے سے آگے نہیں جاسکتے۔ اور اگر تم نے پیٹھ پھیری تو اللہ تمہیں توڑ کررکھ دے گا۔ اللہ کی قسم ! میں تجھے وہی شخص سمجھتا ہوں جس کے بارے میں مجھے وہ (خواب) دکھلایا گیا ہے جو دکھلایا گیاہے۔ اور یہ ثابت بن قیس ہیں جو تمہیں میری طرف سے جواب دیں گے۔ اس کے بعد آپ واپس چلے آئے۔( صحیح بخاری باب وفد بنی حنیفہ اور باب قصۃ الاسود العنسی ۲/۶۲۷، ۶۲۸ اور فتح الباری ۸/۸۷تا۹۳)
بالآخر وہی ہوا جس کا اندازہ رسول اللہﷺ نے اپنی فراست سے کرلیا تھا، یعنی مسیلمہ کذاب یمامہ واپس جاکر پہلے تو اپنے بارے میں غور کرتا رہا۔ پھر دعویٰ کیا کہ اسے رسول اللہﷺ کے ساتھ کارِ نبوت میں شریک کرلیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور سجع گھڑ نے لگا۔ اپنی قوم کے لیے زنااور شراب حلال کردی۔ اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ کے بارے میں یہ شہادت بھی دیتا رہا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ اس شخص کی وجہ سے ا س کی قوم فتنے میں پڑ کر اس کی پیروکار وہم آواز بن گئی۔ نتیجتاً اس کا معاملہ نہایت سنگین ہوگیا۔ اس کی اتنی قدر ومنزلت ہوئی کہ اسے یمامہ کا رحمان کہا جانے لگا۔ اور اب اس نے رسول اللہﷺ کو ایک خط لکھا کہ مجھے اس کام میں آپ کے ساتھ شریک کردیا گیا ہے۔ آدھی حکومت ہمارے لیے ہے اور آدھی قریش کے لیے۔ رسول اللہﷺ نے جوا ب میں لکھا کہ زمین اللہ کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور انجام متقیوں کے لیے ہے۔ (زاد المعاد ۳/۱۳ ، ۳۲)
ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ابن نواحہ اور ابن اثال مسیلمہ کے قاصد بن کر نبیﷺ کے پاس آئے تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تم دونوں شہادت دیتے ہوکہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ انہوں نے کہا : ہم شہادت دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا : میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔ اگر میں کسی قاصد کو قتل کرتا تو تم دونوں کو قتل کردیتا۔ (مسند احمد مشکوٰۃ ۲/۳۴۷)
مسیلمہ کذاب نے ۱۰ ھ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اور ربیع الاول ۱۲ ھ میں بہ عہد خلافتِ صدیقی یمامہ کے اندر قتل کیا گیا۔ اس کا قاتل وحشی تھا ، جس نے حضرت حمزہؓ کو قتل کیا تھا۔
ایک مدعی نبوت تو یہ تھا۔ جس کا انجام یہ ہو ا۔ ایک دوسرا مدعی نبوت اَسْوَد عنسی تھا۔ جس نے یمن میںفساد برپا کر رکھا تھا۔ اسے نبیﷺ کی وفات سے صرف ایک دن اور ایک رات پہلے حضرت فیروزؓ نے قتل کیا۔ پھر آپ کے پاس اس کے متعلق وحی آئی، اور آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس واقعہ سے باخبر کیا۔ اس کے بعد یمن سے حضرت ابو بکرؓ کے پاس باقاعدہ خبر آئی۔( فتح الباری ۸/۹۳)
مکمل تحریر >>

وفد عامر بن صعصعہ اور وفد تجیب


اس وفد میں اللہ کا دشمن عامر بن طفیل ، حضرت لبید کا اخیافی بھائی اربد بن قیس ، خالد بن جعفر اور جبار بن اسلم شامل تھے۔ یہ سب اپنی قوم کے سربرآوردہ اور شیطان تھے۔ عامر بن طفیل وہی شخص ہے جس نے بئر معونہ پر ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کرایاتھا۔ ان لوگو ں نے جب مدینہ آنے کا ارادہ کیا تو عامر اور اربد نے باہم سازش کی کہ نبیﷺ کو دھوکادے کر اچانک قتل کردیں گے۔ چنانچہ جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو عامر نے نبیﷺ سے گفتگو شروع کی اور اربد گھوم کر آپ کے پیچھے پہنچا، اور ایک بالشت تلوار میان سے باہر نکالی ، لیکن اس کے بعد اللہ نے اس کا ہاتھ روک لیا۔ اور وہ تلوار بے نیام نہ کر سکا۔ اوراللہ نے اپنے نبی کو محفوظ رکھا۔ نبیﷺ نے ان دونوں پر بد دعا کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ واپسی پر اللہ نے اربد اور اس کے اونٹ پر بجلی گرادی۔ جس سے اربد جل مرا۔ اور ادھر عامر ایک سلولیہ عورت کے ہاں اترا ، اور اسی دوران اس کی گردن میں گلٹی نکل آئی۔ اس کے بعد وہ یہ کہتا ہوا مرگیا کہ آہ ! اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی ، اور ایک سلولیہ عورت کے گھر میں موت ؟
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ عامر نے نبیﷺ کے پاس آکرکہا : میں آپ کو تین باتوں کا اختیار دیتا ہوں: (۱)آپ کے لیے وادی کے باشندے ہوں اور میرے لیے آبادی کے (۲) یا میں آپ کے بعد آپ کا خلیفہ ہوؤں (۳)ورنہ میں غطفان کو ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار گھوڑیوں سمیت آپ پر چڑھالاؤں گا۔ اس کے بعد وہ ایک عورت کے گھر میں طاعون کا شکار ہوگیا (جس پر اس نے فرطِ غم سے ) کہا : کیا اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی ؟ اوروہ بھی بنی فلاں کی ایک عورت کے گھر میں؟ میرے پاس میرا گھوڑا لاؤ، پھر وہ سوار ہوا ، اور اپنے گھوڑے ہی پر مر گیا۔

وفد تجیب:
یہ وفد اپنی قوم کے صدقات کو ، جو فقراء سے فاضل بچ گئے تھے ، لے کر مدینہ آیا۔ وفد میں تیرہ آدمی تھے۔ جوقرآن وسنن پوچھتے اور سیکھتے تھے۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے کچھ باتیں دریافت کیں تو آپ نے وہ باتیں انہیں لکھ دیں۔ وہ زیادہ عرصہ نہیں ٹھہرے۔ جب رسول اللہﷺ نے انہیں تحائف سے نوازا تو انہوں نے اپنے ایک نوجوان کو بھی بھیجا۔ جو ڈیرے پر پیچھے رہ گیا تھا۔ نوجوان نے حاضرِ خدمت ہوکر عرض کی : حضور ! اللہ کی قسم ! مجھے میرے علاقے سے اس کے سوا کوئی چیز نہیں لائی ہے کہ آپ اللہ عزوجل سے میر ے لیے یہ دعا فرمادیں کہ وہ مجھے اپنی بخشش ورحمت سے نوازے اور میری مالداری میرے دل میں رکھ دے۔ آپ نے اس کے لیے یہ دعا فرمائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص سب سے زیادہ قناعت پسند ہوگیا۔ اور جب ارتداد کی لہر چلی تو صرف یہی نہیں کہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہا بلکہ اپنی قوم کو وعظ ونصیحت کی تو وہ بھی اسلام پر ثابت قدم رہی پھر اہل وفد نے حجۃ الوداع ۱۰ ھ میں نبیﷺ سے دوبارہ ملاقات کی۔
(جن وفود کا ذکر کیا گیا یا جن کی طرف اشارہ کیا گیا ان کی تفصیل کے لیے دیکھئے : صحیح بخاری ۱/۱۳، ۲/۶۲۶ تا ۶۳۰ ابن ہشام ۲/۵۰۱ تا ۵۰۳ ، ۵۱۰ تا ۵۱۴ ، ۵۳۷تا ۵۴۲، ۵۶۰ تا ۵۶۱ زاد المعاد ۳/۲۶تا ۶۰ ، فتح الباری ۸/۸۳تا ۱۰۳۔ )
مکمل تحریر >>

وفدِ نجران


ن کو زبر ، ج ساکن۔ مکہ سے یمن کی جانب سات مرحلے پر ایک بڑا علاقہ تھا جو ۷۳ بستیوں پر مشتمل تھا۔ تیز رفتار سوار ایک دن میں پورا علاقہ طے کر سکتا تھا۔اس علاقہ میں ایک لاکھ مردان جنگی تھے، جو سب کے سب عیسائی مذہب کے پیرو کار تھے) فتح الباری ۸/۹۴)
نجران کا وفد ۹ ھ میں آیا۔ یہ ساٹھ افراد پر مشتمل تھا۔ ۲۴ آدمی اشراف سے تھے۔ جن میں سے تین آدمیوں کو اہل نجران کی سربراہی و سرکردگی حاصل تھی۔ ایک عاقب جس کے ذمہ امارت و حکومت کا کام تھا۔ اور اس کا نام عبد المسیح تھا۔ دوسرا سید جو ثقافی اور سیاسی امور کا نگراں تھا۔ اور اس کا نام ایہم یا شرحبیل تھا۔ تیسرا اسقف ( لاٹ پادری) جو دینی سربراہ اور روحانی پیشوا تھا۔ اس کا نام ابو حارثہ بن علقمہ تھا۔
وفد نے مدینہ پہنچ کر نبیﷺ سے ملاقات کی، پھر آپ نے ان کچھ سوالات کیے ، اور انہوں نے آپ سے کچھ سوالات کیے۔ اس کے بعد آپﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ اور قرآن حکیم کی آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ لیکن انہوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ اور دریافت کیا کہ آپ مسیح علیہ السلام کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ اس کے جواب میں رسول اللہﷺ نے اس روز دن بھر توقف کیا۔ یہاں تک کہ آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں :
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَ‌ابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿٥٩﴾ الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِ‌ينَ ﴿٦٠﴾ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾ (۳: ۵۹، ۶۰ ، ۶۱ )
''بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے اسے مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے کہا ہوجا تو وہ ہوگیا۔ حق تیرے رب کی طرف سے ہے، پس شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔ پھر تمہارے پاس علم آجانے کے بعد کوئی تم سے اس (عیسیٰ) کے بارے میں حجت کرے تو اس سے کہہ دو کہ آؤ ہم بلائیں اپنے اپنے بیٹوں کو اور اپنی اپنی عورتوں کو اور خود اپنے آپ کو پھر مباہلہ کریں (اللہ سے گِڑ گڑا کر دعاکریں ) پس اللہ کی لعنت ٹھہرائیں جھوٹوں پر۔''
صبح ہوئی تو رسول اللہﷺ نے انہی آیات کریمہ کی روشنی میں انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اپنے قول سے آگاہ کیا۔ اور اس کے بعد دن بھر انہیں غور وفکر کے لیے آزاد چھوڑ دیا لیکن انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ پھر اگلی صبح ہوئی - درآنحالیکہ وفد کے ارکان حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں آپ کی بات تسلیم کرنے اور اسلام لانے سے انکار کر چکے تھے -- تو رسول اللہﷺ نے انہیں مباہلے کی دعوت دی۔ اور حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما سمیت ایک چادر میں لپٹے ہوئے تشریف لائے۔ پیچھے پیچھے حضرت فاطمہ ؓ چل رہی تھیں۔ جب وفد نے دیکھا کہ آپ واقعی بالکل تیار ہیں تو تنہائی میں جاکر مشورہ کیا۔ عاقب اور سید دونوں نے ایک دوسرے سے کہا : دیکھو مباہلہ نہ کرنا۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ نبی ہے ، اور ہم نے اس سے ملاعنت کرلی تو ہم اور ہمارے پیچھے ہماری اولاد ہرگز کامیاب نہ ہوگی۔ روئے زمین پر ہمارا ایک بال اور ناخن بھی تباہی سے نہ بچ سکے گا۔ آخر کی رائے یہ ٹھہری کہ رسول اللہﷺ ہی کو اپنے بارے میں حکم بنایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ کا جو مطالبہ ہو ہم اسے ماننے کو تیار ہیں۔ اس پیش کش پر رسول اللہﷺ نے ان سے جزیہ لینا منظور کیا۔ اور دو ہزار جوڑے کپڑوں پر مصالحت فرمائی۔ ایک ہزار ماہ رجب میں اور ایک ہزار ماہ صفر میں۔ اور طے کیا کہ ہر جوڑے کے ساتھ ایک اوقیہ ( ایک سو باون گرام چاندی ) بھی ادا کرنی ہوگی۔ اس کے عوض آپ نے انہیں اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ عطا فرمایا۔ اور دین کے بارے میں مکمل آزادی مرحمت فرمائی۔ اس سلسلے میں آپ نے انہیں ایک باقاعدہ نوشتہ لکھ دیا۔ ان لوگوں نے آپ سے گزارش کی ، آپ ان کے ہاں ایک امین ( امانت دار ) آدمی روانہ فرمائیں۔ اس پر آپ نے صلح کا مال وصول کرنے کے لیے اس امت کے امین حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کو روانہ فرمایا۔
اس کے بعد ان کے اندر اسلام پھیلنا شروع ہوا۔ اہل سیر کا بیان ہے کہ سید اور عاقب پلٹنے کے بعد مسلمان ہوگئے۔ پھر نبیﷺ نے ان سے صدقات اور جزیے لانے کے لیے حضرت علیؓ کو روانہ فرمایا اور معلوم ہے کہ صدقہ مسلمانوں ہی سے لیا جاتا ہے۔ فتح الباری ۸/ ۹۴،۹۵ زادا لمعاد ۳/۳۸ تا ۴۱۔ وفد نجران کی تفصیلات میں روایا ت کے اندر خاصا اضطراب ہے اور اسی وجہ سے بعض محققین کا رجحان ہے کہ نجران کا وفد دوبار مدینے آیا۔ لیکن ہمارے نزدیک وہی بات راجح ہے جسے ہم نے اُوپر مختصراً بیان کیا ہے۔

مکمل تحریر >>

وفدِ ثقیف


یہ وفد رمضان ۹ھ میں تبوک سے رسول اللہﷺ کی واپسی کے بعد حاضر ہوا۔ اس قبیلے میں اسلام پھیلنے کی صورت یہ ہوئی کہ رسول اللہﷺ ذی قعدہ ۸ ھ میں جب غزوہ ٔطائف سے واپس ہوئے تو آپ کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی اس قبیلے کے سردار عُروہ بن مسعود نے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ پھر اپنے قبیلہ میں واپس جاکر لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ وہ چونکہ اپنی قوم کا سردار تھا ، اور صرف یہی نہیں کہ اس کی بات مانی جاتی تھی ، بلکہ اسے اس قبیلے کے لوگ اپنی لڑکیوں اور عورتوں سے بھی زیادہ محبوب رکھتے تھے ، اس لیے اس کا خیال تھا کہ لوگ اس کی اطاعت کریں گے۔ لیکن جب اس نے اسلام کی دعوت دی تو اس توقع کے بالکل برخلاف لوگوں نے اس پر ہرطرف سے تیروں کی بوچھاڑ کردی اور اسے جان سے ماڑ ڈالا۔ پھر اسے قتل کرنے کے بعد چند مہینے تو یوں ہی مقیم رہے۔ لیکن اس کے بعد انہیں احساس ہوا کہ گرد وپیش کا علاقہ جو مسلمان ہوچکا ہے ، اس سے ہم مقابلہ کی تاب نہیں رکھتے۔ لہٰذا انہوں نے باہم مشورہ کرکے طے کیا کہ ایک آدمی کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجیں۔ اور اس کے لیے عَبْدِ یالَیْل بن عَمرو سے بات چیت کی ، مگر وہ آمادہ نہ ہوا۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں اس کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیاجائے جو عروہ بن مسعود کے ساتھ کیاجاچکاہے۔ اس لیے اس نے کہا : میں یہ کام اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک میرے ساتھ مزید کچھ آدمی نہ بھیجو۔ لوگوں نے اس کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ حلیفوں میں سے دوآدمی اور بنی مالک میں سے تین آدمی لگادیے۔ اس طرح کل چھ آدمیوں کا وفد تیار ہوگیا۔ اسی وفد میں حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی بھی تھے جو سب سے زیادہ کم عمر تھے۔
جب یہ لوگ خدمت نبویﷺ میں پہنچے تو آپ نے ان کے لیے مسجد کے ایک گوشے میں ایک قُبہّ لگوایا تاکہ یہ قرآن سن سکیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ سکیں۔ پھر یہ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آتے جاتے رہے اور آپﷺ انہیں اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ آخر ان کے سردار نے سوال کیا کہ آپ اپنے اور ثقیف کے درمیان ایک معاہدہ ٔ صلح لکھ دیں جس میں زنا کاری ، شراب نوشی اور سود خوری کی اجازت ہو۔ ان کے معبود''لات '' کو برقرار رہنے دیا جائے۔ انہیں نماز سے معاف رکھا جائے اور ان کے بُت خود ان کے ہاتھوں سے نہ تڑوائے جائیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ان میں سے کوئی بھی بات منظور نہ کی۔ لہٰذا انہوں نے تنہائی میں مشورہ کیا مگر انہیں رسول اللہﷺ کے سامنے سپر ڈالنے کے سوا کوئی تدبیر نظر نہ آئی۔ آخر انہوں نے یہی کیا اور اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے حوالے کرتے ہوئے اسلام قبول کرلیا۔ البتہ یہ شرط لگائی کہ ''لات'' کو ڈھانے کا انتظام رسول اللہﷺ خود فرمادیں۔ ثقیف اسے اپنے ہاتھوں سے ہرگز نہ ڈھائیں گے۔ آپﷺ نے یہ شرط منظور کرلی اور ایک نوشتہ لکھ دیا۔ اور عثمان بن ابی العاص ثقفی کو ان کا امیر بنادیا کیونکہ وہی اسلام کو سمجھنے اور دین وقرآن کی تعلیم حاصل کرنے میں سب سے زیادہ پیش پیش اور حریص تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وفد کے ارکان ہر روز صبح خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوتے تھے، لیکن عثمانؓ بن ابی العاص کو اپنے ڈیرے پر چھوڑ دیتے تھے۔ اس لیے جب وفد واپس آکر دوپہر میں قیلولہ کرتا تو حضرت عثمانؓ بن ابی العاص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر قرآن پڑھتے اور دین کی باتیں دریافت کرتے اور جب آپﷺ کو استراحت فرماتے ہوئے پاتے تو اسی مقصد کے لیے حضرت ابو بکرؓ کی خدمت میں چلے جاتے۔ حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کی گورنری بابرکت ثابت ہوئی۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد جب خلافت صدیقی میں ارتداد کی لہر چلی اور ثقیف نے بھی مرتد ہونے کا ارادہ کیا تو انہیں حضرت عثمان بن ابی العاصؓ نے مخاطب کر کے کہا :''ثقیف کے لوگو! تم سب سے اخیر میں اسلام لائے ہو۔ اس لیے سب سے پہلے مرتد نہ ہوؤ۔''یہ سن کر لوگ ارتداد سے رک گئے اور اسلام پر ثابت قدم رہے۔
بہرحال وفد نے اپنی قوم میں واپس آکر اصل حقیقت کوچھپائے رکھا اور قوم کے سامنے لڑائی اور مار دھاڑ کا ہوّا کھڑا کیا اور حزن وغم کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ رسول اللہﷺ نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام قبول کرلیں اور زنا، شراب اور سُود چھوڑ دیں۔ ورنہ سخت لڑائی کی جائے گی۔ یہ سن کرپہلے تو ثقیف پر نخوتِ جاہلیہ غالب آئی اور وہ دوتین روز تک لڑائی ہی کی بات سوچتے رہے ، لیکن پھر اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور انہوں نے وفد سے گزارش کی کہ وہ پھر رسول اللہﷺ کے پاس واپس جائے اور آپﷺ کے مطالبات تسلیم کرلے۔ اس مرحلے پر پہنچ کر وفد نے اصل حقیقت ظاہر کی اور جن باتوں پر مصالحت ہوچکی تھی ان کا اظہار کیا۔ ثقیف نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔
ادھر رسول اللہﷺ نے لات کو ڈھانے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کی سرکردگی میں چند صحابہؓ کی ایک ذرا سی نفری روانہ فرمائی۔ حضرت مغیرہؓ بن شعبہ نے کھڑے ہوکر گرز اُٹھایا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: واللہ ! میں ذرا آپ لوگوں کو ثقیف پر ہنساؤں گا۔ اس کے بعد لات پر گرزمار کر خود ہی گرپڑے اور ایڑیاں پٹکنے لگے۔
یہ بناوٹی منظر دیکھ کر اہلِ طائف پر ہول طاری ہوگیا۔ کہنے لگے : اللہ مغیرہ کو ہلا ک کرے ، اسے دیوی نے مار ڈالا۔ اتنے میں حضرت مغیرہؓ اچھل کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا : اللہ تمہارا بُرا کرے۔ یہ تو پتھر اور مٹی کا تماشا ہے۔ پھر انہوں نے دروازے پر ضرب لگائی اور اسے توڑ دیا۔ اس کے بعد سب سے اونچی دیوار پر چڑھے اور ان کے ساتھ کچھ اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی چڑھے۔ پھر اسے ڈھاتے ڈھاتے زمین کے برابر کردیا حتیٰ کہ اس کی بنیاد بھی کھود ڈالی اور اس کا زیور اور لباس نکال لیا۔ یہ دیکھ کر ثقیف دم بخورد رہ گئے۔ حضرت خالدؓ زیور اور لباس لے کر اپنی ٹیم کے ساتھ واپس ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے سب کچھ اسی دن تقسیم فرمادیا اور نبی کی نصرت اور دین کے اعزاز پر اللہ کی حمد کی۔
( زاد المعاد ۳/۲۶، ۲۷، ۲۸، ابن ہشام ۲/۵۳۷ تا ۵۴۲)
مکمل تحریر >>

کعب بن زبیر بن ابی سلمہ کی آمد


یہ شخص ایک شاعر خانوادے کا چشم وچراغ تھا اور خود بھی عرب کا عظیم ترین شاعر تھا۔ یہ کافر تھا ، اور نبیﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا۔ امام حاکم کے بقول یہ بھی ان مجرموں کی فہرست میں شامل تھا جن کے متعلق فتح مکہ کے موقع پر حکم دیا گیا تھا کہ اگروہ خانہ کعبہ کا پردہ پکڑے ہوئے پائے جائیں تو بھی ان کی گردن مار دی جائے۔ لیکن یہ شخص بچ نکلا۔ ادھر رسول اللہﷺ غزوہ طائف ( ۸ ھ ) سے واپس ہوئے تو کعب کے پاس اس کے بھائی بجیر بن زہیرنے لکھا کہ رسول اللہﷺ نے مکہ کے کئی ان افراد کو قتل کرادیا ہے جو آپﷺ کی ہجو کرتے اور آپﷺ کو ایذائیں پہنچاتے تھے۔ قریش کے بچے کھچے شعراء میں سے جس کی جدھر سینگ سمائی ہے نکل بھاگا ہے۔ لہٰذا اگرتمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو رسول اللہﷺ کے پاس اُڑکر آجاؤ، کیونکہ کوئی بھی شخص توبہ کرکے آپ کے پاس آجائے تو آپﷺ اسے قتل نہیں کرتے۔ اور اگر یہ بات منظور نہیں تو پھر جہاں نجات مل سکے نکل بھاگو۔ اس کے بعد دونوں بھائیوں میں مزید خط وکتابت ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں کعب بن زہیر کوزمین تنگ محسوس ہونے لگی۔ اور اسے اپنی جان کے لالے پڑتے نظر آئے۔ اس لیے آخرکاروہ مدینہ آگیا اور جُہینہ کے ایک آدمی کے ہاں مہمان ہوا۔ پھر اسی کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہوا تو جُہینی نے اشارہ کیا اور وہ اُٹھ کر رسول اللہﷺ کے پاس جا بیٹھا اور اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ رسول اللہﷺ اسے پہچانتے نہ تھے۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کعب بن زہیر توبہ کرکے مسلمان ہوگیا ہے۔ اور آپ سے امن کا خواستگار بن کر آیا ہے تو کیا اگر میں اسے آپ کی خدمت میں حاضر کردوں تو آپﷺ اس کی ان چیزوں کو قبول فرمالیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا : ہاں ! اس نے کہا : میں ہی کعب بن زہیر ہوں۔ یہ سن کر ایک انصاری صحابی اس پر جھپٹ پڑے اور اس کی گردن مارنے کی اجازت چاہی۔ آپﷺ نے فرمایا : چھوڑ دو ، یہ شخص تائب ہوکر اور پچھلی باتوں سے دستکش ہوکر آیا ہے۔
اس کے بعد اسی موقع پر کعب بن زہیر نے اپنا مشہور قصیدہ آپﷺ کو پڑھ کر سنایا۔ جس کی ابتدا یوں ہے :
بانت سعاد فقلبی الیوم متبول
متیم إثرہا، لم یفد ، مکبول
''سعاد دور ہوگئی تو میرا دل بے قرارہے۔ اس کے پیچھے وارفتہ اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے ا س کا فدیہ نہیں دیا گیا۔ ''
اس قصیدے میں کعب نے رسول اللہﷺ سے معذرت کرتے ہوئے اور آپﷺ کی مدح کرتے ہوئے آگے یوں کہا ہے :
نـبـئت أن رسـول اللہ أوعــدنــی والـعـفــو عـند رسول اللہ مأمول
مـہـلا ہداک الذی أعطاک نافلۃ الـ ـقـرآن فـیـہا مـواعیـظ وتفصیــل
لا تأخذن بأقوال الـــوشـاۃ ولــم أذنـب ولـو کـثـرت فـي الأقاویل
لـقــد أقـوم مقامـاً لـــو یقـوم بـہ أرای وأسمـع مـا لـو یسـمع الفیل
لـظـل یـرعـــد إلا أن یـکون لـــہ مـن الـرسول بـإذن اللہ تـنـویــل
حتی وضعت یمینی ما أنــازعـــہ فـی کـف ذی نـقـمات قیلہ القیـل
فـلہـو أخـوف عـنـدی إذ أکلمــہ وقیل: إنـک منســـوب ومسئــول
من ضیغم بضراء الأرض مخـدرۃ فـی بطــن عـثـر غیــل دونـہ غیل
إن الرســول لنـور یستضــاء بـــہ مـہنــد من سیـوف اللہ مسـلـول

''مجھے بتایا گیا ہے کہ اللہ کے رسول نے مجھے دھمکی دی ہے۔ حالانکہ اللہ کے رسول سے درگزر کی توقع ہے۔ آپ ٹھہریں چغل خوروں کی بات نہ لیں - وہ ذات آپ کی رہنمائی کرے جس نے آپ کو نصائح اور تفصیل سے پُر قرآن کا تحفہ دیا ہے- اگر چہ میر ے بارے میں باتیںبہت کہی گئی ہیں ، لیکن میں نے جُرم نہیں کیا ہے۔ میں ایسی جگہ کھڑا ہوں اور وہ باتیں دیکھ اور سن رہاہو ں کہ اگر ہاتھی بھی وہاں کھڑا ہواور ان باتوں کو سنے اور دیکھے تو تھراتا رہ جائے۔ سوائے اس صورت کے کہ اس پر اللہ کے اذن سے رسول کی نوازش ہو۔ حتی کہ میں نے اپنا ہاتھ کسی نزاع کے بغیر اس ہستی ٔمحترم کے ہاتھ میں رکھ دیا جسے انتقام پر پوری قدرت ہے ، اور جس کی بات بات ہے۔ جب میں اس سے بات کرتا ہوں - درانحالیکہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ تمہاری طرف (فلاں فلاں باتیں ) منسوب ہیں۔ اور تم سے باز پرس کی جائے گی - تو وہ میرے نزدیک اس شیر سے بھی زیادہ خوفناک ہوتے ہیں جس کا کچھار کسی ہلاکت خیزوادی کے بطن میں واقع کسی ایسی سخت زمین میں ہو جس سے پہلے بھی ہلاکت ہی ہو۔ یقینا رسول ایک نور ہیں جن سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ کی تلوار وں میں سے ایک سونتی ہوئی ہندی تلوار ہیں۔''
اس کے بعد کعب بن زہیر نے مہاجرین قریش کی تعریف کی۔ کیونکہ کعب کی آمدپر ان کے کسی آدمی نے خیر کے سوا کوئی بات اور حرکت نہیں کی تھی۔ لیکن ان کی مدح کے دوران انصار پر طنز کی، کیونکہ ان کے ایک آدمی نے ان کی گردن مارنے کی اجازت چاہی تھی۔ چنانچہ کہا :
یمشون مشی الجمال الزہر یعصمہم
ضـــرب إذا عـرد السود التنابیل
''وہ (قریش ) خوبصورت ، مٹکے اونٹ کی چال چلتے ہیں۔ اور شمشیر زنی ان کی حفاظت کرتی ہے۔ جب کہ ناٹے کھوٹے، کالے کلوٹے لوگ راستہ چھوڑ کر بھاگتے ہیں۔ ''
لیکن جب وہ مسلمان ہوگیا۔ اور اس کے اسلام میں عمدگی آگئی تو اس نے ایک قصیدہ انصار کی مدح میں کہا اور ان کی شان میں اس سے جو غلطی ہوگئی تھی اس کی تلافی کی۔ چنانچہ اس قصیدے میں کہا :
من سرہ کــرم الحیاۃ فلا یـزل في مـقـنب من صالحی الأنصار
ورثـوا المکارم کابراً عن کابر إن الخیــار ہــم بنو الأخیــــار
''جسے کریمانہ زندگی پسند ہو وہ ہمیشہ صالح انصار کے کسی دستے میں رہے۔ انہوں نے خوبیاں باپ داد ا سے ورثہ میں پائی ہے۔ درحقیقت اچھے لوگ وہی ہیں جو اچھوں کی اولاد ہوں۔ ''
مکمل تحریر >>

مختلف وفود کی آمد


اہل مغازی نے جن وفود کا تذکرہ کیا ہے ان کی تعداد ستر سے زیادہ ہے لیکن یہاں نہ تو ان کے اِستقصاء کی گنجائش ہے اور نہ ان کے تفصیلی بیان میں کوئی بڑا فائدہ ہی مضمر ہے۔ اس لیے ہم صرف انہی وفود کا ذکر کررہے ہیں جو تاریخی حیثیت سے اہمیت و ندرت کے حامل ہیں۔ قارئین کرام کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اگر چہ عام قبائل کے وفود فتح مکہ کے بعد خدمت نبویﷺ میں حاضر ہونا شروع ہوئے تھے۔ لیکن بعض بعض قبائل ایسے بھی تھے جن کے وفود فتح مکہ سے پہلے ہی مدینہ آچکے تھے۔ یہاں ہم ان کا ذکر بھی کررہے ہیں۔

۱۔ وفد عبد القیس :
اس قبیلے کا وفد دوبار خدمت نبویﷺ میں حاضر ہوا تھا۔ پہلی بار ۵ ھ میں یا اس سے بھی پہلے۔ اور دوسری بار عام الوفود ۹ ھ میں۔ پہلی بار اس کی آمد کی وجہ یہ ہوئی کہ اس قبیلے کا ایک شخص منقذ بن حبان سامان تجارت کے کر مدینہ آیا جایا کرتا تھا۔ وہ جب نبیﷺ کی ہجرت کے بعد پہلی بار مدینہ آیا اور اسے اسلام کا علم ہوا تو وہ مسلمان ہوگیا۔ اور نبیﷺ کا ایک خط لے کر اپنی قوم کے پاس گیا۔ ان لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ اور ان کے ۱۳ یا ۱۴ آدمیوں کا ایک وفد حرمت والے مہینے میں خدمتِ نبوی میں حاضر ہوا۔ اسی دفعہ اس وفد نے نبیﷺ سے ایمان اور مشروبات کے متعلق سوال کیا تھا۔ اس وفد کا سربراہ الاشج العصری تھا۔ جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ تم میں دو ایسی خصلتیں ہیں جنہیں اللہ پسند کرتا ہے: (۱) دوراندیشی اور (۲)بُردباری۔
دوسری باراس قبیلے کا وفد جیساکہ بتایا گیا وفود والے سال میں آیا تھا۔ اس وقت ان کی تعداد چالیس تھی اور ان میں علاء بن جارود عبدی تھا ، جو نصرانی تھا ، لیکن مسلمان ہو گیا اور اس کا اسلام بہت خوب رہا۔( شرح صحیح مسلم للنووی۱/۳۳، فتح الباری ۸/۸۵، ۸۶)

2۔وفددَوس :
یہ وفد ۷ ھ کے اوائل میں مدینہ آیا۔ اس وقت رسول اللہﷺ خیبر میں تھے۔ آپ پچھلے اوراق میں پڑھ چکے ہیں کہ اس قبیلے کے سربراہ حضرت طُفیل بن عَمرو دوسیؓ اس وقت بگوش ِ اسلام ہوئے تھے ، جب رسول اللہﷺ مکہ میں تھے۔ پھر انہوں نے اپنی قوم میں واپس جاکر اسلام کی دعوت وتبلیغ کاکام مسلسل کیا لیکن ان کی قوم برابر ٹالتی اور تاخیر کرتی رہی۔ یہاں تک کہ حضرت طفیل ان کی طرف سے مایوس ہوگئے۔ پھر انہوں نے خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ آپ قبیلہ دوس پر بددعا کردیجیے۔ لیکن آپ نے فرمایا : اے اللہ ! دوس کو ہدایت دے۔ اور آپ کی اس دعا کے بعد اس قبیلے کے لوگ مسلمان ہوگئے۔ اور حضرت طفیل نے اپنی قوم کے ستر یا اسی گھرانوں کی جمعیت لے کر ۷ ھ کے اوائل میں اس وقت مدینہ ہجرت کی جب نبیﷺ خیبر میں تشریف فرماتھے۔ اس کے بعد حضرت طفیل نے آگے بڑھ کر خیبر میں آپ کا ساتھ پکڑ لیا۔

3۔ فروہ بن عَمْرو جذامی کا پیغام رساں :
حضرت فَرْوَہ ، رومی سپاہ کے اندر ایک عربی کمانڈر تھے۔ انہیں رُومیوں نے اپنے حدود سے متصل عرب علاقوں کا گورنر بنا رکھا تھا۔ ان کا مرکز معان (جنوبی اُردن ) تھا اور عملداری گرد وپیش کے علاقے میں تھی۔ انہوں نے جنگ مُوتہ ( ۸ ھ ) میں مسلمانوں کی معرکہ آرائی ، شجاعت اور جنگی پختگی دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔ اور ایک قاصد بھیج کر رسول اللہﷺ کو اپنے مسلمان ہونے کی اطلاع دی۔ تحفہ میں ایک سفید خچر بھی بھجوایا۔ رومیوں کو ان کے مسلمان ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے پہلے تو انہیں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا۔ پھر اختیار دیا کہ یا تو مرتد ہوجائیں یاموت کے لیے تیار رہیں۔ انہوں نے ارتداد پر موت کو ترجیح دی۔ چنانچہ انہیں فلسطین میں عفراء نامی ایک چشمے پر سولی دے کر ان کی گردن مار دی گئی۔( زادالمعاد ۳/۴۵)
5۔ وفد طَی ٔ:
اس وفد کے ساتھ عرب کے مشہور شہسوار زید الخیل بھی تھے۔ ان لوگوں نے جب نبیﷺ سے گفتگو کی اور آپ نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اور بہت اچھے مسلمان ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت زید کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے عرب کے جس کسی آدمی کی خوبی بیان کی گئی اور پھر وہ میرے پاس آیا تو میں نے اسے اس کی شہرت سے کچھ کمتر ہی پایا، مگر اس کے برعکس زید الخیل کی شہرت ان کی خوبیوں کو نہیں پہنچ سکی۔ اور آپ نے ان کا نام زید الخیر رکھ دیا۔


6۔ وفد عذرہ :
یہ وفد صفر ۹ ھ میں مدینہ آیا۔ بارہ آدمیوں پر مشتمل تھا۔ اس میں حمزہ بن نعمان بھی تھے۔ جب وفد سے پوچھا گیا کہ آپ کون لوگ ہیں ؟ تو ان کے نمائندے نے کہا : ہم بنوعذرہ ہیں۔ قُصّیِ کے اَخْیافی بھائی۔ ہم نے ہی قصی کی تائید کی تھی۔ اور خزاعہ اور بنوبکر کو مکہ سے نکالا تھا۔ (یہاں) ہمارے رشتے اور قرابت داریاں ہیں۔ اس پر نبیﷺ نے خوش آمدید کہا۔ اور ملک شام کے فتح کیے جانے کی بشارت دی۔ نیز انہیں کا ہنہ عورتوں سے سوال کرنے سے منع کیا۔ اور ان ذبیحوں سے روکا جنہیں یہ لوگ (حالت شرک میں ) ذبح کیا کرتے تھے۔ اس وفد نے اسلام قبول کیا اور چند روز ٹھہر کر واپس گیا۔
7۔ وفد بلی :
یہ ربیع الاول ۹ ھ میں آیا۔ اور حلقۂ بگوش اسلام ہو کر تین روز مقیم رہا۔ دوران قیام وفد کے رئیس ابوالضبیب نے دریافت کیا کہ کیا ضیا فت میں بھی اجر ہے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہاں ! کسی مالدار یا فقیر کے ساتھ جو بھی اچھا سلوک کروگے وہ صدقہ ہے۔ اس نے پوچھا: مدت ضیافت کتنی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: تین دن۔ اس نے پوچھا : کسی لاپتہ شخص کی گمشدہ بھیڑ مل جائے تو کیا حکم ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ تمہارے لیے ہے۔ یا تمہارے بھائی کے لیے ہے۔ یاپھر بھیڑیے کے لیے ہے۔ اس کے بعد اس نے گمشدہ اونٹ کے متعلق سوال کیا۔ آپﷺ نے فرمایا : تمہیں اس سے کیا واسطہ؟ اسے چھوڑ دو ، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پاجائے۔

8۔ شاہانِ یمن کا خط:
تبوک سے نبیﷺ کی واپسی کے بعد شاہانِ حِمیر یعنی حارث بن عبد کلال ، نعیم بن عبدکلال اور رعین ، ہمدان اور معافر کے سربراہ نعمان بن قیل کا خط آیا۔ ام کا نامہ بر مالک بن مُرّہ رہادی تھا۔ ان بادشاہوں نے اپنے اسلام لانے اور شرک واہلِ شرک سے علیحدگی اختیار کرنے کی اطلاع دے کر اسے بھیجا تھا۔ رسول اللہﷺ نے ان کے پاس ایک جوابی خط لکھ کر واضح فرمایا کہ اہل ِ ایمان کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ آپ نے اس خط میں معاہدین کے لیے اللہ کا ذمہ اور اس کے رسول کا ذمہ بھی دیا تھا ، بشرطیکہ وہ مقررہ جزیہ اداکریں۔ اس کے علاوہ آپﷺ نے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یمن روانہ فرمایا اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو ان کا امیر مقرر فرمایا۔

9۔ وفد ِ ہمدان :
یہ وفد ۹ ھ میں تبوک سے رسول اللہﷺ کی واپسی کے بعد حاضر ِ خدمت ہوا۔ رسول اللہﷺ نے ان کے لیے ایک تحریر لکھ کر ، جو کچھ انہوں نے مانگاتھا عطا فرمادیا اور مالک بن نمطؓ کو ان کا امیر مقرر کیا ، ان کی قوم کے جو لوگ مسلمان ہوچکے تھے ان کا گورنر بنایا اور باقی لوگوں کے پاس اسلام کی دعوت دینے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کو بھیج دیا۔ وہ چھ مہینے مقیم رہ کر دعوت دیتے رہے لیکن لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ پھر آپﷺ نے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو بھیجا اور حکم دیا کہ وہ خالدؓ کو واپس بھیج دیں۔ حضرت علیؓ نے قبیلہ ٔ ہمدان کے پاس جاکر رسول اللہﷺ کا خط سنایا اور اسلام کی دعوت دی تو سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہﷺ کو ان کے حلقہ بگوش ِ اسلام ہونے کی بشارت بھیجی۔ آپ نے خط پڑھا تو سجدے میں گرگئے۔ پھر سر اٹھاکر فرمایا؛ ہمدان پر سلام ، ہمدان پر سلام۔
۱۱۔ وفد بنی فَزَارہ :
یہ وفد ۹ ھ میں تبوک سے نبیﷺ کی واپسی کے بعد آیا۔ اس میں دس سے کچھ زیادہ افراد تھے۔ اور سب کے سب اسلام لاچکے تھے۔ ان لوگوں نے اپنے علاقے کی قحط سالی کی شکایت کی، رسول اللہﷺ منبرپر تشریف لے گئے۔ اور دونو ں ہاتھ اٹھاکر بارش کی دعاکی۔ آپ نے فرمایا : اے اللہ ! اپنے ملک اور اپنے چوپایوں کو سیراب کر ، اپنی رحمت پھیلا ، اپنے مردہ شہر کو زندہ کر۔ اے اللہ ! ہم پر ایسی بارش برسا جو ہماری فریاد رسی کردے ، راحت پہنچادے ، خوشگوار ہو ، پھیلی ہوئی ہمہ گیر ہو ، جلد آئے ، دیر نہ کرے ، نفع بخش ہو ، نقصان رساں نہ ہو ، اے اللہ ! رحمت کی بارش ، عذاب کی بارش نہیں۔ اور نہ ڈھانے والی ، نہ غرق کرنے والی اور نہ مٹانے والی بارش۔ اے اللہ ! ہمیں بارش سے سیراب کر ، اور دشمنوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔( زاد المعاد ۳/۴۸)
مکمل تحریر >>